مسلم اُمّہ کا امریکہ سے شکوہ(خالد عرفان)

جاسمن

لائبریرین
مسلم اُمّہ کا امریکہ سے شکوہ
(خالد عرفان)

کیوں گنہ گار بنوں ویزا فراموش رہوں
کب تلک خوف زدہ صورت خرگوش رہوں
وقت کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ خاموش رہوں
ہم نوا! میں کوئی مجرم ہوں کہ روپوش رہوں
شکوہ امریکہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
چونکہ اس ملک کا صحرا بھی چمن ہے مجھ کو

گر ترے شہر میں آئے ہیں تو معذور ہیں ہم
وقت کا بوجھ اٹھائے ہوئے مزدور ہیں ہم
ایک ہی جاب پہ مدت سے بدستور ہیں ہم
بشؔ سے نزدیک مشرفؔ سے بہت دور ہیں ہم
یو ایس اے شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
طالب ایڈ سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

تیرا پرچم سر افلاک اڑایا کس نے
تیرے قانون کو سینے سے لگایا کس نے
ہر سینیٹر کو الیکشن میں جتایا کس نے
فنڈ ریزنگ کی محافل کو سجایا کس نے
ہیلریؔ سے کبھی پوچھو کبھی چک شومر سے
ہر سینیٹر کو نوازا ہے یہاں ڈالر سے

جیکسن ہائیٹس کی گلیوں کو بسایا ہم نے
کونی آئی لینڈ کی زینت کو بڑھایا ہم نے
گوریوں ہی سے نہیں عشق لڑایا ہم نے
کالیوں سے بھی یہاں عقد رچایا ہم نے
آ کے اس ملک میں رشتے ہی فقط جوڑے ہیں
بم تو کیا ہم نے پٹاخے بھی نہیں چھوڑے ہیں

جب برا وقت پڑا ہم نے سنبھالی مسجد
کب تلک رہتی مسلمان سے خالی مسجد
جب ہوئی گھر سے بہت دور بلالی مسجد
ہم نے ''تہہ خانے'' میں چھوٹی سی بنا لی مسجد
ہم نے کیا جرم کیا اپنی عبادت کے لیے
صرف میلاد کیا جشن ولادت کے لیے

ہم نے رکھی ہے یہاں امن و اماں کی بنیاد
اپنی فطرت میں نہیں دہشت و دنگا و فساد
ہر مسلمان پہ یو ایس اے میں پڑی ہے افتاد
پھر بھی ہم نے ترے شہروں کو کیا ہے آباد
تجھ سے اقرار محبت کی سزا پائی ہے
ہم نے اس ملک میں جھٹکے کی چکن کھائی ہے

گر گیا تیز ہواؤں سے اگر طیارہ
پکڑا جاتا ہے مسلمان یہاں بے چارا
کبھی گھورا کبھی تاڑا تو کبھی للکارا
کبھی سب وے سے اٹھایا کبھی چھاپہ مارا
تو نے یہ کہہ کے جہازوں کو کراچی بھیجا
یہ بھی شکلاً ہے مسلمان اسے بھی لے جا

ہم مسلمان ہیں دہشت کے روادار نہیں
کسی خطے کے بھی انسان سے بیزار نہیں
قتل اور خوں کی سیاست کے طرف دار نہیں
دافع جنگ فقط پھول ہیں تلوار نہیں
ہم یہاں امن کے حامی ہیں تجھے فکر نہیں
میرے قرآن میں دہشت کا کہیں ذکر نہیں

میڈیا تیرا دوات اور قلم تیرے ہیں
جتنے بھی ملک ہیں ڈالر کی قسم تیرے ہیں
یہ شہنشاہ یہ ارباب حرم تیرے ہیں
کاش تجھ کو یقیں آ جائے کہ ہم تیرے ہیں
تو نے جب بھی کبھی مانگا ہے تجھے تیل دیا
تجھ کو جب موقع لگا تو نے ہمیں بیل دیا

حالت جنگ میں ہم لوگ ترے ساتھ رہے
تاکہ دنیا کی قیادت میں تری بات رہے
اور مسلمان ہی محروم عنایات رہے
کچھ تو ڈی پورٹ ہوئے نذر حوالات رہے
ہم ترے سب سے بڑے حلقۂ احباب میں ہیں
پھر بھی طوفاں سے نکلتے نہیں گرداب میں ہیں

''ایڈ'' میں تیری عجب معرکہ آرائی ہے
موت کے ساز میں لپٹی ہوئی شہنائی ہے
اسلحہ دے کے جو دشمن کی پذیرائی ہے
ہم وفادار نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے​
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
چھاپہ پڑتا ہے تو بے چارے مسلمانوں پر​
 
مدیر کی آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
کیا کہنے کیا کہنے سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے گونگے سے آتش فشان جذبوں کو نطق دے دیا آپ نے ۔۔۔
 
Top