فرقان احمد
محفلین
مسکراتے ہوئے ماضی کو صدا دی جائے
آج کی رات تو یادوں سے سجا دی جائے
بادبانوں کو جنوں خیز ہوا دی جائے
پھر یہ کشتی رہِ منزل پہ لگا دی جائے
قبل اس کے کہ کوئی حادثہ ہم پر گزرے
یہ لرزتی ہوئی دیوار گرا ۔۔۔ دی جائے!
کیا یہاں مصلحتِ وقت کے چوراہے پر
یہ محبت کی امانت بھی لٹا دی جائے!!!
میں افق پر ہوں چمکتا ہوا سورج ماہرؔ
شمع محفل تو نہیں ہوں کہ بجھا دی جائے
آج کی رات تو یادوں سے سجا دی جائے
بادبانوں کو جنوں خیز ہوا دی جائے
پھر یہ کشتی رہِ منزل پہ لگا دی جائے
قبل اس کے کہ کوئی حادثہ ہم پر گزرے
یہ لرزتی ہوئی دیوار گرا ۔۔۔ دی جائے!
کیا یہاں مصلحتِ وقت کے چوراہے پر
یہ محبت کی امانت بھی لٹا دی جائے!!!
میں افق پر ہوں چمکتا ہوا سورج ماہرؔ
شمع محفل تو نہیں ہوں کہ بجھا دی جائے