ذوق مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے

مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے
کہ گل تمھاری بہاروں میں آرزو کرتے

مزے جو موت کے عاشق بیان کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے

غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیونکر بے وضو کرتے

اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے

یقین ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے

سمجھیو دار رسن تا روسوزن اے منصور
کہ چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے

نہ رہتی یوسف کنعاں کی خوبی بازار
مقابلہ میں جو ہم تجھ کو روبرو کرتے

چمن نہ تھا کہ زمانہ کے انقلاب سے ہم
تیمم آب سے اور خاک سے وضو کرتے

سراغ عمر گزشتہ کا لیجیئے گر ذوق
تمام عمر گزر جائے جستجو کرتے

 

فاتح

لائبریرین
واہ چہ خوب
اسی زمین میں خواجہ حیدر علی آتش کی غزل تو زبان زد عام ہو چکی ہے:
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے روبرو کرتے
اب چونکہ ذوق اور آتش دونوں کا زمانہ ایک ہی ہے تو یہ کہنا ممکن نہیں کہ کس نے کس کی زمین میں غزل کہی۔
 
Top