مشاہدہ حق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکمل

ہمارے زمانے میں دنیا بری طرح انتشار کا شکار ہے، یہ انتشار فطرت انسانی کے بر عکس ہے، وہ انسان جس کے پاس قلب سلیم ہو طبعا مجمتمع ہے، منتشر نہیں، جب وہ اپنی علمی جستجو کے دوران متفرق واقعات کے پیچھے ایک عام قاعدہ دریافت کرتا ہے تو اس کو بے انتہا مسرت ہوتی ہے، اور جب وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ سارے قواعد اور قوانین کے پیچھے ایک مطلق قانون اور ایک مطلق قانون ساز کار فرما ہے تو اس کو ایک خاص قسم کا وجد آتا ہے ۔ اسی وجد کو ایمان کہتے ہیں، جب یہ وجد زیادہ غلبہ پاتا ہے تو عرفان ۔ ۔ ۔ یعنی انسان فطرتا موحد ہے، جب اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی توحید کی پکار سنتا ہے تو اس کا قلب اور اس کی روح تسکین پاتی ہے، وہ کائنات کو ایک ہی مطلق ہستی کا مظہر دیکھتا ہے، کائنات کے سارے اجزا کو جامع اصولوں کے ڈورے میں پرو دیتا ہے اور وہ مشاہدہ کر لیتا ہے کہ کائنات کی جملہ قوتیں اس کے وجود میں جمع ہیں اور کائنات کی وحدت اسی پر منتہا ہے اور وہی اس کا نقطہ مرکزی ہے

میں کوشش کرونگا کہ تھوڑا سا طویل ہو مگر جو واضح کرنا چاہتا ہوں وہ لکھ سکوں ۔ ۔ بیان یہ کرنے ہے کہ انسان کس طرح اپنی فطرت کی تکمیل یعنی توحید حقیقی کو پہنچ سکتا ہے اور اپنی انفرادیت کو وحدت میں کھو کر کیسے پا سکتا ہے یہی راہ تصوف ہے جو اسلام کا قلب و روح ہے اور جس کا نمونہ آنحضرت رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے ۔ ۔ ۔

روحانیت ایک سائنس ہے ۔

چونکہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں مختلف علوم و فنون کو مرتب کرنے اور ترویج دینے کی فراغت نہ تھی اس لئے آپ کے بعد جس طرح مسلمانوں نے قرآن و حدیث میں دیئے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر مختلف علوم و فنون مثل اصول قرآن، حدیث، اصول حدیث، اصول فقہ، علم کلام، علم بیان اور علم صرف و نحود کو باقاعدہ علوم (سائنس) کی شکل میں مرتب کیا۔ علم روحانیت کو بھی انہوں نے قاعدہ سائنس کی شکل میں مرتب اور مدون کیا جس سے آنے والی نسلوں کا کام آسان ہو گیا۔ روحانیت کی منازل اور مقامات کو آدمی اس وقت سمجھ مکتا ہے جب اسے حق اللہ کی ذات و صفات کے متعلق کچھ علم ہو جائےاور انسان کی حقیقت بھی معلوم ہو جائے، لہذا علم روحانیت پر بحث کرنے سے پہلے ہم آئندہ حق تعالی کی ہستی اور حقیقت کو سمجھیں گے، اس کے بعد امید ہے کہ بندہ اور معبود کے درمیان جو تعلق ہے وہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے اور مقصد حیات بھی واضح ہو جائے گا۔

اسلام میں ہستی باری تعالی کا تصور

ہستی باری تعالی کے متعلق کچھ کہنے اور سننے سے پہلے ہم سب کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں یہ موضوع سب سے زیادہ مشکل، دقیق، نازک اور لطیف سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ اس مسئلے کو روایتی وجدان سے نہیں جو اسکا حقیقی حل ہے بلکہ عقل سے سمجھنا چاہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انسانی عقل محدود ہے۔ عقل کا انحصار حواس خمسہ پر ہے جو خود محدود ہیں، اس کے برعکس اللہ تعالی کی ہستی لا محدود، لا انتہا اور بے پایاں ہے تمام منطق اور معقولات اس بات پر متفق ہے کہ لا محدود، محدود میں سما نہیں سکتا۔ اس بنیادی اصول کو ذہن نشین کر لینے سے باقی امور سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اسلام یا ہستی باری تعالی عقل کے خلاف ہے۔ عقل کے خلاف ہونا اور بات اور عقل سے ماورا اور بلند تر ہونا بالکل دوسری بات ہے۔۔ ہماری عقل اس بات کی گواہی تو ضرور دیتی ہے کہ قانون علت و معلول کے تحت دنیا کی کوئ چیز خود بخود وجود میں نہیں آسکتی۔ ۔ کائنات کا وجود اوراس کے ہر ذرہ ہیں عظیم الشان حکمت کا وجود اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ کوئ عظیم الشان حکیم پس پردہ ضرور کار فرما ہے لیکن اس حکیم کی ہستی اس قدر ارفع و اعلی اور لا محدود ہے کہ انسان کی محدود عقل کے لئے اس کا پوری طرح سمجھنا نا ممکن ہے۔۔

منطقی استدلال

قانون علت و معلول کے مطابق بحث کرنے کا نام منطقی استدلال ہے اگرچہ استدلال سے حقیقت پوری طرح آشکار نہیں ہو سکتی تا ہم اس کے ہونے کا ثبوت مل سکتا ہے۔ ایک دفعہ ایک کمیونسٹ نے سوال کیا کہ ثابت کرو کہ خدا ہے ۔ ۔ میں نے کہا اگر میں سوال کروں کہ ثابت کرو کہ جس کرسی پر تم بیٹھے ہو اس کا کوئ بنانے والا ہے ؟ ۔ ۔ تو آپ میری عقل کے معیار کے متعلق کیا کہیں گے ؟ یہی نا کہ تم پاگل خانے کی زینت بننے کے لائق ہو۔۔۔۔ اس نے کہا کہ درست ہے میں نے کہا جب اس معمولی کرسی جس میں صرف یہ حکمت ہے کہ آدمی کو زمین سے دو فٹ اوپر اٹھا رکھتی ہے، کے بنانے والے کی ہستی کا انکار کرنے والے کا مقام آپ کے نزدیک پاگل خانہ ہے اس پوری کائنات جس کے ذرہ ذرہ میں علم اور حکمت کے خزانے بھرے پڑے ہیں اس کے خالق کی ہستی سے انکار کرنے والے کا مقام کہاں ہوگا ۔ ۔ ۔ اس نے کہا یہ دنیا تو ہزاروں سال پرانی ہے ہمیں کیا معلوم کس طرح وجود میں آئ۔ ۔ میں نے کہا آپ اس اہم سوال کا جواب دینے سے کیوں راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ ۔ سوال یہ نہیں کہ کائنات کس طرح وجود میں آئ سوال یہ ہے کہ کائنات اپنے عظیم الشان حکمت کے خزانوں کے ساتھ آپ کے سامنے ہے۔ ادھر تو آپ کشف و کرامات اور خوارق عادات کے قصوں پر یقین نہیں کرتے اور دوسری طرف اتنی بڑی کائنات کے کرشموں اور عجیب و غریب حکمت و سائنس کے خزانوں کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ خود بخود وجود میں آتے ہیں یہ کیا حماقت ہے۔ اس کا جواب اس سے نا بن پڑا اور اٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔۔

انگلینڈ کے مشہور مفکر اسحاق نیوٹن نے ایک ایسی مشین بنوائ جو نظام فلکی کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھی، اس مشین کو چلانے سے تمام مصنوعی ستارے زمین، سورج اور چاند حرکت میں آجاتے تھے اور اپنے اپنے راستے پر چلتے تھے۔ ایک دفعہ ایک دہریہ وہ مشین دیکھنے آیا اور دریافت کیا کہ کس نے بنائ ہے، اس نے کہا کہ کسی نے نہیں یہ خود بخود بن گئی ہے، اس پر دہرئیے نے کہا کہ کیونکر ممکن ہے، یہ بات سن کر نیوٹن مسکرایا ، دہریہ بھی قابل تھا سمجھ گیا کہ نیوٹن نے اسکو ذات حق کا فلسفہ سمجھایا ہے۔

دہریوں کی ایک جماعت ہستی باری تعالی پر بحث کرنے ایک مسلمان مفکر کے پاس آئ۔ ۔ آپ نے فرمایا کل بارہ بجے آنا۔ چنانچہ وہ اگلے دن بارہ بجے آپ کے مکان پر گئے لیکن آپ مکان پر نہیں تھے، دو تین گھنٹے دیر کر کے آپ گھر آتے اور ان لوگوں سے کہا کہ معاف کیجئے گا دیر ہو گئی، وجہ یہ بتائ میں دجلہ کے دوسری طرف گیا ہوا تھا واپسی کے لئے کوئ کشتی نیہں تھی ناچار کنارے پر کھڑا تھا اس کے بعد میں نے دیکھا کہ چند لکڑی کے تختے دریا کے کنارے پر خود بخود آگئے اور آپس میں جڑ کر کشتی کی شکل اختیار کر لی اس کے بعد کشتی پانی میں داخل ہو گئ اور چل کر میرے سامنے کھڑی ہو گئ جب میں اس میں بیٹھا تو وہ خود بخود چل بڑی اور مجھے دریا کے اس طرف لے آئ۔ ۔ یہ بات سن کر ایک دہریہ نے کہا کہ مسلمانوں کے عالم جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ ۔ آپ نے کہا جھوٹ نہیں بالکل سچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیسے ؟ آپ نےکہا ممکن ہے سب کچھ بالکل ایسے جیسے کائنات کا عظیم کارخانہ خود بخود چل رہا ہے اس پر وہ خدا کی ہستی کے قائل ہو گئے ۔۔ تو یہ تھا منطقی استدلال جس کا میں نے تذکرہ کیا۔ ۔ ۔ لیکن منطقی استدلال کافی نہیں ہے کیونکہ اس سے حقیقت کا علم تو ہوتا ہے لیکن حقیقت سامنے نہیں آتی منطقی استدلال کی کمزوری کو دیکھ کر مولانا روم نے فرمایا

"گربہ استدلال کار دیں بدے
فخر رازی دار دیں بدے"

(اگر منطقی اور فلسفیانہ استدلال سے کام بنتا تو امام فخرالدین رازی دین کا راز سمجھ لیتے)

اس کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالی کو سمجھنے کے لئے منطقی استدلال کافی نہیں بلکہ وجدان کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ امام فخرالدین رازی بڑے منطقی تھے اگرچہ آپ نے ایک صوفی بزرگ سے بیعت کی تھی لیکن اس کوچہ میں زیادہ کام نہ کرنے کے باعث دولت قرب و معرفت سے بے بہرہ تھے جب آپ کا انتقال کا وقت آیا تو شیطان پہنچ گیا ۔ اس نے کہا کہ ثابت کرو کہ خدا ہے، آپ نے دلیل دی ، شیطان بھی بڑا عالم تھا اس نے دلیل رد کر دی آپ نے دوسری دلیل دی اس نے وہ بھی رد کر دی اس طرح آپ نے ننانوے دلائل دیے اور شیطان نے رد کر دیے ۔ اب آپ کا چہرہ سیاہ ہونے لگا یہ دیکھ کر آپ کے مرشد نے جو کسی اور شہر میں تھے بلند آواز سے کہا ۔"تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں نے خدا کو بلا دلیل مانا ہے"۔ ۔ یہ بات امام صاحب نے سن لی اور فورا جواب دیا یہ سن کر شیطان بھاگ گیا۔ ۔

قرآن عظیم میں جہاں منطقی دلائل سے کام لیا گیا ہے وہاں اس سے ارفع و اعلی تین قسم کے اور ثبوت بھی مہیا کئے ہیں ۔ منطقی استدلال کے بعد دوسرا ثبوت قانون شہادت ہے یعنی ہر زمانے میں انبیا علیہم السلام جو تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ راست باز، متقی ، پرہیزگار، صدیق اور امین شمار کئے جاتے تھے موجود رہےہیں۔ خدا تعالی کے قرب میں رہ کر اور اس کی ہستی کا مشاہدہ کر کے لوگوں کے سامنے شہادت پیش کرتے ہیں کہ خدا تعالٰی ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ عقل سلیم کا تقاضہ یہ ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کی شہادت قبول کی جائے اگر قانون شہادت پر عمل نا کیا جائے تو ہم زندگی میں ایک انچ بھی آگے نیہں بڑھ سکتے ۔ جب کسی جج کے سامنے قتل کا مقدمہ پیش ہوتا ہے تو ایک آدمی کو پھانسی دینے جیسے اہم کام کے لئے اسے صرف دو گواہوں کی چشم دید شہادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب دو معمولی قسم کے آدمیوں کی شہادت ایک جان لینے کے کئے کافی سمجھی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان راست باز، پاکباز اور متقی و پرہیزگار انسانوں کی شہادت نہ مانی جائے جو ہر زمانے میں مسلسل آتے رہے ہیں اور یہی ایک پیغام دیتے رہے ہیں کہ اللہ برحق ہے۔

علم الیقین۔ ۔ ۔ قانون شہادت کا اعتبار کرنے کا نام شریعت کی اصطلاح میں علم الیقین ہے یعنی علم کا وہ درجہ جو کسی دیکھنے والے کی شہادت کے بعد حاصل ہو۔ اس قسم کے ایمان بالغیب کے بغیر کوئ کام نہیں ہو سکتا۔ آپ کے سر میں درد ہے۔ آپ ڈاکٹر کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ میرے سر میں درد ہے دوا دیجیئے۔ اگر ڈاکٹر آپ کی بات پر اعتبار نہ کرے تو پھر کیا ہوگا۔ اور آپ سے ثبوت طلب کرے تو پھر کیا ہوگا۔ آپ علاج سے محروم رہ جائیں گے۔ اسی طرح جب ڈاکٹر آپ کو دوا دیتا ہے تو آپ بھی اس پر اعتبار کرتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ ثابت کرو کہ اس دوا سے مجھے آرام آجائے گا اگر آپ یہ کہیں گے تو بھی علاج سے محروم رہ جائیں گے۔ ۔ غرض علم الیقین یعنی شہادت کے بغیر دنیا کا کوئ کام نہیں ہو سکتا ۔

عین الیقین۔ ۔۔ ۔ ۔ علم الیقین کے بعد بھی ایمان کا دوسرا درجھ ہے جسے عین الیقین کہتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کو دیکھ کر اس کا یقین کرنا ۔ چنانچہ قرآن عظیم میں منطقی دلائل اور علم الیقین کے بعد تیسری قسم کا ثبوت عین الیقین ہے۔ قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے اور روحانی ماہرین فن کی ہدایات اور ترتیب کے بعد آدمی روحانی ترقی کی اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ حقیقت باری تعالی کو اپنی آنکھوں سے یعنی باطنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ ایمان بااللہ کے اس درجہ کو عین الیقین کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔۔ ۔ ۔

حق الیقین۔ ۔ ۔ ۔ اسلام نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا اور ایمان کے اس بلند ترین درجہ تک بنی نوع انسان کی راہ نمائی کی ہے جسے علم روحانیت کی اصطلاح میں حق الیقین کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حق الیقین کا مطلب ہے حق تعالی کو اپنے اندر محسوس کرنا۔ علم الیقین کی مثال اس شخص کے ایمان کی ہے جس نے آگ نہیں دیکھی لیکن سنا ضرور ہے کہ آگ جلاتی ہے ۔ ۔ عین الیقین کا مرتبہ اس شخص کو حاصل ہے جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ آگ جلا رہی ہے اور حق الیقین کا مقام یہ ہے کہ آدمی آگ میں ہاتھ ڈال کردیکھ لے کہ آگ جلاتی ہے۔

سب سے اہم بات جو یاد رکھنے کی قابل ہے یہ ہے کہ عقل اور منطقی ثبوت کو اسلام میں کافی نہیں سمجھا گیا کیونکہ اس سے خدا تعالی کی ہستی انسانی عقل کی ایجاد ہو جاتی ہے اور جو چیز عقل کی اختراع ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا اپنی عقل کی ایجاد کردہ ہستی پر یقین لانا شرک ہے کونکہ وہ عقلی دلائل سے زیادہ قانون شہادت کو ترجیح دیتا ہے اور قانون شہادت پر بھی اکتفا نہ کرتے ہوئے مزید در مزید ثبوت بہم پہنچاتا ہے یعنی حقیقت کو اس کی آنکھوں کے سامنے آشکار کرتا ہے اور مزید برآں قلب کے اندر اس کی ہستی کو محسوس کراتا ہے بلکہ طالب حق ذات و صفات میں فنا ہو جاتا ہے اور دوئ مٹ جاتی ہے اس سے بڑھ کر ہستی باری تعالی کے متعلق ثبوت نہ دنیا میں ہے نہ ہو سکتا ہے نہ ہو گا کیونکہ فنا کا درنہ آنکھوں سے دیکھنے سے بھی زیادہ ہے اور دنیا کی کوئ ایسی چیز نہیں ہے جس سے آپ اس درجہ قرب و وصال حاصل ہو کہ وہ اور آپ ایک ہو جائیں ۔ ۔ ۔ذات باری تعالی کے متعلق اس قسم کا یقین محکم دنیا کی ہر چیز کے متعلق یقین سے قوی تر، بلند تر اور مضبوط تر ہے، بلکہ یہ یقین آپ کی اپنی ہستی میں یقین سے بھی محکم تر ہوتا ہے کیونکہ قرب و وصال حق کی بلند منازل میں آپ کی موہوم اور اعتبار کی ہستی میں گم ہو جاتی ہے اور ذات باری تعالی باقی رہ جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب بتایے کہ اس سے زیادہ ثبوت اور کیا چاہیے۔ ۔ ۔
 
Top