مسجد اقصیٰ کی مختصر تاریخ

مصریوں کی غلامی سے رہائی کے بعد جب صحراے سینا میں بنی اسرائیل کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے باقاعدہ شریعت عطا کی گئی تو ساتھ ہی حضرت موسیٰ کو یہ ہدایت بھی کر دی گئی کہ وہ بدنی اور مالی عبادت کی مختلف رسوم ادا کرنے کے لیے خیمے کی شکل میں بنی اسرائیل کے لیے ایک عبادت گاہ بنائیں۔ اس خیمے کی بناوٹ، اس کے ساز وسامان اور اس میں ادا کی جانے والی رسوم کی پوری تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو سمجھائی۔ ١ تورات میں اس خیمے کا ذکر ''خیمہ اجتماع''، ''مقدس''، ''مسکن'' اور ''شہادت کا خیمہ'' کے مختلف ناموں سے کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ خاص وضع کا ایک صندوق بنا کر اس میں تورات کی الواح کو محفوظ کریں اور اسے ''خیمہ اجتماع'' میں ایک مخصوص مقام پر مستقل طور پر رکھ دیں٢۔ تورات میں اس کو ''عہد کا صندوق'' کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ یہ ایک متحرک اور قابل انتقال (Mobile) عبادت گاہ تھی جس کا حکم صحراے سینا میں بنی اسرائیل کے عارضی قیام اور مسلسل نقل مکانی کے پیش نظر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ 'تورات' میں بنی اسرائیل کو یہ حکم بھی دے دیا گیا کہ جب وہ بیت المقدس کو فتح کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ جگہ پر عبادت گاہ تعمیر کر کے قربانی، نذر اور دیگر شرعی رسوم وہیں ادا کیا کریں۔ استثنا میں ہے:
''جب تم یردن پار جا کر اس ملک میں جس کا مالک خداوند تمہارا خدا تم کو بناتا ہے، بس جاؤ او روہ تمہارے سب دشمنوں کی طرف سے جو گردا گرد ہیں، تم کو راحت دے اور تم امن سے رہنے لگو تو وہاں جس جگہ کو خداوند تمہارا خدا اپنے نام کے مسکن کے لیے چن لے، وہیں تم یہ سب کچھ جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں، لے جایا کرنا یعنی اپنی سوختنی قربانیاں اور اپنے ذبیحے اور اپنی دہ یکیاں اور اپنے ہاتھ کے اٹھائے ہوئے ہدیے اور اپنی خاص نذر کی چیزیں جن کی منت تم نے خداوند کے لیے مانی ہو۔ اور وہیں تم اور تمہارے بیٹے بیٹیاں اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیاں اور وہ لاوی بھی جو تمہارے پھاٹکوں کے اندر رہتا ہو اور جس کا کوئی حصہ یا میراث تمہارے ساتھ نہیں، سب کے سب مل کر خداوند اپنے خدا کے حضور خوشی منانا۔ اور تو خبردار رہنا تا ایسا نہ ہو کہ جس جگہ کو دیکھ لے، وہیں اپنی سوختنی قربانی چڑھائے بلکہ فقط اسی جگہ جسے خداوند تیرے کسی قبیلے میں چن لے، تو اپنی سوختنی قربانیاں گزراننا اور وہیں سب کچھ جس کا میں تجھ کو حکم دیتا ہوں، کرنا۔'' (استثنا ١٢: ١٠-١٤)
١٤٥٠ ق م میں حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کو فتح کیا۔ اس کے بعد تقریباً چار صدیوں تک بنی اسرائیل علاقے میں پہلے سے آباد مختلف نسلی گروہوں کے ساتھ لڑنے اور انھیں مغلوب کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس عرصے میں چونکہ سرزمین فلسطین پر بنی اسرائیل کے قبضے اور ان کے سیاسی اقتدار کو استحکام حاصل نہیں تھا، اس لیے مرکز عبادت کی حیثیت اسی ''خیمہ اجتماع'' کو حاصل رہی۔ چار صدیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد آخر سیدنا داؤد علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل ان کی قیادت میں ان مقامی گروہوں کو بڑی حد تک کچلنے اور ایک مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایک باقاعدہ مرکز عبادت تعمیر کرنے کی ہدایت ملی۔ ٣ حضرت داؤد نے اس مقصد کے لیے ارنان یبوسی نامی شخص سے اس کا ایک کھلیان خریدا جو کوہ موریا پر واقع تھا ٤ اور تعمیر کے لیے ابتدائی تیاریاں شروع کر دیں۔ ٥ تاہم اپنی حیات میں وہ اس مرکز عبادت کو تعمیر نہ کر سکے اور اپنے فرزند سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تعمیر کی وصیت کرتے ہوئے معبد کا تفصیلی نقشہ انھیں سمجھا کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ٦
حضرت سلیمان نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے دور حکومت میں اس نقشے کے مطابق مقررہ جگہ پر ایک شان دار عبادت گاہ تعمیر کرائی جو تاریخ میں ''ہیکل سلیمانی'' (Solomon's Temple) کے نام سے معروف ہے۔ اس کی تعمیر ٩٥٠ ق م میں مکمل ہوئی۔ اپنی شان وشوکت اور جاہ وشکوہ کے لحاظ سے یہ عمارت عجائبات عالم میں شمار ہوتی تھی۔ اس کی تعمیر کی پوری تفصیل سلاطین ١:٦۔ ٨ اور تواریخ ٢:٣ ۔ ٥ میں مذکور ہے۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق اس کی بڑی بڑی محرابوں کی تعمیر کے لیے سلیمان علیہ السلام نے ان جنات سے بھی مدد لی تھی جنھیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مسخر کر دیا تھا۔٧
'خیمہ اجتماع' کی جگہ اب 'ہیکل سلیمانی' کو بنی اسرائیل کی عبادات اور مذہبی رسوم کے لیے قبلہ اور ان کی مذہبی واجتماعی زندگی کے محور ومرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ سوختنی قربانیوں کے لیے مذبح ٨ اور عہد کے صندوق کے لیے ایک خاص کمرہ اسی معبد میں تعمیر کیا گیا۔ ٩ اس کی تکمیل کے موقع پر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دعا کی، اس سے واضح ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے اس عبادت گاہ کو اسی طرح ایک روحانی مرجع ومرکز اور 'مثابۃ للناس' کی حیثیت دے دی گئی تھی جس طرح بنی اسمٰعیل کے لیے مسجد حرام کو ۔ کتاب مقدس میں ہے:
''اور سلیمان نے اسرائیل کی ساری جماعت کے روبرو خداوند کے مذبح کے آگے کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور کہا... اے خداوند میرے خدا اپنے بندہ کی دعا اور مناجات کا لحاظ کر کے اس فریاد اور دعا کو سن لے جو تیرا بندہ آج کے دن تیرے حضور کرتا ہے تاکہ تیری آنکھیں اس گھر کی طرف یعنی اسی جگہ کی طرف جس کی بابت تو نے فرمایا کہ میں اپنا نام وہاں رکھوں گا، دن اور رات کھلی رہیں تاکہ تو اس دعا کو سنے جو تیرا بندہ اس مقام کی طرف رخ کر کے تجھ سے کرے گا۔ اور تو اپنے بندہ اور اپنی قوم اسرائیل کی مناجات کو جب وہ اس جگہ کی طرف رخ کر کے کریں، سن لینا ، بلکہ تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن لینا اور سن کر معاف کر دینا۔ اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کا گناہ کرے اور اسے قسم کھلانے کے لیے اس کو حلف دیا جائے اور وہ آکر اس گھر میں تیرے مذبح کے آگے قسم کھائے تو تو آسمان پر سے سن کر عمل کرنا اور اپنے بندوںکا انصاف کرنا ... جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے اور پھر تیری طرف رجوع لائے اور تیرے نام کا اقرار کر کے اس گھر میں تجھ سے دعا اور مناجات کرے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور ان کو اس ملک میں جو تو نے ان کے باپ دادا کو دیا، پھر لے آنا۔ جب اس سبب سے کہ انھوں نے تیرا گناہ کیا ہو، آسمان بند ہو جائے اور بارش نہ ہو اور وہ اس مقام کی طرف رخ کر کے دعا کریں اور تیرے نام کا اقرار کریں اور اپنے گناہ سے باز آئیں جب تو ان کو دکھ دے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنے بندوں اور اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کر دینا ... اگر ملک میں کال ہو، اگر وبا ہو، اگر باد سموم یا گیروئی یا ٹڈی یا کملا ہو، اگر ان کے دشمن ان کے شہروں کے ملک میں ان کو گھیر لیں، غرض کیسی ہی بلا کیسا ہی روگ ہو تو جو دعا اور مناجات کسی ایک شخص یا تیری قوم اسرائیل کی طرف سے ہو جن میں سے ہر شخص اپنے دل کا دکھ جان کر اپنے ہاتھ اس گھر کی طرف پھیلائے تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن کر معاف کر دینا ... اب رہا وہ پردیسی جو تیری قوم اسرائیل میں سے نہیں ہے، وہ جب دور ملک سے تیرے نام کی خاطر آئے ... اور اس گھر کی طرف رخ کر کے دعا کرے تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن لینا ... اگر تیرے لوگ خواہ کسی راستہ سے تو ان کو بھیجے، اپنے دشمن سے لڑنے کو نکلیں اور وہ خداوندسے اس شہر کی طرف جسے تو نے چنا ہے اور اس گھر کی طرف جسے میں نے تیرے نام کے لیے بنایا ہے، رخ کر کے دعا کریں تو تو آسمان پر سے ان کی دعا اور مناجات سن کر ان کی حمایت کرنا۔ اگر وہ تیرا گناہ کریں (کیونکہ کوئی ایسا آدمی نہیں جو گناہ نہ کرتا ہو) اور تو ان سے ناراض ہو کر ان کو دشمن کے حوالہ کر دے ایسا کہ وہ دشمن ان کو اسیر کر کے اپنے ملک میں لے جائے خواہ وہ دور ہو یا نزدیک تو بھی اگر وہ اس ملک میں جہاں وہ اسیر ہو کر پہنچائے گئے، ہوش میں آئیں اور رجوع لائیں ... اور اس گھر کی طرف جو میں نے تیرے نام کے لیے بنایا ہے، رخ کر کے تجھ سے دعا کریں تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، ان کی دعا اور مناجات سن کر ان کی حمایت کرنا... سو تیری آنکھیں تیرے بندہ کی مناجات اور تیری قوم اسرائیل کی مناجات کی طرف کھلی رہیں تاکہ جب کبھی وہ تجھ سے فریاد کریں تو ان کی سنے۔'' ١٠
اس طرح اس عبادت گاہ کو بنی اسرائیل کا ایک مذہبی وروحانی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی عظمت وشوکت اور دنیاوی جاہ وجلال کے ایک نشان کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی زبانی بنی اسرائیل کو یہ تنبیہ بھی اس عبادت گاہ کی تعمیر کے ساتھ ہی فرما دی تھی :
''اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمھارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو ، بلکہ جا کر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لیے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کر دوں گا اور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہوگا اور اگرچہ یہ گھر ایسا ممتاز ہے تو بھی ہر ایک جو اس کے پاس سے گزرے گا، حیران ہوگا اور سسکا رہے گا اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا؟'' ( ١۔ سلاطین ٩: ١۔٩)
ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد یہ پیش گوئی پہلی مرتبہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں پوری ہوئی۔ بنی اسرائیل کے اجتماعی طور پر مشرکانہ اعمال ورسوم میں مبتلا ہو جانے اور شریعت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ نبوکد نضر کو ان پر مسلط کیا جس نے ٥٨٦ ق م میں یروشلم پر حملہ کر کے ہیکل کو جلا کر برباد کر دیا ، اس کے تمام خزانے اور قیمتی ظروف لوٹ لیے، بنی اسرائیل کا قتل عام کیا اور انھیں اسیر بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ ١١
بنی اسرائیل کی توبہ اور اصلاح حال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ آزادی کی نعمت عطا کی اور فارس کے بادشاہ خورس (Cyrus) نے بابل کو فتح کرنے کے بعد ٥٣٨ ق م میں اسیری میں آئے ہوئے بنی اسرائیل کو واپس یروشلم جانے اور وہاں ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ ١٢
ہیکل ثانی کی تعمیر، جس کو زربابلی ہیکل کا نام دیا گیا، ٥١٥ق م میں مکمل ہوئی۔ یہ ایک بالکل سادہ سی عبادت گاہ تھی جس کا تزیین وآرایش اور تعمیر کے معیار کے لحاظ سے سلیمانی ہیکل کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا۔ ١٣ یہ عبادت گاہ تقریباً ساڑھے چار سو سال تک قائم رہی ، لیکن اس عرصے میں وقتاً فوقتاً حملہ آوروں کے ہاتھوں بے حرمتی کا نشانہ بنتی رہی۔ ١٦٩ ق م میں یونانی بادشاہ انطوخیوس چہارم ایپی فینس نے ہیکل پر قبضہ کر کے اس کے سازوسامان اور خزانے کو لوٹ لیا ١٤ اور اس میں زیوس (Zeus) دیوتا کے نام پر قربانی کا مذبح قائم کر کے سردار کاہن کو مجبور کیا کہ وہ اس پر ایک خنزیر کی قربانی کرے۔ اس کے رد عمل میں 'مکابیوں کی بغاوت' نے جنم لیا اور ١٦٥ ق م میں یہوداہ مکابی کی قیادت میں بنی اسرائیل حملہ آوروں کو بے دخل کر کے ہیکل کی بازیابی اور تطہیر میں کامیاب ہو گئے۔ ١٥ اس کی یاد میں یہودی اب تک حنوکہ (Hanukkah) کا سالانہ تہوار مناتے ہیں۔
٦٣ ق م میں یونانیوں کی جگہ جنرل پومپی کی قیادت میں رومی فوج نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس موقع پر زربابلی ہیکل کا ایک بڑا حصہ تباہی کی نذر ہو گیا۔ بعد میں رومی حکومت نے یہودیوں کو نیم سیاسی خود مختاری دے دی تو یہودیہ کے بادشاہ عظیم ہیردویس نے، جس کا زمانہ حکومت ٣٧ ق م سے ٤ عیسوی تک ہے، زربابلی ہیکل کی تعمیر نو کرتے ہوئے احاطہ ہیکل یعنی اس کے گرد چار دیواری کو وسیع تر کر دیا، اور زمین سے اس کی اونچائی مزید بلند کر دی۔یہ تعمیر ١٩ ق م میں شروع ہوکر ٤٦ سال تک جاری رہی۔
ہیکل کی تباہی اور فلسطین سے یہودیوں کی بے دخلی کی پیش گوئی دوسری مرتبہ ٧٠ء میں پوری ہوئی۔ اس مرتبہ اس کا سبب بنی اسرائیل کا وہ رویہ تھا جو انھوں نے من حیث القوم سیدنا مسیح علیہ السلام کی تکذیب کے حوالے سے اختیار کیا تھا۔ ٦٦ء میں یہودیوں نے رومی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی جس کو کچلنے کے لیے رومی جنرل طیطس (Titus) نے ٧٠ء میں یروشلم پرحملہ کر کے یہود کا قتل عام کیا اور ہیکل کو بالکل تباہ وبرباد کر دیا۔ زندہ بچ جانے والے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا گیا اور یروشلم میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا، تاہم بعد کے ادوار میں یہ پابندی نرم کر کے یہودیوں کو مخصوص مواقع پر یروشلم میں آنے اور ہیکل کے کھنڈرات کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ہیکل کی اس دوسری تباہی میں اس کی صرف مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی جو رفتہ رفتہ یہودیوں کا مقام اجتماع اور ان کی گریہ وزاری کا مرکز بن گئی اور اس بنا پر ''دیوار گریہ'' (Wailing Wall) کہلانے لگی۔ ١٦
١٣٦ء میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یروشلم کو دوبارہ آباد کر کے اس کا نام 'Aelia Capitolina ' رکھا اور ہیکل کی جگہ رومی دیوتا 'Jupiter ' کے نام پر ایک عالی شان معبد تعمیر کرا دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت کے روم کا سرکاری مذہب بن جانے کے بعد ٣٣٦ء میں قسطنطین اعظم نے اس معبد کی جگہ کلیساے نشور (Church or Resurrection) تعمیر کرا دیا۔
٦٣٨ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پر امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ صحابہ کی معیت میں مسجد اقصیٰ میں آئے۔ اس وقت ہیکل کے پتھر (صخرہ بیت المقدس) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمرنے صحابہ کے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کے اندر جنوبی جانب میں نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ مخصوص کر دی۔ بعد میں اس جگہ پر لکڑی کی ایک مستطیل مسجد تعمیر کی گئی۔ ٦٨٨ء میں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے صخرہ بیت المقدس کے اوپر ایک شان دار گنبد تعمیر کرا دیا جو 'قبۃ الصخرہ' (Dome of Rock) کے نام سے معروف ہے۔ اسی نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کر کے اس کے رقبے کو مزید وسیع کر دیا۔ اسلامی لٹریچر میں ''مسجد اقصیٰ'' سے مراد یہی مسجد ہے۔
١٠٧٨ء میں جب سلجوقی ترکوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو ان کے ٢٠ سالہ دور حکومت میں یورپ اور پوری دنیا سے آنے والے مسیحی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا گیا اور ان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے معمولات میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اس کے رد عمل میں ١٠٩٦ء میں مغربی یورپ میں غیظ وغضب کی ایک لہر اٹھی جس نے صلیبی جنگوں کا روپ دھار لیا۔ پوپ اربن دوم کے حکم پر عیسائی جنگجوؤں کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لیے روانہ ہوا جس نے ١٠٩٩ء میں یروشلم پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرہ کو کلیسا میں تبدیل کر کے اس کے کلس پر سونے کی ایک بڑی صلیب نصب کر دی، جبکہ قبہ کے اندر مسیحی بزرگوں کی مورتیاں اور تصویریں آویزاں کر دی گئیں۔ صخرہ کے اوپر ایک قربان گاہ بنا دی گئی جسے انھوں نے 'Templum Domini'کاجبکہ مسجد اقصیٰ کو 'TemplumSolomonis'کا نام دے دیا۔
٨٨ سال کے بعد ١١٨٧ء میں مسلمان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مسجد اقصیٰ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کر کے قبۃ الصخرہ سے صلیب اتار دی گئی۔
١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے اور مسجد کو اسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا،تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے خیر سگالی کے اظہار کے طور پر احاطہ مقدسہ کی چابیاں اردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کر دیں۔ اس وقت سے اس احاطے اور اس سے ملحق بعض عمارتوں کا کنٹرول یروشلم کے مسلم وقف کے پاس ہے جو اس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔ ١٧
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مختصر جائزے سے واضح ہے کہ تاریخی لحاظ سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مذہبی تعلق ووابستگی کے دعوے میں یہودی اور مسلمان، دونوں فریق بنیادی طور پر سچے ہیں۔ یہودیوں کے لیے یہ عبادت گاہ قبلہ ومرکز اور ان کی دینی ودنیاوی عظمت رفتہ کے نشان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ دعا اور مناجات کے لیے وہ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں اور اس میں سلسلہ عبادت کے احیا کی تمنائیں بر آنے کے لیے صدیوں سے ان کے سینوں میں تڑپ رہی ہیں۔
مسلمانوں کی وابستگی اور عقیدت بھی اس عبادت گاہ کے ساتھ معمولی نہیں ہے ۔ یہ مقام انبیاے بنی اسرائیل کی ایک یادگار ہے جن پر ایمان اور جن کا احترام وتعظیم مسلمانوں کے اعتقاد کا جزو لاینفک ہے۔ انھوں نے اس وقت اس عبادت گاہ کو آباد کیا جب یہود ونصاریٰ کی باہمی آویزشوں کے نتیجے میں یہ ویران پڑی تھی۔ ان کا یہ عمل تمام مذہبی، عقلی اور اخلاقی معیارات کے مطابق ایک نہایت اعلیٰ روحانی اور مبارک عمل ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں، کم ہے۔
فریقین کے تعلق ووابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہیے اور فریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟ جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعواے تولیت کو ایک عملی وجہ ترجیح حاصل ہے۔ انھوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھا کر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔ نیز وہ بحالت موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری وہ گزشتہ تیرہ صدیوں سے، صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔
تاہم قانونی پہلو کو اس معاملے کا واحد قابل لحاظ پہلو سمجھنے کے عام نقطہ نظر سے ہمیں اختلاف ہے اور زیر نظر تحریر میں ہم اسی نکتے کی توضیح کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کے مذہبی تنازعات میں قرآن وسنت کی رو سے اصل قابل لحاظ چیز، جس کی رعایت مسلمانوں کو لازماً کرنی چاہیے، وہ اخلاقی پہلو ہے۔ اس بحث کی تنقیح کے لیے ہمارے نزدیک اس بنیادی سوال پر غور وخوض مناسب ہوگا کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنا آیا شرعی نوعیت کا کوئی معاملہ ہے یا تکوینی وواقعاتی نوعیت کا؟ دوسرے لفظوں میں، آیا یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم اور تقاضا ہے کہ مسلمان یہود کو اس عبادت گاہ سے لاتعلق قرار دے کر ان کی جگہ اس کی تولیت کی ذمہ داری خود سنبھال لیں یا محض تاریخی حالات وواقعات نے ایسی صورت حال پیدا کر دی تھی کہ مسلمانوں کو اس کی تولیت کی ذمہ داری اٹھانی پڑی؟
اگر معاملہ شرعی نوعیت کا ہے تو پھر اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ نصوص اور دلائل جن سے اس ضمن میں استناد کیا جا سکتا ہے، کون سے ہیں اور عقل ومنطق کی میزان میں ان سے استدلال کتنا وزن رکھتا ہے؟
اور اگر معاملے کی نوعیت شرعی نہیں ، بلکہ واقعاتی ہے تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سلسلے میں عام مذہبی اخلاقیات اور خود اسلامی تعلیمات کا تقاضا کیا ہے اور کیا محض واقعاتی تسلسل اخلاقی لحاظ سے اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ یہود کے تاریخی ومذہبی حق کو بالکل مسترد کر دیا جائے؟
آئیے ان دونوں نکتوں کا ذرا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١- خروج باب ٢٥ ۔ ٣١ ۔
٢- خروج ٤٠: ٢٠۔
٣- سموئیل ٥۔٧۔
٤- ١۔ تواریخ ٢١: ٢٥۔
٥- ٢۔ تواریخ ٣:١۔
٦- ١۔ تواریخ ب ٢٢، ٢٨: ١١۔٢١۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ روے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی تھی؟ آپ نے فرمایا:مسجد حرام۔ انھوں نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ انھوں نے دوبارہ سوال کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے مابین کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال۔ (بخاری، رقم ٣٤٢٥)
اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ تاریخی مسلمات کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام کے مابین، جو مسجد حرام کے معمار تھے، کئی صدیوں کا فاصلہ ہے، جبکہ روایت میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان صرف چالیس سال کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔ علماے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے، جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے صدیوں بعد اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔ اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل کے اولین بانی اور موسس کی نہیں ، بلکہ تجدید کنندہ کی ہے۔ (ابن قیم: زاد المعاد، ١/٥٠۔ ابن حجر: فتح الباری ٦/٤٩٥)
بائبل کے بعض علما ہیکل سلیمانی کے شان وشکوہ کے بارے میں بائیبل میں مذکور تفصیلات کو مبالغہ آمیز
١٠- ١۔ سلاطین ٨:٢٢۔٥٣۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''حضرت سلیمان علیہ السلام جب بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انھوں نے دعا کی کہ جو شخص بھی مسجد اقصیٰ میں خالصتاً نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے، وہ یہاں سے اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر جائے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرما لی ہوگی۔'' (نسائی ، رقم ٦٩٤۔ ابن ماجہ، رقم ١٤٠٨)
١١- ٢۔ تواریخ ٣٦: ١١۔ ٢١۔ یرمیاہ ٥٢:١٢۔١٤۔
١٢- عزرا: ١۔
١٣- حجی ٢:٣۔٩
١٤- ١۔ مکابیوں ١:٢٠۔٢٤۔
١٥- ١۔ مکابیوں ٤:٣٦۔٤٨۔
١٦- ہیکل سلیمانی کی ان دو مشہور ومعروف بربادیوں کا تذکرہ قرآن مجید نے بھی کیا ہے:
''اور ہم نے تورات میں بنی اسرائیل سے صاف کہہ دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی پر اتر آؤ گے۔ پس جب ان میں سے پہلا موقع آیا تو ہم نے تم پر اپنے نہایت سخت گیر اور طاقت ور بندوں کو مسلط کر دیا جو تمھارے گھروں کے اندر گھس آئے، اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہنا تھا۔ پھر ہم نے ان کے خلاف تمھیں بالادستی کا موقع دیا اور مال واولاد سے تمھاری مدد کی اور تمھیں خوب جتھے والا بنا دیا۔ اگر تم نے بھلائی کا رویہ اختیار کیا تو اپنے ہی فائدے کے لیے، اور اگر بد چلن ہو گئے تو اپناہی نقصان کیا۔ پھر جب دوسرا موقع آیا (تو اسی طرح دشمنوں کو تم پر مسلط کیا جوتم پر چڑھ آئے) تاکہ تمھارے چہروں کو بگاڑ کررکھ دیں اور اسی طرح مسجد میں گھس جائیں جس طرح پہلی مرتبہ گھسے تھے اور جو چیز ان کے ہاتھ لگے، اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیں۔ توقع ہے کہ تمھارا رب تم پر پھر رحم کرے گا۔ لیکن اگر تم نے دوبارہ یہی رویہ اپنایا تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔'' (بنی اسرائیل ١٧:٤-٨)
١٧- مسجد اقصیٰ کی تاریخ سے متعلق ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:
"اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جامعہ پنجاب لاہور، مقالہ جات: ''القدس'' اور ''قبۃ الصخرہ''"
ربط
http://www.al-mawrid.org/pages/articles_urdu_detail.php?rid=1155&cid=571


 
Top