مشاہدہ حق ۔ ۔ ۔ حصہ اول

ہمارے زمانے میں دنیا بری طرح انتشار کا شکار ہے، یہ انتشار فطرت انسانی کے بر عکس ہے، وہ انسان جس کے پاس قلب سلیم ہو طبعا مجمتمع ہے، منتشر نہیں، جب وہ اپنی علمی جستجو کے دوران متفرق واقعات کے پیچھے ایک عام قاعدہ دریافت کرتا ہے تو اس کو بے انتہا مسرت ہوتی ہے، اور جب وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ سارے قواعد اور قوانین کے پیچھے ایک مطلق قانون اور ایک مطلق قانون ساز کار فرما ہے تو اس کو ایک خاص قسم کا وجد آتا ہے ۔ اسی وجد کو ایمان کہتے ہیں، جب یہ وجد زیادہ غلبہ پاتا ہے تو عرفان ۔ ۔ ۔ یعنی انسان فطرتا موحد ہے، جب اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی توحید کی پکار سنتا ہے تو اس کا قلب اور اس کی روح تسکین پاتی ہے، وہ کائنات کو ایک ہی مطلق ہستی کا مظہر دیکھتا ہے، کائنات کے سارے اجزا کو جامع اصولوں کے ڈورے میں پرو دیتا ہے اور وہ مشاہدہ کر لیتا ہے کہ کائنات کی جملہ قوتیں اس کے وجود میں جمع ہیں اور کائنات کی وحدت اسی پر منتہا ہے اور وہی اس کا نقطہ مرکزی ہے

میں کوشش کرونگا کہ تھوڑا سا طویل ہو مگر جو واضح کرنا چاہتا ہوں وہ لکھ سکوں
۔ ۔ بیان یہ کرنے ہے کہ انسان کس طرح اپنی فطرت کی تکمیل یعنی توحید حقیقی کو پہنچ سکتا ہے اور اپنی انفرادیت کو وحدت میں کھو کر کیسے پا سکتا ہے یہی راہ تصوف ہے جو اسلام کا قلب و روح ہے اور جس کا نمونہ آنحضرت رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


سست ٹائپنگ کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا لکھ سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ معذرت
 
Top