مرے دل کو سنبھلنے کی پڑی ہے۔اسلم کولسری

مرے دل کو سنبھلنے کی پڑی ہے
ابھی سر پر قیامت کی گھڑی ہے
محبت کی تپش سینے میں رکھنا
اگرچہ آزمائش ہے، کڑی ہے
ستارے گرتے جاتے ہیں زمیں پر
نئے پہلو سے شاخِ شب جھڑی ہے
کِھلے ہیں زخم، کاغذ کے بدن پر
قلم بھی ایک نوکیلی چھڑی ہے
جسے خورشید کہتا ہے زمانہ
اُفق کی آنکھ میں سُولی گڑی ہے
دھنک کہتے ہیں جس کو بخت والے
ہمیں تو آسماں کی انتڑی ہے
جسے چاہا اسے ملنے کی خواہش
کوئی تلوار سی دل میں جڑی ہے
کبھی صحرا میں بھی کھلتی ہے کونپل
نہ جانے کیوں نظر ضد پر اڑی ہے
کسی نے دل میں بھی جھانکا ہے اسلم
شکایت یوں تو یاروں کو بڑی ہے
 
Top