مزدوروں کا عالمی دن:بلدیہ سے ڈھاکہ تک مزدوروں کا درد سانجھا

120912110411_khi_fire_304.gif

کراچی کے بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائز نامی فیکٹری میں گذشتہ سال گیارہ ستمبر کو آتش زدگی کے واقعے میں 259 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مدینہ کالونی کی رہائشی الزبیتھ مسیح کے لیے یکم مئی ایک ایسا دن ہے جب وہ اپنے بیٹے منور جارج کی روح کے ایصالِ ثواب کے لیے دعا مانگیں گی۔ وہ شکاگو کے مزدورں کی تحریک اور قربانی سے لا علم ہیں۔
الزبیتھ کا بیٹا منور بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائز نامی فیکٹری میں گذشتہ سال گیارہ ستمبر کو آتش زدگی کے واقعے میں فوت ہوگیا تھا۔ اس واقعے میں 259 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے ۔
منور جارج سمیت ساٹھ ورثا کو ان کے پیاروں کی لاشیں نہیں مل سکی تھیں اور بالاخر ہائی کورٹ کے احکام پر سترہ میتوں کی اجتماعی تدفین کردی گئی۔
الزبیتھ کے مطابق پہلے جارج کے والد کا ڈی این اے کیا گیا جس کے بعد ان کا ٹیسٹ کیا گیا لیکن حکام منور جارج کی لاش شناخت کرنے میں ناکام رہے۔
ایک اور شخص خرم احمد کے چھوٹے بھائی شرجیل احمد کی بھی شناخت نہیں ہوسکی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں لاش کے علاوہ موت کا سرٹیفکٹ اور معاوضے کی ادائیگی تک نہیں کی گئی حالانکہ ہائی کورٹ نے تمام لواحقین کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
کراچی پولیس نے متاثرہ فیکٹری کے مالکان شاہد بھائیلا، ارشد بھائیلہ اور منیجر عزیز کو گرفتار کیا تھا جنہیں چند ماہ بعد ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ پولیس کے تفیشی افسر نے مقدمے سے قتل عمد کی دفعہ خارج کرنے کی بھی گزارش کردی ہے۔
منور جارج کی والدہ الزبیتھ جارج کا کہنا ہے کہ مالکان تو پیسے والے لوگ ہیں، وہ تو پیسہ دے کر یا کچھ اور کرکے رہا ہو گئے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ نیا کاروبار بھی شروع کردیں گے لیکن انہیں تو ان کا بچہ نہیں مل سکے گا۔
فائر بریگیڈ، واقعے کے تحقیقاتی ٹربونل اور کیمیکل تجزیے میں آگ لگنے کی وجہ آگ شارٹ سرکٹ قرار دے کر فائل بند کردی گئی لیکن عدالتوں میں اس وقت چار مقدمات زیر سماعت ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے معاوضے کی ادائیگی کے لیے کمیشن بنایا ہے جو فیکٹری مالکان اور جرمن کمپنی سے وصول سترہ کروڑ کا معاوضہ متاثرین میں تقسیم کر رہا ہے۔
مزدور یونین کے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا ہے کہ ایک درخواست اس اطالوی فرم کے خلاف دائر کی گئی ہے جس نے فیکٹری مالکان کو کلیئرنس سرٹیفیکیٹ جاری کیا تھا۔ اس کے علاوہ عدالت نے ایک دوسری درخواست پر فیکٹری کے تفصیلی معائنے کا حکم جاری کیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور لیبر قوانین کی کیا خلاف ورزی کی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات سامنے نہ آنے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں مختلف این جی اوز نے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اور ساتھ میں یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ ماتحت عدالت میں جاری سماعت کی نگرانی بھی ہائی کورٹ کرے۔
کراچی سے لے کر سابقہ مشرقی پاکستان یا بنگلادیش کے مزدروں کے دکھ اور درد کی کہانی یکساں ہیں گزشتہ ماہ ڈھاکہ میں ملبوسات تیار کرنے والی ایک فیکٹری منہدم ہونے سے پونے چار سو کے قریب مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔
130428181855_dhaka_factory_rescue_304x171_ap_nocredit.jpg

ڈھاکہ میں ملبوسات تیار کرنے والی ایک فیکٹری منہدم ہونے سے پونے چار سو کے قریب مزدور ہلاک ہوگئے تھے

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ یعنی پائلر کے سربراہ کرامت علی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بنگلادیش میں مزدوروں کے قانونی ڈھانچے مشترکہ ہیں، انیس سو انہتر کا انڈسٹریل رلیشن آرڈیننس اس وقت کے مشرقی پاکستان میں بھی لاگو تھا وہ اب بھی وہاں چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حادثات کے بارے میں فیکٹریز ایکٹ ہے اور دونوں ملکوں کے دستور میں گارنٹی بھی ایک جیسی ہے جن پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔
کرامت علی کے مطابق جتنی فیکٹریاں منہدم ہوئیں یا آتش زدگی کی ضد میں آئیں ہے ان میں یکساں بات یہ ہے کہ ان میں بلڈنگ کنٹرول کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
عالمی بینک کے گزشتہ سال جاری کیے گئے اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں لیبر فورس چھ کروڑ افراد پر مشتمل ہے اور انتخابات میں ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں تگ و دو کر رہی ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے سربراہ اور سینئر قانون دان عابد حسن منٹو کا کہنا ہے کہ جو بڑی بڑی جماعتوں کے دعویدار ہیں ان کا مزدوروں کے ساتھ کیا تعلق ہے، یہ تو موجودہ سماجی ڈھانچے کی حمایتی ہیں وہ تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم حکمرانوں کو بدل دیں گے اور اس نظام کو بہتر طریقے سے چلائیں گے۔
عابد حسن منٹو کے مطابق اس ساری صورتحال میں مزدور تو بچارے کہیں آتے نہیں ہیں، مزدوروں کی تو فلاح اور بہبود صرف اتنی کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے دن آئیں اور کام کریں۔
بلدیہ فیکٹری میں ہلاک ہونے والے شرجیل احمد کے بھائی خرم احمد بھی یہ ہی بات کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں انصاف ملے گا یہ تو دور کی بات ہے اتنے بڑے واقعے کے بعد کیا دوسری فیکٹریوں کی کبھی انسپیکشن کی گئی ہے؟

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، کراچی
 
Top