مزاحیہ غزل : “یہ وطیرہ ہے محبت میں پرانا اُس کا” از نوید ظفرکیانی

۔
“یہ وطیرہ ہے محبت میں پرانا اُس کا”
جاں نثاروں میں سیاسی نظر آنا اُس کا


کوئی بی لیلٰی پہ مجنوں کی حقیقت کھولے
ہیر کی تاڑ میں رہتا ہے دوانا اُس کا


کیا بنے بات جہاں مانع رہے آپس میں
بات بے بات یونہی بات بڑھانا اُس کا


عشق میں ہجر کے ٹھینگے کے سوا کچھ نہ ملا
کیسے خوش آئے بھلا ایسا بیعانہ اُس کا


بی جمالو ہے صحافت بھی زمانِ نو کی
کارِ منصب ہے وہی آگ لگانا اُس کا


کل مری داڑھ کے نیچے بھی وہ آ سکتا ہے
آج مانا یہ زمانہ ہے زمانہ آس کا


میرے ہتھے نہیں چڑھتا ہے وہ خواہ بعد ازاں
لُوٹ لے جائے کوئی اور خزانہ اُس کا


ساتھ لے جانا بلندی کے سفر پر سب کو
اور جا کر کہیں اُوپر سے گرانا اُس کا


کتنا آسان ہے فدوی سے اُڑانا قرضے
کتنا دشوار ہے جامے میں سمانا اُس کا


وہ جو ڈھمکانے سے ہنس ہنس کے نہ کرتی باتیں
تو یُوں جل بُھن کے نہ رہ جاتا فلانا اُس کا


اب ڈیو ہو گیا زوجہء جفا جُو کا گلہ
چوک جاتا تھا ظفر پہلے نشانہ اُس کا


نویدظفرکیانی
 

نایاب

لائبریرین
کل مری داڑھ کے نیچے بھی وہ آ سکتا ہے
آج مانا یہ زمانہ ہے زمانہ آس کا
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
 
Top