مسلم بادشاہوں کی ہندوستان میں اشاعت دین

سید عمران

محفلین
اسلام دشمنی میں عیسائی اور ہندو مؤرخوں نے ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کے خلاف جو زہر اگلا ہے اور ان کی اچھائیوں اور نیکیوں کو چھپا کر ان کی برائیوں کو پھیلایا ہے اس سے عوام بھی یہی سمجھنے لگے کہ ان سلاطین کے پلے کوئی خوبی نہیں تھی محض برائیاں ہی برائیاں تھیں۔ حالاں کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی سرزمین ہندوستان پر جب تک مسلمان بادشاہ حکمران رہے دین اسلام بادشاہوں کی طرح سربلند رہا اور مسلمان شہزادوں کی زندگی گزارتے رہے۔ شہزادوں سے مراد مال دار ہونا نہیں بلکہ اسلام کے احکامات کی بجا آوری ڈنکے کی چوٹ پر شہزادوں کی طرح کرتے تھے، کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا، ان کی جان، مال اور آبرو پر حملہ تو دور کی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بادشاہوں کے دور میں ہندو مسلم فساد نہ ہونے کے برابر تھے۔

اگرچہ یہ بادشاہ علماء و صوفیاء کی طرح خالصتاً دین کے نمائندے نہ تھے، دنیا داری اور عیش و عشرت میں بھی غرق تھے اس کے باوجود ان کی اکثریت اسلام کے احکام کی تابع داری کرتی تھی، خود بھی اسلامی روح سے مزین تھی اور اسلامی شعائر کی محافظ بھی تھی اور ان بادشاہوں کی حکمرانی ہندوستان میں اشاعت دین کا سبب بھی بنی۔

ہندوستان کے بادشاہ قطب الدین ایبک سخاوت میں حضرت ابوبکر کی اور عدل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی تقلید کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ حضرت بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ’’فوائد السالکین‘‘ میں ہے کہ سلطان شمس الدین التمش کی طرف سے عام اجازت تھی کہ جولوگ بھی فاقہ سے ہوں اس کے پاس لائے جائیں۔ جب وہ آتے تو ان میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دیتا اور ان کو قسمیں دے کرتلقین کرتا کہ جب ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ ہو یا ان پر کوئی ظلم کرے تو وہ یہاں آکر عدل وانصاف کی زنجیر جوباہر لٹکی ہوئی ہے ہلائیں تاکہ ان کے ساتھ انصاف کیا جاسکے،ورنہ قیامت کے روز ان کی فریاد کا بوجھ وہ برداشت نہ کرسکے گا۔

سلطان غیاث الدین بلبن مظلوموں کی داد رسی اور انصاف پروری میں اپنے بھائیوں،لڑکوں اور مقربوں کابھی لحاظ نہ کرتا تھا اور جب تک مظلوم کے ساتھ انصاف نہ کرلیتا،اس کے دل کو سکون نہیں آتا تھا۔اسی لیے اس کے بیٹے، عزیز و اقارب اور خاص دوست احباب کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کسی کے ساتھ زیادتی کرسکیں۔ خود اس زمانے کے ہندوؤں نے اس کی حکومت کو دل کھول کر سراہاہے ۔۱۳۳۷بکرمی مطابق ۱۲۸۰ء کا ایک سنسکرت کُتبہ پالم میں ملا ہے جس میں لکھا ہے:

’’بلبن کی سلطنت میں آسودہ حالی ہے۔اس کی بڑی اور اچھی حکومت میں غور سے غزنہ اور دراوڑسے رامیشور تک ہرجگہ زمین پربہار ہی بہار کی دل آویزی ہے،اس کی فوجوں نے ایساامن و امان قائم کیا ہے جوہر شخص کو حاصل ہے ، سلطان اپنی رعایا کی خبر گیری ایسی اچھی طرح کرتاہے کہ خود وِشنو (ہندوؤں کے دیوتا)دنیا کی فکر سے آزاد ہوکر دودھ کے سمندر میں جاکر سورہے ہیں۔‘‘

سلطان علاء الدین خلجی کے بارے میں امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ’’خزائن الفتوح‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس نے حضرت عمر کے دور جیسا عدل قائم کررکھا ہے۔سلطان محمد بن تغلق کے بارے میں سلاطین دہلی اور مغل بادشاہوں کے د ورکے موٴرخین لکھتے ہیں کہ وہ عدل و انصاف کے لیے مشایخ اور علماء کی بھی رعایت نہیں کرتا تھا، اگر وہ مجرم ہوتے تو ان کو بھی بلاتامل سزائیں دیتا تھا۔ سلطان ہفتہ میں شنبہ کو دربارعام منعقد کرتا اور ایک نقیب بلند آوازسے پکارتا کہ مظلوم اپنی فریاد سنائیں،اہل حاجت اپنی ضرورتیں پیش کریں،جس کو کوئی شکایت ہو وہ حاضر ہوجائے۔نقیب کے خاموش ہوتے ہی اہل حاجت آتے اور سلطان کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے حالات بیان کرتے،اس دوران کسی کو انہیں روکنے کی اجازت نہ تھی۔ سلطان نے اپنے شاہی محل میں چار مفتی تعینات کر رکھے تھے، جب کوئی فریادی آتاتو سلطان ان سے مشورہ کرتا تھا۔ ان مفتی حضرات کو متنبہ کررکھا تھا کہ اگرکوئی بے قصور ان کے فیصلہ کی بدولت تہ تیغ ہواتواس کاخون ناحق ان ہی کے گردن پر ہوگا۔

سلطان فیروز شاہ کی حکومت کے متعلق آج کے دور کے ہندو موٴرخین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا دورِ حکوت عدل و انصاف سے بھرپور تھا،کسی کو ظلم کرنے کی ہمت نہ تھی،پورے ملک میں امن وسکون تھا ،چیزوں کی فراوانی تھی،اعلیٰ وادنیٰ ہرطبقہ کے لوگ مطمئن تھے،عام رعایاقانع اور دولت مند ہوگئی تھی۔

مغل بادشاہ بابر اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ اس کی فوج بھیرہ سے گزررہی تھی تو سپاہیوں نے بھیرہ والوں کو ستایا تو فوراًان سپاہیوں کو گرفتار کرکے بعض کو سزائے موت کا حکم دیا اور بعض کی ناکیں کٹواکر تشہیر کرائی۔ اکبر بادشاہ نے روزانہ ڈیڑھ پہر عدل و انصاف کے لیے مقرر کر رکھاتھا۔ جہاں گیر بادشاہ تو اس معاملے میں اور بھی سخت تھا،وہ روزانہ دو گھنٹے عوام کی شکایتیں سنتا تھا۔اس نے اپنے محل میں ایک زنجیر لٹکا رکھی تھی تاکہ ہر شخص بلا روک ٹوک براہِ راست اس سے فریاد کرسکے۔وہ سفر میں بھی ہوتا تھا تو روزانہ تین گھنٹے مظلوموں کی فریادسنتا اور ظالموں کو سزادیتا تھا۔علالت کے زمانہ میں بھی اس کایہ معمول جاری تھا۔اس نے اپنی تزک میں لکھا ہے کہ ”مخلوق خداکی نگہبانی کے لیے میں رات کوبھی جاگتاہوں اور سب کے لیے اپنے آپ کو تکلیف دیتا ہوں۔‘‘جہانگیر بادشاہ اپنی چہیتی بیگم نور جہاں کو ایک عورت کے شوہر کو ہلاک کرنے پر موت کی سزا دینے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔

مغل بادشاہوں کا دستور تھا کہ وہ دیوان عام میں عوام کی شکایتیں سنتے جہاں ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی ان کے پاس آسانی سے پہنچ سکتا تھا۔جوبھی چاہتا دربارعام میں حاضر ہوکر اپنا استغاثہ خود پیش کرتا ،دربار کے عہدے دار اس کو بادشاہ کے سامنے پیش کرتے، بادشاہ اس کو پڑھواکر سنتا،مدعی سے جرح کرتا اور پھر مناسب کارروائی کے لیے فیصلہ صادر کرتا۔ مجرم بڑا عہدیدار یا شاہی خاندان کا بھی فرد ہوتا تو اس کو بھی سزا دینے میں تامل نہ کرتا۔

شاہ جہاں نے گجرات کے ناظم حافظ محمدنصیر کوحبس دوام کی سزااس لیے دی کہ وہ گجرات کے تاجروں کے ساتھ ظالمانہ طریقہ سے پیش آتاتھا۔اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ کے ناقدین بھی اس پر یہ الزام نہیں رکھ سکتے کہ وہ عدل پرور نہیں تھا،اس نے اپنے باپ شاہ جہاں کواس کی معزولی کے بعد ایک رقعہ میں لکھا کہ خدا وندتعالیٰ اس کوکچھ عطا کرتا ہے جس میں رعایا کی حالت سدھارنے اور ان کی حفاظت کی صلاحیت ہوتی ہے ، حکمرانی کے معنی لوگوں کی نگہبانی ہے نہ کہ تن پروری اور عیاشی۔

مجموعی طور پر مسلمان حکمراں امن وامان قائم رکھتے تھے۔اگرچہ انہوں نے ریاست کا قانون بدل کر اسلامی قانون رائج کردیاتھا اس کے باوجود ہندورعایا کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔یہ مسلمان بادشاہوں کی عدل پروری کا نتیجہ تھا کہ جو بادشاہ مذہبی ہوتے انہوں نے جزیہ یا نئے مندر کے بننے اور نہ بننے کاسوال تو اٹھایا لیکن غیر مسلموں پر اپنا مذہب زبردستی لادنے کی کوشش نہیں کی ۔وہ خود تو اسلام کے محافظ اور نگہبان رہے اور مسلمانوں کو بھی اوامرونواہی کی پابندی کرانے کی کوشش کی لیکن کبھی غیر مسلم رعایا کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہیں کی اور ان کی معاشرتی زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔اکبر نے انسان دوستی کے جذبہ سے ستی کے رسم کو روکنے کی کوشش کی،کمسن بیواؤں کے رواج کو بھی ختم کرنا چاہا ،بچپن کی شادی کے خلاف بھی کچھ عملی کار روائی کی، لیکن اپنی ہمدردانہ خواہشوں کو کبھی تلوار کی نوک سے عمل میں نہیں لایا ۔بعض فرماں رواؤں پر جبری تبلیغ کا الزام عائد کیا جاتاہے ، لیکن تحقیقات سے یہ الزامات زیادہ تر بے بنیادثابت ہوئے۔ ہندوموٴرخین لکھتے ہیں کہ یوپی چھ سوسال تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہا،لیکن یہاں مسلمان صرف چودہ فیصد ہیں ،اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مذہب محفوظ رہا اور جبری اشاعت اسلام نہیں ہوئی،اور ہندوؤں کوزبوں حال نہیں بنایاگیا ،تمام سلاطین اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ ان کاسیاسی مفاد اسی میں ہے کہ یہاں کے لوگوں کے مذہبی اور معاشرتی نظام میں مداخلت نہ کریں،اس رواداری کے بغیر ان کی حکومت زیادہ دنوں تک قائم بھی نہیں رہ سکتی تھی۔

جن سلاطین کا ذکر کیا گیا ہےوہ مسلمانوں کے دور عروج کے اچھے حکمراں تھے،اگر ان میں واقعی یہ خوبیاں نہ ہوتیں تو خون سے ہولی کھیلنے والے راجپوتوں کی سرزمین میں ان کا اور ان کے ہم مذہبوں کا قدم جمنا آسان نہ ہوتا۔مغل خاندان کے پہلے چھ بادشاہوں کے حربی،سیاسی،اقتصادی اور تمدنی کارنامے اتنے شاندارہیں کہ اس خاندان کے آخری تیرہ نااہل حکمراں انہیں کارناموں کی بدولت ڈیڑھ سو برس تک تخت وتاج کے مالک بنے رہے۔

ہندوستان میں اسلام کی اشاعت میں سلاطین،صوفیاء،علماء،عرب تاجروں اور کسی حدتک عام مسلمان بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر کام کیا۔سلاطین ہند نے ملک فتح کرکے یہاں کے باشندوں کو ایک مرکز سے جوڑااور مسلمانوں کو ا ن کے درمیان رہنے کاموقع فراہم کیاجن کی عادات و اطوار سے مقامی باشندے متأثر ہوئے اور اسلام قبول کرکے مسلمان معاشرے میں ضم ہوتے گئے۔دوسرے یہ کہ ان بادشاہوں نے جب کسی علاقہ پر فتح حاصل کی توان کے سامنے قبول اسلام کی پیش کش رکھی جس کو بہت سے ہندوؤں نے قبول کیا۔اس کے بعد پھر یہی سلاطین مقامی باشندوں کواعزازواکرام سے نوازتے جس کے اچھے اثرات پڑے جس کی آخری شکل حلقہ اسلام میں شمولیت تھی۔اگر مسلمان ہندوستان میں سیاسی افق پر کمزور ہوتے تو بقول ایک ہندو مؤرخ کے یہ بھی امکان تھا کہ ہندوستان میں ہندی ادیان کے گھنے جنگل میں اسلام کی شخصیت ہی گم ہوجاتی۔

اگر مسلمان بادشاہ اسلام پسند اور طاقت ور نہ ہوتے تو صوفیائے کرام جو سلاطین وقت سے الگ تھلگ ہوکر دین کی دعوت کو عام کیے ہوئے تھے کیسے اور کیوں کر یہاں آتے اور کون انہیں اس کفرستان میں قال اللہ وقال الرسول کی آواز بلند کرنے کی اجازت دیتا؟ تاریخ کی کتابیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں کہ ان پاک نفوس کی برکت سے بے شمارلوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے۔

علمائے کرام نے بھی اسلامی تعلیمات کو ہندوستان کے کونے کونے میں عام کیا۔ یہ علماء ایسی کڑی کاکام کررہے تھے جو ایک طرف سلاطین ہند سے ملتے تھے تو دوسری طرف صوفیاء اور مشایخ کی خانقاہوں سے۔ مسئلہ صرف قبول اسلام تک محدود نہیں بلکہ ان کی تعلیم وتربیت اور دینی فہم کی بھی ضرورت تھی جس کے لیے ان علماء کرام کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔اسی طرح عرب تاجر بھی ملک کے جنوبی ساحلی حصے میں اپنے اخلاق وکردار اورصفائی معاملات کی وجہ سے اسلام کی اشاعت میں کوشاں تھے۔

در حقیقت ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں اشاعت اسلام کا کام کسی فرد واحد کا کام نہیں تھا،اس کے لیے مختلف طبقات کے لوگوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اگر مسلمان سلاطین نہ ہوتے تو یقیناً انہیں اشاعت اسلام کے لیے سازگار ماحول ہرگز میسر نہ آتا۔ ان مسلم سلاطین ہند نے اپنے اپنے عہد میں اسلامی احکام و تہذیب کو بڑی حدتک فروغ دیا۔
 
یقینی بات ہے کہ مسلمان حکمران بہت سی خوبیوں سے مزین تھے جبھی تو مسلمان قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود 1000 سال تک اتنے بڑے غیر مسلم اکثریتی علاقے پر حکومت کر پائے۔
 
Top