مسئلہِ وجود
::::::::::::::
ہم اکثر یہ سوال سنتے ہیں کہ " کیا اللہ موجود ہے؟ " لیکن کوئی شخص اپنے آپ سے یہ نہیں پوچھتا کہ کیا یہ سوال درست بھی ہے یا نہیں؟ گویا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ہر طرح کا سوال پوچھنا درست ہوتا ہے۔۔۔۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح جوابات کا معاملہ ہے کہ اکثر جوابات غلط ہوتے ہیں اسی طرح کئی سوال ہی بذات خود غلط ہوتے ہیں۔ اور مذکورہ بالا صیغے سے پوچھا جانے والا سوال بھی بلا شک و شبہ غلط ہی ہے۔ یہ اس لئے کہ کسی شئے کے وجود کے بارے میں سوال اسی وقت درست ہوتا ہے جب وہ شئے ممکنات کی قبیل سے ہو۔ صرف ممکن کے وجود کے متعلق سوال کیا جاسکتا ہے کیونکہ ممکن اپنے وجود اور عدم دونوں کے لئے قابلیت رکھتا ہے دونوں کا احتمال رکھتا ہے۔ جہاں تک وجود واجب کی بات ہے تو اس کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ وجودِ واجب کے لئے عدم کا کوئی احتمال ہی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سوال ہی لغو ہے کہ کیا اللہ موجود ہے؟۔ عقول سلیمہ اس سوال سے کراہت محسوس کرتی ہیں۔ اور یہی وہ معنی ہیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک انکاری سوال پوچھا کہ {أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ؟} [إبراهيم: 10].کہ کیا اللہ کے وجود میں شک (ہوسکتا ہے) کہ جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے؟
اور مخلوق جو اللہ کے وجود کے بارے میں سوال کرتی ہے، بہتر تو یہی تھا کہ وہ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتی کہ " کیا میں موجود ہوں؟ "۔ اور اچنبھے کی بات ہے کہ کوئی شخص یہ سوال نہیں پوچھتا، گویا اس کے نزدیک ممکن، واجب قرار پاچکا ہو !۔۔۔۔ حالانکہ یہ برہان قاطع نہیں بلکہ قاطع برہاں ہے عقل سلیم کے لئے۔ اور جہاں تک ممکن الوجود کے لئے ان براہین کا تعلق ہے جو فلاسفہ اور متکلمین حضرات پیش کرتے ہیں، تو یہ بھی خالی از علّت نہیں ہیں۔ کیونکہ سوال اٹھانے والا وجود کو نہیں جانتا اور جس چیز کو نہیں جانتا اس کے ذریعے نامعلوم پر سوال اٹھانا کچھ اسی قسم کا جواب پیدا کرے گا۔ یعنی نامعلوم کے ذریعے نامعلوم پر دلیل لانا۔ بے شک یہ سب فکری لغویت کی قبیل سے ہے۔ اور ہم اس معاملے میں یہ کہتے ہیں کہ " وجود پر دلیل قائم نہیں کی جاسکتی کیونکہ وجود بذاتِ خود اپنی وجودی جہت سے دلیل ہے ناکہ مدلول۔" اور جو لوگ دلالت وجودیہ اور دلالت عقلیہ میں امتیاز نہیں کرسکتے، وہی اس مسئلے میں خلطِ مبحث کا شکار ہوتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عقلی طور پر وجود پر استدلال کرنا اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب دلیل پیش کرنے والا دلالت وجودیہ کو اپنے پیشِ نظر رکھے ہوئے ہو۔ اور یہ بات سوائے اہلِ ایمان کے اور کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی بسسب اس مناسبت کے جو وجود اور ایمان کے درمیان پائی جاتی ہے۔
دو باتیں ایسی ہیں جو مخلوق کو اپنے وجود پر شک سے باز رکھتی ہیں : ایک باطنی وجدان اور دوسرا حسی شہود۔ اور یہ دونوں ہی عقلی دلیل کے آگے سرنگوں نہیں ہوتے۔ چنانچہ اگر حدوث کی جہت سے وجود کا ادراک اس قدر ناپید اور مشکل الحصول ہے تو تم خود اندازہ لگا لو کہ وہ قِدم کی جہت سے کس قدر صعب الحصول ہوگا !۔۔۔۔ لیکن اس سب کے باوجود، وجود کا علم حاصل ہوتا ہے اگر آدمی اس کے لئے درست راستے سے موافقت اختیار کرے (راہِ سلوک)۔ جبکہ بے شمار لوگ "وجود" کے ادراک کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح انہی مسائل میں سے سمجھتے ہیں کہ جن کو فکر و نظر یعنی استدلال کے طریق سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وجود چونکہ عقول (اور معقولات) کو محیط ہے، اس لئے ان کے ادراک سے بالاتر ہے، جب تک اس راستے کو اختیار نہ کیا جائے جو اس کی معرفت کے لئے اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔ بے شک وہ راستہ دین ہے۔ چنانچہ دین صاحبانِ استعداد کے سامنے وہ تمام جوابات پیش کرتا ہے کہ جن تک عقل محض یعنی فکر و نظر سے رسائی ناممکن ہو۔ اور حقیقتِ واقع ہمارے اس قول کی صداقت پر گواہ ہے۔
اور وجود پر کلام کرنا۔۔۔۔اس طرح کہ گویا وہ ایک ہی معنی میں محصور ہے۔۔۔۔ کہنے والے اور سننے والے کےلئے مزید دوری ہی پیدا کرتا ہے خواہ اس میں کتنا ہی تکلف کیوں نہ کیا جائے۔ وجہ یہی ہے کہ وجود کے کئی مراتب ہیں۔ اور ان مراتب کا اعتبار کئے بغیر وجود کی حقیقت کا علم نہیں ہوسکتا۔ اور قبل اس کے کہ ہم پڑھنے والے کے لئے اس علم کا دروازہ کھولیں، ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھے کہ:
1- وجود اپنی ذات کے اعتبار سے احدی ہے۔ یعنی اس میں تعدد (ایک سے زیادہ ہونا) نہیں ہے، اگرچہ اس کے مراتب میں تعدد ضرور پایا جاتا ہے۔
2- وجود ہر شئے کو محیط ہے، حتیٰ کہ دونوں عدموں کو یعنی ممکن اور محال کو بھی محیط ہے۔ اور اگر یہ احاطہ نہ ہو تو عقل ممکن اور محال کے معنی میں فرق بھی نہ کرسکے۔ کیونکہ ادراک بذاتِ خود ایک وجودی امر ہے۔
3- وجود کے تمام مراتب اپنی دو اصلوں کی طرف لوٹتے ہیں: وجودِ حق اور وجودِ خلق۔ پہلی اصل وجودِ حقیقی ہے اور دوسری وجودِ خیالی فرعی۔ اس کی مثالجسم اور سائے کے وجود کی مثال جیسی ہے۔
4- وجود کے مراتب کی تعداد اٹھائیس ہے۔ جو حق اور خلق میں برابر برابر تقسیم ہیں۔ چنانچہ حق کے لئے چودہ اور خلق کے لئے بھی چودہ مراتب ہیں۔ اور وجودِ خلق کے مراتب دراصل مراتبِ امکان ہیں جن میں وہ اعیان ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوقات کے لئے وجودِ حق کے اندر(مرتبہِ ثبوت میں ) پائے جاتے ہیں۔ اور چونکہ مخلوقات اپنی حقیقت کے اعتبار سے عدمی ہیں، چنانچہ ان کے لئے وجودِ ظلٰی کے مرتبے سے تجاوز کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر عقل ان معانی کے ادراک سے عاجز نہ ہوتی تو یہ کلام ہر سننے والے کے اندر ایک شدید بے چینی پیدا کرتا جس سے اس کی زندگی ایک قلبی انقلاب سے دوچار ہوجاتی بسسب اس قابلیتِ زوال کے جو ہر سائے کے نسیب میں ہے۔
اور جو شخص ان مزکورہ بالا امور میں تمیز نہیں کرسکتا، وہ اپنےنفس کی یعنی اپنے آپ کی حقیقت کبھی نہیں جان سکتا۔ کیونکہ اپنے آپ سے اگاہی کے لئے ضروری ہے کہ نفس کے دونوں پہلوؤں سے اس کو جانا جائے ، یعنی اس کے وجود کی جہت سے بھی اور اس ک عدم کی جہت سے بھی۔ کیونکہ نفس ان دونوں پہلوؤں، ان دونوں چہروں کا جامع ہے۔
چنانچہ اسی علم کی بنیاد سے انسان کے لئے اپنے آپ کا علم اس کے جسم و روح اور وجدان کے ذریعے تشکیل پاتا ہے جسے مغرب میں علمِ نفس یعنی سائیکالوجی بھی کہا جاتا ہے۔اور اس ساری بات سے ہماری مراد یہی ہے کہ ہر قسم کے علمی میدان میں عصری ماہرین کو علم سے جو نصیب ہوا ہے، وہ علمِ وجود کی ان حدود تک ہے جو اذنِ الٰہی کی قائم کردہ ہیں۔ چنانچہ اذن ِالٰہی نے کچھ کو ایمان تک رہنمائی کی اور کچھ کے حق میں اندھے پن اور مایوسی کے سوا کچھ نہ آیا۔
اس ساری بات کے بعد اور وجودِ الٰہی کے سوال درست نہ ہونے کو جان لینے کے بعد انسان کے لئےاس دنیا میں آتے وقت کی حیرت اورہر قسم کی ارضی و سماوی مخلوقات کی بے حد و حساب اصناف میں اپنے وجود کی حیرت کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ اور حیرت، اگر اپنی اصل پر قائم رہے اور مختلف قسم کی عبارات کے قالب میؔں اپنے آپ کو ڈھالنے کے تکلف میں مبتلا نہ ہو، تو یہ اس قابل ہے کہ اس عظیم و خبیرذات یعنی اللہ کے دروازے کے پاس کھڑی ہوسکے۔
(تحریر: الشیخ سید عبدالغنی العمری الحَسَنی حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)​
 
آخری تدوین:
Top