مزاج میں اعتدال اور نرم خوئی

سید عمران

محفلین
زندگی میں ایسے کئی لوگ ملتے ہیں جو مزاج کی سختی کے باعث ہمیں بالکل نہیں بھاتے۔ ایسے لوگوں سے ہر ایک دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ ان کے مزاج میں شدت کی وجہ سے دوسرا بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے۔بعض مرتبہ ہم خود جذبات سے مغلوب ہوکر ایسا رویہ اختیار کرلیتے ہیں جو معاملے کو سلجھانے کی بجائے مزید گھمبیر بنادیتا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ معتدل مزاجی و نرم خوئی سے زندگی گزارنے میں ہی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔

معتدل مزاجی مزاج کی وہ قسم ہے جس میں آپ نہ حد سے زیادہ غصہ ہوکر آگ بگولہ ہوتے ہیں اور نہ برف کی مانند سرد۔ جبکہ نرم خوئی میں اپنے غصے کو دباتے ہوئے دوسروں سے نرم الفاظ و لب و لہجہ میں بات کی جاتی ہے،غصے سے مغلوب ہو کر سخت الفاظ یا سخت رویہ اختیار کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ نرم خوئی کا حصول مزاج میں اعتدال لائے بغیر ممکن نہیں۔

ہمارے معاشرے میں معتدل مزاجی و نرم خوئی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے اور عدم برداشت، غصہ اور نفرتیں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں۔ ہم ہر وقت ہر کسی سے اپنا ہر موقف منوانے کا تہیہ کیے رکھتے ہیں، خود تو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے مگر سامنے والے پر پورا زور ڈالتے ہیں کہ وہ ہماری ہر بات بلا چوں و چرا مان لے، ہم اسے دوسرا آپشن دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتے۔

یوں تو بلاوجہ لوگوں سے الجھنے یا جھگڑا کرنے سے بچیں اور حتیٰ الامکان نرم خوئی کا معاملہ رکھیں لیکن اگر بات حق و باطل، قانونی و غیر قانونی، نفع و نقصان کی ہو تو بہتر ہے کہ اپنی سی پوری کوشش کرلی جائے کہ سامنے والے کو اس کا نفع نقصان سمجھادیا جائے البتہ ماننا نہ ماننا اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔اگر کسی کو بری بات پر ٹوکنا ہو یا اس سے اختلاف کا اظہار کرنا ہو تواس کے لیے بھی ایسا انداز اختیار کیا جائے جس میں کھردرے پن اوردرشتی کے بجائے خیرخواہی اور دلسوزی کا پہلو نمایاں ہو۔ اگر کسی چھوٹے کی تربیت کے لیے اس پر غصہ کرنا ضروری ہو تو وہ بھی اعتدال کی حدود میں ہو۔

انسان ہونے کے ناطے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ طبیعت کو اعتدال پر رکھنے کے باوجود کسی شخص کے قول یا فعل پر بہت زیادہ غصہ آجاتا ہے اگرچہ ا س وقت بھی غصہ نہ کیا جانا کمال کی بات ہے مگر بشری کمزوری کی وجہ سے جذبات پر قابو نہ رہے تو اسے اپنی کمزوری ضرور سمجھیں اور آئندہ ایسا کرنے سے گریز کریں، آپ دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ آپ نے اس کمزوری پر قابو پانا سیکھ لیا ہے۔

معتدل مزاجی اور نرم خوئی اسلامی تعلیمات کے لازوال حسن میں سے ایک حسن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نرم خوئی کی جتنی ترغیب دی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام سراپا رحمت ہی رحمت ہے۔ دنیا جنگ کے بارے میں کہتی ہے کہ جنگ میں سب جائز ہے اسلام اس موقع پر بھی اصول بتا دیتا ہے کہ فتح کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح ہر چیز روندتے مت چلے جانا، جذبات پر عقل اور عقل پر شریعت غالب رکھنا۔ جنگ میں شرکت نہ کرنے والے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھانا، ان کی عزتیں پامال نہ کرنا، ان کے گھر نہ روندنا، ان کے اموال نہ لوٹنا اور پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینا۔

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بہت مہربان ہیں اور مہربانی کو پسند کرتے ہیں، اور (لوگوں کے ساتھ اُلفت کا معاملہ کرنے پر) جو کچھ عطا فرماتے ہیں ،وہ سختی اور تشدد پر نہیں دیتے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ یہ آپ کی نرم دلی اور مہربانی ہی کا نتیجہ ہے کہ مجمع کا مجمع دیوانہ وار آپ کے اردگرد جمع ہے، اپنی جان مال، آل اولاد سب آپ پر نچھاور کرنے کو تیار ہے، اگر آپ سخت دل ہوتے تو یہ کبھی آپ کے پاس جمع نہ ہوتے۔

ایک حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کو نصیحت فرمائی کہ اے عائشہ! نرمی کو اختیار کرنا، کیوں کہ نرمی ہر چیز کو خوب صورت بنادیتی ہے اور جس چیز سے نرمی و آسانی نکل جائے وہ بدنما ہوجاتی ہے۔حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جسے نرمی سے محروم کردیا گیا وہ ہر طرح کی خیر و بھلائی سے محروم کردیا گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کڑوی اور زہر آلود باتوں کا اس طرح جواب دیا کہ عقل محو حیرت رہ جاتی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہود کی ایک جماعت نے آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہی اور کہا السام علیکم یعنی آپ پر موت طاری ہو۔ اس پر میں نے کہا بل علیکم السام واللعنۃ بلکہ تم لوگوں پر خدا کی پھٹکار اور موت ہو۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اے عائشہ! اللہ ہر بات میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا میں نے سن لیا اور اس کے جواب میں صرف اتنا کہا وعلیکم یعنی تم پر بھی۔

یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق اور کمال بردباری کا ایک مظہر ہے۔ اس میں امت کے لیے یہ سبق بھی مضمر ہے کہ لوگوں سے صبر و تحمل اور نرم خوئی کے ساتھ پیش آیا جائے۔


ایک شخص نے اما م ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو راہ چلتے ہوئے خوب برابھلاکہا۔امام ابوحنیفہ صبر و تحمل کے ساتھ اس کی باتیں سنتے رہے اور ان کا کوئی جواب نہ دیا۔جب آپ کا گھر قریب آگیا تو فرمایا کہ میرا گھر آگیا ہے،اگر تمہیں کچھ اور کہنا ہے تو میں یہیں ٹھہر جاتا ہوں تاکہ تم اپنے دل کی بھڑاس نکال لو۔وہ شخص دل ہی دل میں شرمندہ ہوگیا۔ آپ کے اس رویہ نے اس کی عداوت و دشمنی کو محبت و دوستی سے بدل دیا۔

حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی کنیز وضو کروارہی تھی، اچانک وضو کا برتن ہاتھ سے چھوٹ کر حضرت زین العابدین پر آگرا۔ آپ نے غصے بھری نظروں سے کنیز کو دیکھا تو اس نے فوراً یہ آیت پڑھی وَالْكَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ جو لوگ غصہ آنے کے باوجود اس پر قابو رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے غصے پر قابو پالیا۔ اس پر اس نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ اور لوگوں کی غلطیوں کو معاف بھی کردیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا جا میں نے تجھے معاف کیا۔ اب کنیز نے اگلا حصہ پڑھا وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ اللہ نیکی و بھلائی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا اچھا جا میں نے تجھے آزاد بھی کردیا۔

اسلاف کے یہ واقعات ہمیں عمل کی راہ سجھاتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ہمارے جیسے انسان تھے مگر برداشت کے اس درجے پر فائز تھے کہ عام انسانوں سے ممتاز ہوگئے۔

آئیے ہم سب اس بات کی کوشش کرنے کا ارادہ کریں کہ آج سے اپنے گھر والوں، بیوی بچوں، پڑوسیوں، شاگردوں اور جن جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے سب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں گے، اس کی تلخ نوائی اور بدتمیزی پر خاموش رہیں گے یا ضروری بات کرنے کے بعد بات کو زیادہ نہیں بڑھائیں گے۔یہ عمل نہ صرف دوسروں بلکہ ہمارے لیے بھی راحت و سکون کا باعث بنے گا۔ نرم خوئی اور برداشت کرنے سے نہ صرف جھگڑا اور بدمزگی رفع ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات باہمی محبت و مودت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جبکہ سخت رویہ اختیار کرنے سے خیر کی کوئی صورت کبھی سامنے نہیں آتی البتہ آپس میں بغض و عداوت ضرور پیدا ہوجاتی ہے۔

معتدل مزاجی و نرم خوئی زندگی کے ہر شعبے اور ہر موقع پر ضروری ہے۔ اگر آپ اپنے مزاج کی انتہاؤں پر قابو پا کر خود کو اعتدال پر لے آئیں تو آپ کی اور دوسروں کی زندگی نہایت آسان ہو جائے گی۔
 

نایاب

لائبریرین
معتدل مزاجی اور نرم خوئی اسلامی تعلیمات کے لازوال حسن میں سے ایک حسن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نرم خوئی کی جتنی ترغیب دی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام سراپا رحمت ہی رحمت ہے۔
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک اچھے عمل کی جانب کشش کرتی بہت خوبصورت تحریر
بہت دعائیں
 
Top