مزارات کے گدی نشینوں کی پولیٹیکل اکانومی

جاسم محمد

محفلین
مزارات کے گدی نشینوں کی پولیٹیکل اکانومی
24/12/2019 اکمل سومرو

نوآبادیاتی عہد کی فلسفیانہ بنیادیں تقسیم ہند کی سات دہائیوں بعد بھی سماج میں پیوست ہیں، برطانوی نوآبادکاروں نے طاقت کے جن تصورات کو یہاں کے معاشرے میں رائج کیا وہ مابعد نوآبادیاتی عہد میں بھی نافذ ہیں۔ برطانوی استعمار نے 1857 ء کے بعد ہندستان میں استحصالی تصورات کے تحت نئے سیاسی طبقات پیدا کیے اور انھیں اپنا دست راست بنا کر طاقت میں حصے دار بنایا۔ وفادار خانوادوں کو وائسرائے کے دربار تک رسائی، خطابات اور سرکاری عہدوں سے نواز کر انھیں سماج کے دیگر طبقات کے مقابلے پر ممتاز کیا گیا۔ برطانوی راج میں نوآبادیاتی حکمت عملی کے تحت فرقہ وارانہ مذہبی شناخت کو سیاسی شناخت کے ساتھ مربوط کیا گیا، اس کے لیے سرداروں، وڈیروں، جاگیردار خانوادوں کو مزارات کی گدی نشینی اور پیری مُریدی کے لیے منتخب کیا گیا۔

مزاحمتی تحریکوں کے دباؤ پر برطانوی سرکار نے ہندستان میں جب کنٹرولڈ جمہوری سیاست متعارف کرائی تو سرکار نے انھی خانوادوں کو اسمبلیوں تک پہنچانے کا بندوبست کیا۔ سر چارلس نیپئر نے سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کے جاگیرداروں کو قومی اشرافیہ قرار دیا اور پھر انھی جاگیرداروں کو پیری مُریدی کا کردار سونپا گیا۔ پیروں کو ڈپٹی کمشنر، کمشنر یا گورنر کے دربار میں کُرسی عطاء کی جاتی، یہ کُرسی منصب، مُریدوں کی تعداد، انگریز وفاداری پر بہ طور انعام دی جاتی۔ پھر سرکار کی جانب سے ان پیروں کو سونے یا چاندی کے حروف میں لکھا شاباش نامہ دیا جاتا اورمخصوص علامتی لباس کے ساتھ تلوار اور بندوق بھی فراہم کی جاتی۔

ان پیروں کو سیاسی طاقت دینے کے لیے 1876 ء میں اینکمبرڈ اسٹیٹ ایکٹ کا نفاذ ہوا، اس قانون کی 1896 ء تک توسیع کی جاتی رہی پھر 1905 ء میں کورٹ آف وارڈز سسٹم متعارف کرایا گیا جو دراصل اینکمبرڈ ایکٹ کا تسلسل تھا۔ ان پیروں کو انگریز سرکار کی جانب سے اعزازی مجسٹریٹ کے عہدے سے بھی نوازا جاتا۔ عرب میں نئی مملکتوں کے قیام کی برطانوی استعمار کی پالیسی کے خلاف ہندستان میں جب تحریک خلافت برپا ہوئی تو 1922 ء میں سندھ کے پیروں نے اس تحریک کو خوف ناک قرار دیا اور اپنے مُریدوں کو اس تحریک سے الگ رہنے کے لیے فتویٰ دیے۔ اس تحریک کے دوران جن پیروں نے انگریز سرکار کے ساتھ اپنی وفاداری کو نبھایا انھیں سکھر بیراج کے ساتھ سینکڑوں ایکڑ جاگیریں دی گئیں اور خطابات سے نوازا گیا۔

یہ دراصل ہندستان پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے برٹش پیر الائنس تھا جسے پنجاب تک پھیلایا گیا تھا۔ 29 مارچ 1849 ء میں دس سالہ سکھ حاکم سے بذریعہ معاہدہ انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا اور اس قبضے کے بعد یہاں پنجابی پیروں کا ایک نئے طبقے کی پرورش کی گئی۔ برطانوی سرکار پنجاب میں شہری سیاست کو دیہی سیاست سے الگ رکھنے میں کامیاب ہوا جس کے لیے انگریز کے وفادار پیروں نے کردار نبھایا، پنجاب کے تمام بڑے پیر اور مزارات کے گدی نشین بڑے بڑے زمیندار و جاگیردار تھے۔ سرکاری مشینری کے ذریعے سے مُریدوں کو یہ ادراک کرایا گیا کہ پیر گورنر پنجاب یا ڈپٹی کمشنر تک رسائی رکھتا ہے تو اس سے عوامی سطح پر پیر کے رُعب و دبدبے میں اضافہ ہوتا۔

جب پنجاب میں امپریل لیجیسلیٹو کونسل بنائی گئی ان جاگیردار نُما پیروں کو نمائندگی دی گئی۔ ان سجادہ نشیوں کے رشتے داروں کو بھی لمبردار، ذیلدار اور امپیریل فوج میں نان کمشنڈ رینک سے نوازا جاتا۔ برطانوی سرکار نے جاگیرداروں اور پیروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 1900 ء میں انتقال اراضی قانون کا نفاذ کیا۔ چونکہ دیہی علاقوں میں پیروں کو ہی جاگیرداری کا کردار دیا گیا لہذا دیہاتوں میں غیر زرعی پیشے سے وابستہ افراد پر دیہی علاقوں میں زمین کی خریداری پر پاپندی عائد کر دی گئی اور جنوبی پنجاب کے سید اور قریشی سجادہ نشینوں کو اس قانون کے تحت زراعت پیشہ طبقات میں شامل کیا گیا۔ پیروں اور گدی نشینوں کا یہ طبقہ اپنی سیاسی قوت کی بدولت پسماندہ دیہاتوں کی ترقی و بیداری کو اپنی تباہی تصور کرتا تھا۔

پنجاب سیٹلمنٹ کمشنر جے ولسن نے فروری 1901 ء میں پیروں اور سجادہ نشینوں کی جاگیروں کو سیاسی وجوہات کی بناء پر تحفظ دینے پر زور دیا اور جلیانوالہ باغ میں قتل عام کا حکم دینے والے لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل ڈائر نے سجادہ نشینوں کی مقامی طاقت کی اہمیت کے پیش نظر اس قانون کی حمایت کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ برطانوی سرکار نے دونوں عالمی جنگوں میں فوجی بھرتیوں کے لیے بھی پیروں، سجادہ نشینوں کو ریکروٹمنٹ افسر ز بنایا اور عارضی طور پر اعزازی لیفٹینٹ اور کیپٹن کے عہدوں پر تعینات کیا۔

مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات کے تحت پنجاب میں 1920 ء میں صوبائی انتخابات کا انعقاد ہوا تو دیہی مسلم حلقہ جات کے 27 ممبران کو لاہور بھیجا گیا جن میں سے 5 کا تعلق نامور پیر خاندانوں سے تھا۔ میاں فضل حسین نے جب 1923 ء میں یونینسٹ پارٹی قائم کی تو لیجیسلیٹو کونسل کے ان پانچوں پیروں نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ پنجاب کے دیہاتی و قصباتی حلقوں سے منتخب ہو کر آنے والے بیشتر کونسل اراکین ان مراعات یافتہ طبقوں سے تعلق رکھتے تھے جنھیں برطانوی سرکار نے اپنے بازوئے شمشیر زن پنجاب میں استعماری جڑیں مضبوط کرنے کے لیے جمہور پر مسلط کیا ہوا تھا، جمہور کی غالب اکثریت کو تو رائے دہی کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ ان گدی نشینوں کی جبین نیاز صوبائی گورنر کے آستانہ اقتدار پر ہی نہیں بلکہ ضلع و تحصیل کے انگریز افسران کی دہلیزوں پر ناصیہ فرسائی کرنے میں فخر محسوس کرتی تھی۔ میاں فضل حسین خود شہری تھے مگر منتخب جاگیرداروں کے حلقے سے ہوئے تھے۔

پنجاب میں اس وقت مزارات کی تعداد 598 ہے، ان میں 64 درباروں کے گدی نشین، متولی اور پیر آج بھی براہ راست سیاسی نظام میں حصہ دار ہیں۔ سرگودھا، جھنگ، پاکپتن، ساہیوال، وہاڑی، منڈی بہاؤ الدین، اوکاڑہ، حجرہ شاہ مقیم، ملتان، چشتیاں، خیرپور ٹامیوالا کے گدی نشین براہ راست انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، یہاں کے گدی نشین پہلی بار جنگ آزادی کے مجاہدین کو کچلنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست راست بنے اور ان گدی نشینوں نے انگریزوں کے حق میں فتویٰ دیے اور جنگ کو بغاوت قرار دیا اور انعام کے طور پر جاگیریں پائیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان گدی نشینوں کو انگریزوں نے نوآبادیاتی عہد کے پاور سٹرکچر میں شامل کیا اور کورٹ آف وارڈز کے ذریعے سے انھیں مستقل سیاسی طاقت دی گئی۔

کورٹ آف وارڈز سسٹم کے تحت جن گدی نشینوں کو جاگیریں دی گئیں ان کی تفصیلات بھی ملاحظہ کیجئے : 1930 ء میں شاہ پور کے غلام محمد شاہ، ریاض حسین شاہ کو 6423 ایکٹرز جاگیر، اٹک کے سردار شیر محمد خان کو 25185 ایکٹرز، جھنگ کے شاہ جیونا خاندان کے خضر حیات شاہ، مبارک علی، عابد حسین کو 9564 ایکٹرز، ملتان کے سید عامر حیدر شاہ، سید غلام اکبر شاہ، مخدوم پیر شاہ کو 11917 ایکٹرز، ملتان کے گردیزی سید جن میں سید محمد نواز شاہ، سید محمد باقر شاہ، جعفر شاہ کو 7165 ایکٹرز، جلال پور پیر والا کے سید غلام عباس، سید محمد غوث کو 34144 ایکٹرز، گیلانی سید آف ملتان جس میں سید حامد شاہ اور فتح شاہ کے نام 11467 ایکٹرز، دولتانہ خاندان کے اللہ یار خان آف لڈھن کو 21680 ایکٹرز، ڈیرہ غازی خان کے میاں شاہ نواز خان آف حاجی پور کو 726 ایکٹرز، مظفر گڑھ کے ڈیرہ دین پناہ خاندان کے ملک اللہ بخش، قادر بخش، احمد یار اور نور محمد کو 2641 ایکٹرز اور ستپور کے مخدوم شیخ محمد حسن کو 23500 ایکٹرز جاگیر دی گئی۔

آج ان خانوادوں کے جانشین اور اولادیں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر براجمان ہیں اور جمہوریت کے چمپئن ہیں۔

برطانوی استعمار نے جاگیریں دینے کے ساتھ ساتھ درباروں کے گدی نشین خاندانوں کو ذیلدار کے عہدوں پر بھی تعینات کیا۔ اس میں مظفر گڑھ سے دیوان محمد غوث، سید باندے شاہ، خان صاحب مخدوم محمد حسن، سید تراب علی شاہ، سید عامر احمد شاہ، سید غلام سرور شاہ، سید جند وڈا شاہ، میانوالی سے سید قائم حسین شاہ، غلام قاسم شاہ، شاہ پور سے پیر چن پیر، سید نجف شاہ، فیروز دین شاہ، پیر سلطان علی شاہ، علی حیدر شاہ، جھنگ سے محمد شاہ، اللہ یار شاہ، محمد غوث اور بہادر شاہ کو ذیلدار کا عہدہ دیا گیا۔

ہندستان پر برطانوی تسلط کے 180 سال بعد 1937 ء میں محدود جمہوری انتخابات کرائے تو یونینسٹ پارٹی میں شامل یہی جاگیردار، گدی نشین اور پیروں کو منتخب کرایا گیا، 1946 ء کے انتخابات میں بھی یہی خاندان برسر اقتدار آئے۔ جنوبی پنجاب کے گیلانی، قریشی، ڈیرہ غازی خان کے علاوہ وسطی پنجاب سے پیر نسیر الدین شاہ آف کمالیہ، شاہ جیونا آف جھنگ، مخدوم سید علی رضا شاہ آف سندھلیانوالی، مخدوم ناصر حسین شاہ، پیر محی الدین لال بادشاہ آف مکہد شریف اٹک نمایاں تھے۔ یہی خاندان یونینسٹ پارٹی کو چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور اپنے مفادات کو پاکستان کی حمایت سے جوڑ دیا۔

قیام پاکستان کے بعد ان گدی نشین پیروں نے قومی جمہوری اور مارشل لاء کی سیاست میں مستقل طور پر اپنا وجود قائم کر لیا۔ ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے تصور سے لے کر ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں اسلامائزیشن کے تصور کو رائج کرنے اور جنرل پرویز مشرف کے روشن خیال تصورات کی حمایت میں یہ گدی نشین پیش پیش رہے۔ قومی و صوبائی سیاست میں نمائندہ درباروں کے یہ با اثر گدی نشین اور پیروں کے حلقہ جات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہاں شرح خواندگی تشویش ناک حد تک کم ہے۔

درباروں کے یہ مذہبی نمائندے اپنے مُریدوں سے نزرانے، منتیں، مرادیں لیتے ہیں اور محکمہ اوقاف پر ان کا ہمیشہ مکمل کنٹرول رہا ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں وزیر اوقاف نے رپورٹ جمع کرائی کہ محکمہ کے زیر انتظام مزارات کی تعداد 544 ہے اور ان مزارات سے سالانہ آمدن ڈیڑھ ارب سے زائد ہوتی ہے، یعنی سرکار کے کھاتے میں مُریدوں اور زائرین کے نذرانوں سے بس اتنی رقم جمع ہوتی ہے۔ مزارات سے منسلک زرعی جاگیروں پر ملی بھگت سے مقامی افراد قابض ہیں اور ان جاگیروں کا رقبہ سینکڑوں ایکڑز ہے۔ متعدد مزارات کی گدی نشینی دراصل اب جانشینی میں تبدیل ہو چکی ہے اور انھی گدی نشینوں یا متولیوں کے تحت ہی سالانہ عرُس تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

مابعد نوآبادیاتی عہد کے سیاسی ڈھانچے میں ان گدی نشینوں کی اجارہ داری و سیاس طاقت کو قائم رکھا گیا ہے اور چاروں صوفیاء کے سلسلہ کے بڑے بڑے اولیاء اللہ کے درباروں اور مزارات کا سیاسی کردار انھی گدی نشینوں کی ایماء پر طے ہوتا ہے۔ قومی سیاسی نظام کے تحت ان درباروں کو مذہبی طاقت فراہم کی گئی ہے تاکہ ملک پر استعماری نظام کے تسلط اور قومی ذہن اجتماعی سوچ و فکر اور جدوجہد سے عاری رکھ کر اجارہ دار طبقات کی تکونی طاقت برقرار رہے۔
 

یاقوت

محفلین
مجھے چودھری افضل حق مرحوم کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جب انہوں نے سرکاری نوکری سے اس لیے استعفی دے دیا کہ مسلمانوں میں اپنے سیاسی حقوق کا شعور بیدار کریں۔لکھتے ہیں۔۔۔۔۔
"" میں مدد کی درخواست لیکر اس وقت کے اہم ترین گدی نشینوں کے پاس گیا کیونکہ انکا اثرو رسوخ عوام میں بہت زیادہ تھالیکن سب (تقریباََ)کا جواب ایک ہی تھا کہ تم آرام سے بیٹھ جاؤ انگریز کی تباہی پر تمام اولیاء اللہ کے دستخط ہو چکے ہیں اب بس جناب رسول اللہﷺ کے دستخط باقی ہیں""
 

سید عمران

محفلین
مجھے چودھری افضل حق مرحوم کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جب انہوں نے سرکاری نوکری سے اس لیے استعفی دے دیا کہ مسلمانوں میں اپنے سیاسی حقوق کا شعور بیدار کریں۔لکھتے ہیں۔۔۔۔۔
"" میں مدد کی درخواست لیکر اس وقت کے اہم ترین گدی نشینوں کے پاس گیا کیونکہ انکا اثرو رسوخ عوام میں بہت زیادہ تھالیکن سب (تقریباََ)کا جواب ایک ہی تھا کہ تم آرام سے بیٹھ جاؤ انگریز کی تباہی پر تمام اولیاء اللہ کے دستخط ہو چکے ہیں اب بس جناب رسول اللہﷺ کے دستخط باقی ہیں""
دستخط؟؟؟
کیا کوئی دستاویز تیار ہورہی تھی؟؟؟
دستاویز ریکارڈ رکھنے اور ثبوت دکھانے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔۔۔
خدا کے کرنے کے کاموں میں کسی کی دخل اندازی کیسی؟؟؟
اپنے معاملات میں خدا کسی کو جوابدہ نہیں کہ دستاویز تیار ہوں یا ان پر دستخط ہوں!!!
 
Top