مسکرائیے

عمار یاسر

محفلین
اپنی صورت کا کبھی تو دیدار دے
تڑپ رہا ہوں اب اور نہ انتظار دے
اپنے آواز نہیں سنانی تو مت سنا
کم سے کم ایک مسڈ کال ہی مار دے
--------
اور بھی چیزیں بہت سی لٹ چکی ہیں دل کے ساتھ
یہ بتایا دوستوں نے عشق فرمانے کے بعد
اب کمرے کی اک اک چیز چیک کرتا ہوں میں
اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جانے کے بعد
---------
زمانے کے ڈر سے اسکی تصویر
ٹوایلٹ میں چھپا رکھی ہے
دیدار ہو اسکا بار بار اسلیے
جلاب کی گولی کھا رکھی ہے
-----------
 

ثناءاللہ

محفلین
کوچئہ یار میں جو میں نے جبیں سائی کی
اس کے ابا نے میری خوب پزیرائی کی
میں تو سمجھا تھا کہ وہ شخص مسیحا ہو گا
اس نے میری تو مگر تارا مسیحائی کی
وہ بھی بزم میں کہتی ہے مجھے انکل جی
ڈپلومیسی ہے یہ کیسی مری ہمسائی کی
رات حجرے میں علاقے کی پولس گھس آئی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
میں جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجا نکلی
بات نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی

(ضیاءالحق قاسمی)
 

شمشاد

لائبریرین
عمار کا آخری قطعہ زبردست ہے۔ ہاہاہاہاہا

زمانے کے ڈر سے اسکی تصویر
ٹوایلٹ میں چھپا رکھی ہے
دیدار ہو اسکا بار بار اسلیے
جلاب کی گولی کھا رکھی ہے
 
حسد کیا رشک کیا جب ہو تجھے فٹ پاتھ پہ رہنا
گ۔زر اوق۔ات ہوتی ہے اہ۔ل زر کے م۔کان۔وں م۔۔۔۔۔یں
ح۔کومت نے اگ۔ر جھ۔گی گ۔۔رادی ہے تو کی۔ا پروا
’’تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں‘‘
 
دو بجے تھے رات کے ہر سمت تھا گہرا سکوت
اور م۔یں فرما رہا تھ۔۔ا ش۔۔وق سے مش۔قِ س۔خن
ج۔اگ اُٹھ۔ی بیگم اچانک چیخ ک۔ر اُس نے کہ۔ا
’’ت۔و اگر م۔یرا نہ۔یں بن۔تا ن۔ہ ب۔ن اپ۔۔نا ت۔و بن‘‘
 
معلوم ہوتا ہے شاعر ہکلا ہے۔ :noxxx:

چلیں ہکلے شاعر کو جانے دیجئے، اسی مصرعے کے ساتھ دوسری رباعی ملاحظہ ہو:

کار بی۔۔چ۔ی قُ۔۔رق کوٹھ۔ی ہوگ۔ئ۔ی س۔۔روس گ۔۔ئی
نازنیں کے گھر میں جاپہنچا ہے اپنے گھر کا دھن
اس پر اس کی دیدہ دلی۔ری دیکھیے کہتی ہے ی۔ہ
’’ت۔و اگ۔ر م۔یرا نہ۔یں بن۔تا ن۔ہ ب۔ن اپ۔۔نا ت۔و بن‘‘
 
عید الاضحٰی نزدیک ہے، اس حوالے سے ایک آدھ رباعی:
اپن۔۔۔۔ا ت۔۔۔و خی۔۔ر ن۔۔ام۔۔ۂ اعم۔۔۔ال لے گ۔ئے
جس جس کے جو بھی ہاتھ لگا، مال لے گئے
من۔ڈی سے لاکے بان۔دھ رکھ۔ا تھ۔ا رقیب نے
بک۔را کھ۔ڑا ہے، چ۔ور مگ۔ر کھ۔ال لے گ۔ئے
 
عید قرباں پر پاکستان میں کھالیں جمع کرنے کے سلسلے میں کئی تنظیمیں آپس میں دست وگریباں نظر آتی ہیں، اسی حوالے سے ایک رباعی:

رشک آئے ہے اس بک۔رے ک۔ی تق۔۔دیر پ۔ہ ہم کو
گو پہلے ہی ہم رشک کے مارے ہی نہیں ہیں
اے بکرے تیری کھ۔ال کے کتنے ہیں طلب گار
اتنے ت۔۔و ط۔لب گار ہم۔ارے بھی نہ۔۔یں ہ۔۔۔۔یں
 
ٹ۔۔ی وی ک۔ے اِک اِک چ۔ی۔۔ن۔ل سے گان۔۔وں کا دری۔۔ا بہ۔۔تا ہے
ی۔۔۔ہ ظ۔۔۔۔لم بے چ۔۔۔ارہ ناظ۔۔۔ر ہی اپن۔۔ی ج۔۔۔ان پ۔۔۔ہ سہ۔۔تا ہے
اب رات ک۔۔۔و س۔۔ونے سے پ۔ہ۔۔لے پ۔۔۔۔پو م۔م۔۔ی سے ک۔ہ۔۔تا ہے
’’میرے سامنے والی کھڑکی میں اِک چاند سا چہرہ رہتا ہے‘‘
 

یوسف-2

محفلین
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے کس ہنگام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے :biggrin:

(سید ضمیر جعفری مرحام)
 
Top