مری یہ آنکھیں تو جاگتی ہیں

طالش طور

محفلین
سر الف عین
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


مری یہ آنکھیں تو جاگتی ہیں

نہ پوجھ تیری جدائی مجھ پر
عذاب برسائے کیسے کیسے
میں بےقراری کی آخری حد کو چھو کے کتنا تڑپ رہا ہوں
میں ضبط کی آخری حدوں سے نکل کے کتنا سلگ رہا ہوں
میں تیری چاہت بسا کے دل میں
تری جدائی میں جل رہا ہوں
اداس رفتار وقت کی ہے
ہے تیرگی اک چہار جانب
کہ رات کے آخری پہر میں
گھٹائیں ساری
برس برس کر ابھی تو خاموش ہو گئی ہیں
مگر یہ آنکھیں جدائیوں میں تری مسلسل برس رہی ہیں
کہ رات کے آخری پہر میں
ہوائیں چل چل کے تھک گئی ہیں
ستارے تھک تھک کے سو گئے ہیں
مگر اے جاناں
ی
مری یہ آنکھیں تو جاگتی ہیں
آنکھیں تو جاگتی ہیں

نہ پوجھ تیری جدائی مجھ پر
عذاب برسائے کیسے کیسے
میں بےقراری کی آخری حد کو چھو کے کتنا
تڑپ رہا ہوں
میں ضبط کی آخری حدوں سے نکل کے کتنا
سلگ رہا ہوں
میں تیری چاہت بسا کے دل میں
تری جدائی میں جل رہا ہوں
اداس رفتار وقت کی ہے
ہے تیرگی اک چہار جانب
کہ رات کے آخری پہر میں
گھٹائیں ساری
برس برس کر ابھی تو خاموش ہو گئی ہیں
مگر یہ آنکھیں جدائیوں میں تری مسلسل
برس رہی ہیں
کہ رات کے آخری پہر میں
ہوائیں چل چل کے تھک گئی ہیں
ستارے تھک تھک کے سو گئے ہیں
مگر اے جاناں
مری یہ آنکھیں تو جاگتی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
یاسر علی تمہاری تجویز کردہ ترمیمات کی ضرورت نہیں، طالش کا اظہار درست صیغے کا ہے، اور جیسے تھک کی جگہ رو رو کا مشورہ ہے تو وہ صرف اپنا اپنا انداز بیان ہے، میں یہ سب قبول کر لیتا ہوں
نظم دو بار کاپی پیسٹ ہو گئی ہے، معاون کے تعاون میں تھوڑی کمی رہ گئی شاید!

مجھے یہ مصرع کچھ کمزور لگے
ہے تیرگی اک چہار جانب
اس کو تبدیل کر سکتے ہیں، جیسے
عجب سی اک تیرگی ہے جیسے چہار جانب

کہ رات کے آخری پہر میں
گھٹائیں ساری
برس برس کر ابھی تو خاموش ہو گئی ہیں
... گھٹائیں خاموش ہونا کچھ عجیب لگتا ہے

مگر اے جاناں
اے کا محض اِ رہ جانا درست نہیں
مگر مری جاں
کیا جا سکتا ہے
 

طالش طور

محفلین
یاسر علی تمہاری تجویز کردہ ترمیمات کی ضرورت نہیں، طالش کا اظہار درست صیغے کا ہے، اور جیسے تھک کی جگہ رو رو کا مشورہ ہے تو وہ صرف اپنا اپنا انداز بیان ہے، میں یہ سب قبول کر لیتا ہوں
نظم دو بار کاپی پیسٹ ہو گئی ہے، معاون کے تعاون میں تھوڑی کمی رہ گئی شاید!

مجھے یہ مصرع کچھ کمزور لگے
ہے تیرگی اک چہار جانب
اس کو تبدیل کر سکتے ہیں، جیسے
عجب سی اک تیرگی ہے جیسے چہار جانب

کہ رات کے آخری پہر میں
گھٹائیں ساری
برس برس کر ابھی تو خاموش ہو گئی ہیں
... گھٹائیں خاموش ہونا کچھ عجیب لگتا ہے

مگر اے جاناں
اے کا محض اِ رہ جانا درست نہیں
مگر مری جاں
کیا جا سکتا ہے
سر بہت شکریہ میں آپ کی رائے سے بلکل متفق ہوں اللہ پاک آپ کو تادیر سلامت رکھے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جدائی کے درد کو سموئے خوبصورت الفاظ میں لکھی زبردست نظم ہے۔ بچھڑنا اور جدا ہونا ایک ایسا احساس ہے جس میں کچھ الفاظ کی کمزوری بھی دکھ درد کے الاؤ کی شدت کم نہیں کر سکتی۔

ہمیں بھی اپنی ایک نظم کو مصرعہ یاد آ گیا
ہاتھوں کی لکیروں میں سمائی سسکیوں کا نام ہے جدائی

خوش رہئیے ہمیشہ اور لکھتے رہئیے۔
خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ
 

طالش طور

محفلین
جدائی کے درد کو سموئے خوبصورت الفاظ میں لکھی زبردست نظم ہے۔ بچھڑنا اور جدا ہونا ایک ایسا احساس ہے جس میں کچھ الفاظ کی کمزوری بھی دکھ درد کے الاؤ کی شدت کم نہیں کر سکتی۔

ہمیں بھی اپنی ایک نظم کو مصرعہ یاد آ گیا
ہاتھوں کی لکیروں میں سمائی سسکیوں کا نام ہے جدائی

خوش رہئیے ہمیشہ اور لکھتے رہئیے۔
خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ
نظم کی پرخلوص پزیرائی اور تہہ دل سے ادا کئے گئے دعائیہ کلمات کے لئے لفظ شکریہ تو بہت ادنٰی ہے تاہم بطورِ اسلوبِ اخلاق شکریہ تو بنتا ہے . آپ بھی خوش رہئیے
 

طالش طور

محفلین
یاسر علی تمہاری تجویز کردہ ترمیمات کی ضرورت نہیں، طالش کا اظہار درست صیغے کا ہے، اور جیسے تھک کی جگہ رو رو کا مشورہ ہے تو وہ صرف اپنا اپنا انداز بیان ہے، میں یہ سب قبول کر لیتا ہوں
نظم دو بار کاپی پیسٹ ہو گئی ہے، معاون کے تعاون میں تھوڑی کمی رہ گئی شاید!

مجھے یہ مصرع کچھ کمزور لگے
ہے تیرگی اک چہار جانب
اس کو تبدیل کر سکتے ہیں، جیسے
عجب سی اک تیرگی ہے جیسے چہار جانب

کہ رات کے آخری پہر میں
گھٹائیں ساری
برس برس کر ابھی تو خاموش ہو گئی ہیں
... گھٹائیں خاموش ہونا کچھ عجیب لگتا ہے

مگر اے جاناں
اے کا محض اِ رہ جانا درست نہیں
مگر مری جاں
کیا جا سکتا ہے
مری یہ آنکھیں تو جاگتی ہیں

نہ پوجھ تیری جدائی مجھ پر
عذاب برسائے کیسے کیسے
میں بےقراری کی آخری حد کو چھو کے کتنا تڑپ رہا ہوں
میں ضبط کی آخری حدوں سے نکل کے کتنا سلگ رہا ہوں
میں تیری چاہت بسا کے دل میں
تری جدائی میں جل رہا ہوں
اداس رفتار وقت کی ہے
عجب سی اک تیرگی ہے جیسے چہار جانب
کہ رات کے آخری پہر میں
گھٹائیں ساری
برس برس کر گرج گرج کر ابھی تو خاموش ہو گئی ہیں
مگر یہ آنکھیں جدائیوں میں تری مسلسل برس رہی ہیں
کہ رات کے آخری پہر میں
ہوائیں چل چل کے تھک گئی ہیں
ستارے تھک تھک کے سو گئے ہیں
مگر مری جاں!

مری یہ آنکھیں تو جاگتی ہیں
 
Top