مزہ اور ہی تھا

زویا شیخ

محفلین
تم مرے پاس جو رہتے تو مزا اور ہی تھا
زندگی ساتھ جو جیتے تو مزہ اور ہی تھا

میں تجھے پیار سے بابو کا لقب دے دیتی
تم مجھے جان پھر کہتے تو مزا اور ہی تھا

ویسے مشروب زمانے میں بہت ہیں لیکن
جام الفت کا جو پیتے تو مزا اور ہی تھا

زندگی کی حسیں راہوں پہ کبھی میرے صنم
تم مرے ساتھ جو چلتے تو مزا اور ہی تھا

اپنی قسمت کی بلندی پہ میں نازاں ہوتی
تم مرے میت جو بنتے تو مزا اور ہی تھا

اس کے ہر درد کو تم اپنا تصور کرکے
غزلیں زویا کی جو پڑھتے تم مزا اور ہی تھا
 
Top