مزدور - علامہ نجم آفندی

حسان خان

لائبریرین
مجھ سے نفرت کیوں ہے بچّو میں اگر مزدور ہوں
کیا تمہیں یہ وہم ہے انسانیت سے دور ہوں
ہے فقط سامانِ آسائش اگر انسانیت
میرے ہاتھوں سے بنی ہے بیشتر انسانیت
میرے ہی دم سے ہے جو کچھ ہے تمہارے آس پاس
یہ مکاں، یہ باغ، یہ بستر، یہ برتن، یہ لباس
میں نے لوہے کو گلایا، میں نے توڑے ہیں پہاڑ
میں نے گلشن کر دیا، ورنہ یہ دنیا تھی اجاڑ
علم سیکھا جن سے تم نے ان کتابوں کی قسم
میری ہمت نے بنایا ہے یہ کاغذ یہ قلم
ہے یہ بنیادِ ترقی میری ہی ڈالی ہوئی
ریل کی پٹری ہے میرے ہاتھ کی ڈھالی ہوئی
کوئی صنعت ہو مری محنت کا شامل ہے گداز
میری ہی طاقت نے پانی پر چلائے ہیں جہاز
میرا کس بل ہے جو بجلی سے بھرے تاروں میں ہے
سب یہ میرے بازوؤں کا زور طیاروں میں ہے
میں نے وہ ڈھانچہ بنایا جس میں یہ آواز ہے
ریڈیو نغمہ تمہارا ہے تو میرا ساز ہے
میری ہستی ہے تمہارے عیش و راحت کی مشین
سب مشینیں مجھ سے ہیں، میں ہوں وہ قدرت کی مشین
میرے جلوے سے ہیں روشن علم و حکمت کے چراغ
میری محنت گر نہ ہو بیکار ہیں سارے دماغ
(علامہ نجم آفندی)
 

سید زبیر

محفلین
جیتے رہیں حسان خان !مزدور کی اہمیت کی کیا بات ہے ۔دنیا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لینے کو ترستی تھی اور ہمارے آقا صلعم نے بوسہ لیا تو اسی مزدور کے ہاتھ کا ۔ کیا عظمت ہے اس مزدور کی سبحان اللہ
 
Top