مسلمانوں کے تخلیقی اذہان کی مغرب منتقلی (برین ڈرین)۔۔۔ غزالی فاروق

جاسم محمد

محفلین
جاسم بھائی اس کی وجہ میں نے عرض کر دی ہے۔ اسلامی ریاست معاشرے میں معروف کی دعوت دیتی ہے اور منکر کو روکتی ہے۔ لیکن باطل عقائد و مذاہب کی معاشرے میں کھلے عام دعوت دراصل منکر کی دعوت ہے جو منکر کو روکنے کے فریضے کے عین منافی ہے۔ دو متضاد چیزیں تو اکٹھی نہیں ہو سکتی نہ؟
غیر مسلموں کے عقائد باطل ہیں ایسا آپ کا بطور مسلمان ماننا ہے۔ اسی بنیاد پر غیر مسلم آپ کے اسلامی عقائد کو باطل مانتے ہیں۔ اگر سچ مانتے تو خود ہی مسلمان نہ ہو جاتے؟ جیسے آپ کو بطور مسلمان شہری اپنے عقائد معاشرہ میں پھیلانے کا حق حاصل ہے وہی حق غیر مسلم شہریوں کو بھی دیں۔ بطور صورت دیگر یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
باقی دہرا معیار آپ اسے بھی کہہ سکتے ہیں کہاسلامی ریاست میں کوئی غیر مسلم شخص حاکم نہیں بن سکتا۔ حاکم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ لیکن اللہ کا حکم ایسا ہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روشنی اور اندھیرا ، اور ہدایت اور گمراہی ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا بعض معاملات میں دونوں کے ساتھ برتاؤ یکساں نہیں بلکہ مختلف بھی ہو جاتا ہے۔
یعنی آپ خود اقرار کر رہے ہیں کہ اسلامی ریاست مسلم اور غیر مسلم شہریوں میں فرق کرتی ہے۔ اور اس کے باوجود پوری ڈھٹائی سے اس کا دفاع کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک غیر مسلم سائنسدان کو اپنے علم اور قابلیت کی بنیاد پر ریاست کے تمام مسلم سائنسدانوں پر برتری اور فوقیت حاصل ہو گی اور وہ اپنے شعبے سے متعلق بہتر سے بہتر پوزیشن پر کام بھی کر سکے گا۔
جیسے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کیساتھ برتاؤ کیا گیا تھا کیونکہ وہ قادیانی تھے؟
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا ہی ہے۔ لیکن غیر مسلم توخدا، قرآن اور رسول ﷺ کا انکار بھی کرتے ہیں۔ کیا ہم بھی ان کا انکار کر دیں کیونکہ وہ بھی انکار کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو ان کے کہنے پر ہم ناجائز قبضہ کیوں کہیں اسےجبکہ ہمارے مطابق یہ جائز ہے؟

انہوں نے اپنے عقیدے کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ہم نے اپنے۔ دو فریقوں کے لیے صحیح وہ ہے جس کو اس کا عقیدہ درست کہتا ہے۔ اور اس میں عقیدے کے اختلاف کاے باعث دونوں میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
دو مختلف مذہب رکھنے والے شہریوں کے مابین تنازعہ کو اس ملک کا آئین و قانون حل کرتا ہے۔ جبکہ دو مختلف ممالک کے مابین تنازعات کو اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف وغیرہ دیکھتے ہیں۔ یعنی کوئی تیسری پارٹی ثالث بن کر مسئلہ حل کرتی ہے۔ چونکہ اپنے اپنے مذہب یا نظریہ کے مطابق دونوں فریق خود کو ٹھیک کہتے ہیں اسلئے اس کا حل کوئی تیسرا نکالتا ہے جسے ثالث مقرر کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top