مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟

جاسم محمد

محفلین
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟
وسعت اللہ خان


بیس دسمبر کو یحیی خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ یحیٰی سمیت کئی سینیئر جنرلز کو برطرف کردیا۔شیخ مجیب کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کردی اور قوم سے نشریاتی خطاب میں وعدہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے زمہ داروں کے تعین کے لئے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔

چھبیس دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد پہلی رپورٹ انیس سو بہتر میں اور دوسری رپورٹ انیس سو چوہتر میں پیش کی۔

کمیشن نے درج ذیل افسروں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی۔



جنرل یحییٰ خان: سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و خارجہ تھے۔ بھٹو حکومت نے انہیں گھر میں نظربند رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کردی۔ دس اگست انیس سو اسّی کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔

جنرل عبدالحمید خان: یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ بھٹو حکومت نے انہیں بیس دسمبر انیس سو اکہتر کو برطرف کردیا۔ حالتِ گمنامی میں لاہور کینٹ کے ایک گھر میں انتقال ہوا۔

لیفٹننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ: صدر کے پرسنل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پل سمجھے جاتے تھے۔ بیس دسمبر کو انہیں بھی عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ بعد ازاں تادمِ مرگ گوشہ نشین رہے۔



میجرجنرل گل حسن: سقوطِ ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انہیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کردیا۔ لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد انہیں، ائرفورس کے سربراہ ائر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ مظفر حسن کو ایک ساتھ برطرف کردیا گیا۔ اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے سروس سے برطرفی اور تمام مراعات و تمغے واپس لینے کے بعد انہیں آسٹریا میں سفیر مقرر کردیا۔

گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ جنرل گل حسن کی یاداشتیں انیس سو ترانوے میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے آخری زندگی پنڈی کلب کے دو کمروں میں گذار دی اور وہیں دس اکتوبر انیس سو ننانوے کو انتقال ہوا۔ مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔

میجر جنرل غلام عمر: نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔ اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ مگر الطاف گوہر کے ایک مضمون کے مطابق اٹھائیس لاکھ روپے دوست سیاسی قوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔ اس رقم کو آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل اکبر خان اور راؤ فرمان علی کے توسط سے استعمال ہونا تھا۔ لیکن کیا ہوا کیا نہیں کسی کے پاس حتمی تفصیل نہیں۔ بھٹو حکومت نے غلام عمر کو بھی بیس دسمبر کو برطرف کیا اور کچھ عرصے نظربند رکھا۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیرمین رہے۔

میجر جنرل اے او مٹھا: بیس دسمبر کو جب جنرل گل حسن کی سفارش پر ان کی برطرفی ہوئی تو جنرل مٹھا فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں پچیس مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔ دسمبر انیس سو ننانوے میں لندن میں انتقال ہوا۔ بعد ازاں لندن سے ان کے دوست نے جنرل مٹھا کی بیوہ اندو مٹھا کو یہ جملے لکھے: ’اپنی شاندار زندگی کے آخری دنوں میں وہ صرف ایک ایسا کمرہ چاہتا تھا جس میں وہ کھا پی سکے، لکھ پڑھ سکے اور سو سکے اور چہل قدمی کے لئے ایسی جگہ بھی ہو جہاں سے وہ سامنے پھیلا سبز میدان اور دور پہاڑ دیکھ سکے۔‘

جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انہیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔ جنرل مٹھا نے اپنے پیچھے ایک کتاب چھوڑی ’ان لائکلی بگننگس۔اے سولجرز لائف، بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘۔

لیفٹننٹ جنرل ارشاد احمد خان: اکہتر کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انہوں نے شکر گڑھ کے پانچ سو دیہات بلا مزاحمت دشمن کے حوالے کردیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنام ہوگئے۔

میجر جنرل عابد زاہد ( کمانڈر پندرہ ڈویژن): ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انہوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں اٹھانوے گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو بھارتی دستےمرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔ مگر یہ راز میجر جنرل عابد زاہد جنگ بندی کے بعد ہی جی ایچ کیو کے علم میں لانے کی ہمت کرسکے۔

میجر جنرل بی ایم مصطفی ( کمانڈر اٹھارہ ڈویژن): ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔

حمود الرحمان کمیشن نے درجِ ذیل افسروں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی۔

لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی: جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ انہیں دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاز پر بے جگری سے لڑنے پر ملٹری کراس اور ٹائیگر کا خطاب ملا۔ جب بیشتر جنرلوں نے ایسٹرن کمان کی پوسٹنگ لینے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کردیا تو نیازی نے خود کو اس کام کے لیے پیش کردیا۔ کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہروی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ ’یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہوگئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے‘۔



جنرل نیازی کے خلاف پندرہ الزامات میں کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی۔ بھٹو حکومت نے جنرل نیازی کو رینکس اور ہلالِ جرات سمیت تمغے اور پنشن ضبط کرکے برطرف کردیا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’دی بٹریل آف ایسٹ پاکستان‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ بھٹو کے خلاف تحریک میں پی این اے کے جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہے۔ مرتے دم تک اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے لیکن کسی حکومت نے بوجوہ دھیان نہیں دیا۔ دو فروری دو ہزار چار کو انتقال کرگئے اور سادگی سے دفن ہوگئے۔

میجر جنرل محمد جمشید ( کمانڈر چھتیس ڈویژن ): ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فردِ جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سولہ دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد گوشہ نشین ہوگئے۔

میجر جنرل ایم رحیم خان ( کمانڈر انتالیس ڈویژن): ان کا ڈویژن چاند پور میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے زخمی ہوگئے اور بارہ یا تیرہ دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکرٹری جنرل وزارتِ دفاع اور چیرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس پریذیڈنٹ رہے۔

بریگیڈیر باقر صدیقی ( چیف آف سٹاف۔ایسٹرن کمانڈ): وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ دس دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس ڈنائل پلان پر عمل نہیں کیا۔ ان کے بریگیڈ نے جنرل ناگرہ کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈالے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دورانِ قید ان کے تعلقات نگراں بھارتی افسروں سے اتنے بہتر ہوگئے کہ کلکتہ میں کیمپ سے کبھی کبھار باہر جا کر شاپنگ بھی کرتے رہے۔ بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کردیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کرکے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔

بریگیڈیر محمد حیات ( کمانڈر ایک سو سات بریگیڈ ۔انتالیس ڈویژن): ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چھ دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کردیا گیا۔


Gen. A. A K. Niazi talks-to-a-pipe-smoking-Lt-Gen Jacob-after-the-surrender-ceremony
بریگیڈیر محمد اسلم نیازی ( کمانڈر تریپن بریگیڈ ، نو ڈویژن): ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نو دسمبر کو ایک سو چوبیس بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے۔ اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔

حمود الرحمان کمیشن نے مندرجہ ذیل افسروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی۔

بریگیڈیر ایس اے انصاری ( کمانڈر تئیس بریگیڈ): ان کا نام ان ایک سو پچانوے افراد کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جن پر حکومتِ بنگلہ دیش جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔

بریگیڈیر عبدالقادر خان ( کمانڈر ترانوے بریگیڈ۔چھتییس ڈویژن): خان صاحب فوج میں مونچھوں کے سبب زیادہ مشہور تھے۔ ان کی ذمہ داریوں میں محبِ وطن اور غیر محبِ وطن بنگالیوں کی سکریننگ بھی شامل تھی۔ جب بھارتی ائربورن دستے ڈھاکہ کے نواح میں اترنے شروع ہوئے تو عبدالقادر ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے جمال پور میں بریگیڈ کمان کررہے تھے۔ یہ اس مغالطے میں قیدی بن گئے کہ پیراشوٹوں سے ان کی مدد کے لیے چینی فوج اتر رہی ہے۔

اس کے علاوہ بریگیڈیر منظور احمد ( کمانڈر ستاون بریگیڈ ۔ نو ڈویژن) کے خلاف بھی محکمہ جاتی ایکشن کی سفارش کی گئی۔
 
Top