مزاح کے کارخانے میں دخل-حصہ اول

Rashid Ashraf

محفلین
مزاح کے کارخانے میں دخل
خیر اندیشراشد اشرف
کراچی سے

ان دنوں کتابیں اس کثیر تعداد میں شائع ہورہی ہیں کہ ادھر کچھ عرصے سے دیکھتے ہی دیکھتے بازار میں کاغذ کا بھاؤ بڑھ گیا ہے۔ قارئین کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کیا خریدیں اور کیا چھوڑیں۔شاعری ، تنقید، تاریخ ،سفرنامہ غرض یہ کہ ایک سیلاب بلا ہے جو کتابوں کی شکل میں گھروں میں داخل ہورہاہے۔ اس ضمن میں معروف ادیبہ سائرہ غلام نبی اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھتی ہیں:

’’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کتابوں کی اشاعت میں بے پناہ تیزی آئی ہے۔لکھنے والا اعتبار کی سند حاصل کیے بغیر صاحب کتاب باآسانی بن رہا ہے۔یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا یہ محض جدید دور کا کوئی نیا فیشن ہے یا اس سے کوئی ذاتی قسم کا مفاد وابستہ ہے۔نظریاتی تحاریک سے جڑے بغیر ،
content
کی گہرائی میں اترے بغیر، سنجیدگی سے علم کا انہماک کیے بنا تخلیقی وفور سے سرشار ہوئے بغیر لفظوں کا ڈھیر لگایا جارہا ہے۔ چمکتے دمکتے درآمد شدہ کورے اوراق کو فرسودہ اور بے معنی خیالات سے سیاہ تر کیا جارہا ہے۔ یہ دو نمبر شاعر اور ادیب مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں اور بہت تیزی سے اصل مال کے دام کو کھوٹاکررہے ہیں ۔ہماری تشویش آج سے زیادہ آئندہ کے لیے ہے کہ آج کے مسترد شدہ ادیب و شاعر کل کے بچھے کھچے قاری کی دسترس میں ہوں ۔انہیں اوچھے ہتھکنڈے آتے ہیں جن میں فلیپ لکھنے والے نقاد ان کے مددگار ہیں۔ ایسے ادب کو ادب بننے سے کیسے روکا جائے ؟ بے پناہ کتابوں کی اشاعت پر پابندی کیسے لگائی جائے ؟ ‘‘

سائرہ غلام نبی کی تشویش اپنی جگہ لیکن ہم سمجھتے تھے کہ ایک صنف ادب ضرور ایسی باقی بچی ہے جس میں طبع آزمائی ہر کس و ناکس کی بات نہیں لیکن اب وہ بھی لکھنے والوں کی زد پر آگئی ہے ، یہاں بات ہورہی ہے مزاح نگاری کی۔ دوسرے لفظوں میں اس کارخانے میں بھی تواتر کے ساتھ دخل اندازی کرنے والوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مزاح کے کارخانے میں دخل کی ترکیب پر مبنی واقعے کے راوی خامہ بگوش ہیں، لکھتے ہیں

ڈاکٹر عالیہ امام نے اپنی خودنوشت ’شاخ ہری اور پیلے پھول‘ میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ وہ اکثر جوش صاحب کے گھر جایا کرتی تھیں۔ بیگم جوش کو ان کا آنا پسند نہیں تھا۔ ایک روز بیگم صاحبہ کا پیمانہ صبر چھلک گیااور انہوں نے ڈاکٹر عالیہ امام سے کہا: ’’ مجھے ایسی عورتیں زہر لگتی ہیں جو دوسروں کے کارخانے میں دخل دیں ‘‘
افسوس کہ بیگم جوش کا انتقال ہوچکا ہے ۔ اگرڈاکٹر عالیہ امام کی کتاب ’شاعر انقلاب۔۔۔نظریاتی و تنقیدی مطالعہ‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئی ہوتی تو وہ اسے دیکھ کر یہ ضرور کہتیں:
’’ اچھا تو اب آپ تنقید کے کارخانے میں بھی دخل دینے لگیں۔‘‘ (خامہ بگوش )

اس خامہ بگوشی کی یاد ہمیں حال ہی میں شائع ہوئی ایک ایسی کتاب کو پڑھنے کے بعد آئی جسے ہم یاداشتوں کا مجموعہ سمجھ کر خرید لائے تھے لیکن کتاب کے ایک ہی نشست میں مطالعے کے پُرخطر فیصلے کے بعد یہ علم ہوا کہ فاضل مصنف نے مزاح کے کارخانے میں دخل دینے کی کوشش کی ہے۔ ۔ کتاب کا عنوان ہے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘، اس کے مصنف ایک ریٹائرڈبینکار جناب ایس ایچ جعفری ہیں۔ کتاب کے پس ورق، مصنف کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر ہے جو کتاب کے عنوان کی مناسبت سے مختلف ہے۔ آپ نے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا ، کتاب کے دیباچے میں یہ واضح کردیا کہ ’ یہ سوانح عمری نہیں ہے ، بس ایک عام سے آدمی کے اوپر سے گزرنے والے کچھ واقعات ہیں جو ذہنی گرفت میں آگئے۔‘‘۔
مصنف نے کتاب کے مطالعے کے بعد اس کے قاری کی ذہنی گرفت کی کیفیت میں ہونے والی تبدیلیوں کا حال جاننے کے لیے اپنا ای میل پتہ بھی درج کیا ہے۔ مصنف نے دیباچے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی نے مزاح کا معیار اس قدر بلند کردیا ہے کہ بڑے بڑے مزاح نگار ان کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔لیکن یہ اعتراف کرنے کے باوجود بھی انہوں نے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کو بمثل عنوان کتاب، ایک جنوں کی کیفیت میں لکھا اور اس بات کی پوری پوری کوشش کی کہ جنوں کی یہ کیفیت ان کے قاری پر بھی طاری ہوجائے خاص کر اپنے پیسوں کو ضائع ہوتا دیکھ کر۔ کتاب عالم جنوں میں لکھی گئی ہے اور قاری بھی دوران مطالعہ یہی کیفیت طاری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف مصنف نے ابتدا ہی میں یہ لکھ کر قاری کے دکھوں میں مزید اضافہ کردیا ہے کہ ’مذکورہ کتاب کی جملہ آمدنی علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کراچی کے لیے وقف ہے۔‘ ۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ علی گڑھ ایسو سی ایشن کے انتظامی و معاشی معاملات پر زیر موضوع کتاب کی فروخت سے حاصل ہوئی آمدنی کی آمیزش کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟


کتاب کے دیباچے میں جعفری صاحب نے یہ راز بھی فاش کردیا ہے کہ آخر ان کو اس کتاب کے لکھنے کا خیال کیونکر آیا۔ لکھتے ہیں کہ ’’ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میرا ایک مضمون پڑھ کر میرے چند دوستوں نے پہلے تو مشورہ دیا کہ کہ میں مزید لکھوں ، اس کے بعد بھی اصرار کرتے رہے۔یہ عین ممکن ہے کہ ان کے اس عمل سے مقصود میری ٹانگ کھینچنا رہا ہو لیکن میں نے بڑی سنجیدگی سے ان کے مشورے پر عمل کیا ہے۔ ‘‘
جعفری صاحب نے اپنی کتاب کا انتساب اپنے ہم وطنوں کے نام یہ لکھ کر کیا ہے ’’ جو اگر چاہیں تو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنا کر ترقی یافتہ اقوام عالم کی صف میں اپنی ممتاز حیثیت کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک ریٹائرڈ بینکار کے دوست کس قماش کے ہیں جنہوں نے ان کو یہ کتاب لکھنے کا مشورہ دیا اور اس پر مستزاد مصنف ان کی باتوں میں کیونکر آئے۔ اس صورت حال میں وہ محاورہ بھی مصنف کے پیش نظر ہونا چاہیے تھا کہ نادان دوست سے دانا دشمن اچھا۔ رہا سوال ٹانگ کھینچنے کا، تو کتاب میں ایک جگہ انہوں نے اپنا وزن بھی پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرنے کی غرض سے درج کیا ہے جو 140 پاؤنڈ ہے۔ اتنے وزن کے حامل کسی شخص کی ٹانگ کھینچنا ذرا مشکل بات نظر آتی ہے۔ کتاب کے انتساب میں مصنف اپنے ہم وطنوں کو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنانے کی تلقین کرتے ہیں لیکن انہیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کی اس کتاب کے قاری کے لیے اسے خریدنے کے بعد نظم اور پڑھنے کے بعد اپنا ضبط برقرار رکھنا خاصہ مشکل کام ہوگا۔

’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے مصنف نے اس کتاب کا آغاز ہی ایک تنازعے کے ساتھ کیا ہے، یہ ہماری ناقص سمجھ کا قصور بھی ہوسکتا ہے کہ شاید مصنف نے کتاب کی ابتدا ہی مزاح سے کرنے کی کوشش کی ہو، بہرکیف انہوں نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے ’ ’تاریخ پیدائش: متنازعہ‘‘۔ یہ بجائے خود ایک متنازعہ بات ہے ۔وہ تمام عمر بینک میں ایک متنازعہ تاریخ پیدائش کے حامل ریکارڈ کے ساتھ کیسے نوکری کرتے رہے ؟ تاریخ پیدائش کے بعد لکھتے ہیں ’تاریخ وفات: ہنور نامعلوم‘۔ خدا ان کو لمبی عمر دے لیکن ان کی اس کتاب کے مطالعے کے بعد مصنف کے بجائے اس کے قاری کی تاریخ وفات کا تعین ہونا قرین از قیاس نظر آرہا ہے۔
فہرست مضامین کا آغاز ہی مزاحیہ انداز میں کیا گیا ہے ، باب نمبر دو کا عنوان ’میں کیوں پیدا ہوا ‘رکھا گیاہے۔ مذکورہ باب میں مصنف اپنی پیدائش کا سبب تلاش کرتے نظر آتے ہیں، بقول ان کے، ’میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے اس سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں لیکن تاحال مجھے کوئی تسلی بخش جواز نزول نہیں مل سکا ہے۔،دنیا کی بے انتہا ترقی کے باوجود آج بھی قدرت کے کئی راز ہائے سربستہ سے پردہ نہیں ہٹ سکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میرا حادثہ پیدائش بھی ان میں سے ایک ہے ‘۔

ایس ایچ جعفری صاحب نے یہ بات لکھ کر کم از کم ہمیں تو حیران و پریشان کردیا ہے ، اس سے پہلے ہمارے علم میں قدرت کے دس مصدقہ راز ہائے سربستہ مثلا برمودا ٹرینگل ، جیک دی رپر وغیرہ ، جیسے پیچیدہ و لاینحل معمے ہی تھے، اب یہ علم ہوا کہ جناب مصنف کا حادثہ پیدائش بھی ان میں سے ایک ہے۔

’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کا آغاز مصنف کے سوانحی حالات سے ہوتا ہے اور اس سے یہ امید بندھ جاتی ہے کہ یہ سلسلہ آخر تک یونہی چلے گا اور پڑھنے والوں کو ایک بینکار کے حالات زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا لیکن الہ آباد میں گزرے اپنے بچپن کے واقعات کو بیان کرتے کرتے یکایک مصنف لندن میں بینک کی نوکری کا احوال بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ قاری ان کو کسی قسم کا الزام نہیں دے سکتا کہ کتاب کا عنوان اس کے پیش نظر رہتا ہے۔


ایس ایچ جعفری صاحب کی بذلہ سنجی کے کئی یادگار نمونے کتاب میں جا بجا بکھرے ہیں بلکہ کئی جگہ تو قاری کو ان کی جانب سے بے دھیانی برتنے کی صورت میں ٹھوکر لگنے کا احتمال بھی رہتا ہے۔لندن میں قیام کے دوران مصنف نے اپنے دوست ملک صاحب کولاجواب کردیا تھا۔ ہوا یہ کہ ملک صاحب نے اپنے گھر میں غسل خانہ بنوایا اور ہر ملاقاتی کو جوش و خروش سے دکھانا شروع کیا،مصنف بھی پہنچے اور غسل خانے کا ٹب دیکھ کر ملک صاحب سے کہا:
جناب اسٹیم کہاں سے آئے گی ؟
ملک صاحب نے پوچھا اسٹیم کیسی، یہ تو نارمل باتھ ٹب ہے
مصنف نے جواب دیا :ملک صاحب! اس ٹب میں یا تو آپ آئیں گے یا پانی، دونوں تو بیک وقت نہیں سما سکتے
اس بے مثال و لاجواب بذلہ سنجی پر مبنی جواب کے بعد مصنف لکھتے ہیں: ملک صاحب نے مجھے دھکا دے کر باہر نکال دیا اور میری بیوی سے کہنے لگے کہ آپ کے شوہر بہت بے ہودہ ہیں۔

ہمیں مصنف کے کہے گئے جملے میں بے ہودگی کی تو کوئی رمق نظر آئی البتہ ملک صاحب کا مصنف کو دھکے دے کر باہر نکال دینا بجائے خود ایک بے ہودگی پر مبنی واقعہ نظر آتا ہے۔​


جعفری صاحب ایک کیفے میں چمچوں کا معائنہ کررہے تھے ،یہی ملک صاحب وہاں موجود تھے ، انہوں نے جعفری صاحب سے کہا ’کسی خاص چمچے کی تلاش ہے ؟جعفری صاحب نے جواب دیا ’ معاف کیجیے! میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا‘۔ جعفری صاحب لکھتے ہیں کہ ملک صاحب اس وقت تو کچھ نہ بولے، بعد میں خفگی کا اظہار کیا۔ جعفری صاحب نے اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد اگلے ہی صفحے پر اپنی ہی بات کی تردید یہ کہہ کر کردی کہ ’’ ملک صاحب میں اور خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ نہ صرف دوسروں کی بات کا برا نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے اوپر چپکائے ہوئے مذاق بھی مزے لے لے کردوسروں کو سناتے۔‘‘

یہ عین ممکن ہے کہ کیفے میں مصنف کے بے مثال جملے کے جواب میں ملک صاحب کی خفگی کو بھی مصنف نے ان کی ایک خوبی سمجھا ہو ۔
 
Top