مری فضاؤں سے وہ چاند کیا گیا۔اسلم کولسری

مری فضاؤں سے وہ چاند کیا گیا
زمین پہ آسمان ہی گرا گیا
عذاب ہو گیا تھا سکتۂ سخن
خوشی ہوئی، کہ وہ مجھے رُلا گیا
دلا! تری شگفتگی بھی خوب ہے
کہ سیلِ خوں مرے لبوں تک آ گیا
شعاعیں اس کے اختیار میں نہ تھیں
مگر وہ شخص آئینے بجھا گیا
وہیں وہیں پہ خدوخال رہ گئے
جہاں جہاں سے مُڑ کے دیکھتا گیا
تڑپ تڑپ گئی چمن کی چاندنی
جب اس کے رخ پہ زرد رنگ چھا گیا
دے گیا اُدھر پیام خامشی
اِدھر مری منڈیر سے دیا گیا
یہیں کہیں تھا اسلمؔ غزل بجاں
نہ جانے کونسی طرف چلا گیا

اسلم کولسری
 
Top