مریم نواز کی کیپٹن صفدر سے شادی کیسے ہوئی؟ اعزاز سید صافی و کالم نگار

ہر شاخ پے صالح ظفر بیٹھا ہے وغیرہ وغیرہ
Maryam-and-safdar-_Marriage.jpg

اسلام آباد : 6 اگست1990 کو عین اسی دن جس دن صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا پاکستان فوج کے111 بریگیڈ کے ایک نوجوان کپتان محمد صفدر کی عبوری وزیر اعظم جتوئی کےلیے بطور اے ڈی سی تعیناتی ہوئی ۔ اسی دن وہ صدارتی محل پہنچے جہاں بریگیڈیئر نثار نے ان کا استقبال کیا ۔ اسی روز حلف برداری کی روایتی تقریب کے بعد انہیں عبوری وزیر اعظم سے متعارف کرایا گیا ۔وزیر اعظم ہاؤس میں دیگر حکومتی ارکان کے ساتھ تعارف کے علاوہ وہ نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ کرنل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملے جنہوں نے بعد میں بغیر مارشل لاء لگائے پاکستانی فوج کی طویل ترین سربراہی کی ۔ ان دونوں کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کی جانب سے تعینات کیا گیا اور بعد ازاں یہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر اہم اور بااثر ثابت ہوئے ۔

کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ میرے استاد جیسے تھے ۔ میں نے بہت سی چیزیں انہیں سے سیکھیں ۔ ہم دونوں نے بہت اچھا وقت ایک ساتھ گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں نیو جتوئی میں تھے جہاں سے اس وقت نگران وزیراعظم مصطفیٰ جتوئی قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے تھے ۔کچھ عرصہ ایک ساتھ کام کرنے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل کیانی کو دوبارہ فوجی ذمہ داریاں دے دی گئیں تاہم کیپٹن صفدر نے وزیراعظم ہاؤس میں اے ڈی سی کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھیں ۔ تقریباََ 21 سالوں بعد ان کی دوبارہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی جہاں 5 جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے ۔

نوجوان کیپٹن صفدر 27 سال کے تھے ۔ وہ نہایت وجیہہ صورت تھے ۔ خصوصاََ جب وہ وردی میں ہوتے تو اطراف کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔کیپٹن صفدر اپنی یاداشتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں ۔

” میں جب بھی وردی میں اپنے آبائی شہر مانسہرہ جاتا تھا تو عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پہ چڑھ کر مجھے دیکھا کرتی تھیں ۔ ”:rollingonthefloor::rollingonthefloor:

وزیر اعظم ہاؤس میں فرائض کے آغاز پر کیپٹن صفدر کو علیحدہ رہائش گاہ دی گئی ۔ انہوں نے وزیر اعظم کے عملے سے ایک الماری کا تقاضا کیا جہاں وہ اپنی استری شدہ وردی کو ٹانک سکیں ۔ جلد ہی انہیں ایک تالہ لگی الماری دے دی گئی انہیں بتایا گیا کہ اس کا انتظام سندھ ہاؤس سے کیا گیا ہے جہاں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کےزیر استعمال تھی، جب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر تھیں ۔ جب نوجوان کیپٹن نے اس الماری کے تالے کو کھولا تو انہیں اس میں سفید سونے کے زیورات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی خاندانی تصاویر کے کچھ البم ملے ۔

کیپٹن صفدر نے فی الفور وزیر اعظم ہاؤس کے ملٹری آفیسر کو مطلع کیا اور یہ قیمتی زیورات اور تصاویر باضابطہ طریقہ کار سے ایک تحریر ی نوٹ کے ہمراہ واپس کردیں ۔ ملٹری آفیسر نے یہ معاملہ وزیر اعظم کےسامنے رکھا اور انہوں نے یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو صاحبہ تک پہنچانے کا فی الفور حکم دیا ۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور یہ تمام اشیاء بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں ،انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ تمام اشیاء فوج کے ایک نوجوان کپتان کو ملی تھیں ۔

کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ بے نظیر بہت خوش تھیں ۔ کچھ دن بعد اسی الماری کے دوسرے دراز سے ہیرے کی انگوٹھیاں ملیں ۔ صفدر نے دوبارہ وہی طریقہ کار اپنایا اور یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں ۔

یہ تمام خصوصیات وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداران کے علم میں تھیں کہ نوجوان کیپٹن نہ صرف پیشہ ور انہ صلاحیتوں کا حامل افسر ہے بلکہ ایمان دار اور اعلیٰ اقدار کا مالک انسان بھی ہے ۔ جلد ہی ان کے نگراں وزیر اعظم جتوئی سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے ۔ 24 اکتوبر 1990 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف نے بحیثیت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ۔

نئے وزیر اعظم اپنا عہدہ سنبھالنے والے تھے ۔ نوجوان کپتان نے فوج کے اہم پیشہ ورانہ تربیتی کورسسز پورے نہیں کیے تھے ۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ انہیں سول سروسز میں بھیج دیا جائے ۔ قانون کے مطابق وزیر اعظم جسے چاہے سول سروسز میں بھیج سکتا ہے تاہم فوج کے اس مقصد کے لیے اپنے قواعد و ضوابط ہیں ۔

نگران وزیر اعظم جتوئی نے چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ کو خط لکھا جس میں سفارش کی گئی کہ کیپٹن صفدر کو سول سروسز میں تعینا ت کیا جائے ۔ 6 نومبر 1990 کو جس روز میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا ، رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم جتوئی نے میاں نواز شریف کو کیپٹن صفدر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ۔

” کیپٹن صفدر صرف میرے اے ڈی سی ہی نہیں بلکہ خاندان کے ایک فرد اور ایک بیٹے کی طرح ہیں ۔ ”

تقریب حلف برداری کے بعد کیپٹن صفدر نے نئے وزیر اعظم سے اجازت مانگی کہ انہیں رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم کو خدا حافظ کہنے کے لیے کراچی جانے کی اجازت دی جائے ۔ نئے وزیر اعظم کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ جب دارلحکومت میں ہر کوئی نئے وزیر اعظم کی قربت چاہ رہا ہے، یہ کیپٹن سابقہ نگران وزیر اعظم کو عزت سے روانہ کرنا چاہ رہاہے ۔ کیپٹن صفدر نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا ۔

” میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب کو خدا حافظ کہا اور انہیں جہاز میں کراچی تک چھوڑنے گیا ۔ جتوئی صاحب اس غیر معمولی احترام پہ بہت خوش تھے۔”

واپس آکر کیپٹن صفدر نے اپنی ذمہ داریاں نئے ویر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی کی حیثیت سے نبھانا شروع کر دیں ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے کیپٹن صفدر خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی نظروں میں بھی آئے ۔ انہوں نے جلد ہی اس نوجوان اور وجیہہ صورت کپتان کو پسند کرنا شروع کردیا ،جو بہت تابعدار تھا اور اپنی دیانت اور اقدار کے سبب مقبول تھا ۔ ایک روز کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری سے یہ کہہ کر اپنے آبائی شہر مانسہرہ جانے کی چھٹی لی کہ ان کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ اسی روز جب وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو ان کے متعلق دریافت کیا ۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کے سبب چھٹی پر گئے ہیں ۔

کیپٹن صفدر پہلی بار دو نوں خاندانوں کی گفتگو کو یادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس روز گھر گیا ہوا تھا ۔ فون کی گھنٹی بجی ۔ میرے والد صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آپریٹر نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بات کریں گے ۔ انہوں نے میرے والد سے فون پہ گفتگو کی اور میری والدہ کی صحت کے متعلق بات چیت کی ۔ ہم سب بہت حیران تھے کہ وزیر اعظم اپنے عملے سے کس قدر باخبر ہیں ۔ اگلے روز بیگم کلثوم نواز نے فون کیااور میری والدہ سے ان کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ ہمیں ان دونوں کا رویہ بہت پسند آیا کیونکہ یہ ان دونوں کی بہت مہربانی تھی ۔

جون 1990 میں وزیر اعظم نواز شریف کا موٹر کیڈ اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور آج کل کے خیبر پختونخوا کے ضلع ناران کی وادی کاغان کی جانب رواں تھا ۔ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پہ وجیہہ صورت کیپٹن صفدر براجمان تھے ۔ اس روز گاڑی میں وزیر اعظم کے ہمراہ ان کی اہلیہ کلثوم نواز بھی موجود تھیں ۔ مانسہرہ سے گزرتے ہوئے اے ڈی سی وزیر اعظم اور خاتون اول کو علاقے کے متعلق آگاہ کررہے تھے کہ اچانک خاتون اول نے کہا ۔

” یہ وادی کس قدر خوبصورت ہے ۔”۔

”جی میڈم ۔ یہ وادی بہت خوبصورت ہے ۔ میرا بچپن اسی جگہ کھیل کود میں گزرا ہے ۔” کیپٹن صفدر نے بے تکلفی سے کہا ۔

” اوہ واقعی ، یہاں سے آپ کا گھر کتنا دور ہے؟” بیگم کلثوم نواز نے اشتیاق سے پوچھا۔

” میڈم ، یہاں سے بہت قریب ہی ہے ۔” کیپٹن صفدر نے جواب دیا ۔

” تو پھر چلیے۔ ہمیں اپنا گھر دکھائیے ۔” بیگم کلثوم نواز نے کہا اور وزیر اعظم نے بھی اپنی اہلیہ کی تجویز سے اتفاق کیا ۔

وزیر اعظم کا موٹر کاروان کیپٹن صفدر کے گھر کے قریب جا رکا۔ کیپٹن صفدر گاڑی سے نکل کر دوڑے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ سے پہلے ہی اپنے گھر پہنچ کر اپنے والدین کو اطلاع کریں کہ وی وی آئی پی مہمان آئے ہیں ۔ ان کی والدہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئی تھیں ۔ ان کے والد جو کہ مطالعہ کے شوقین اور اردو کے شاعر تھے ،وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے ۔

” ابا جان ، وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ آئے ہیں ۔ ” یونیفارم میں ملبوس کیپٹن صفدر نے دس مرلے کے مکان میں واقع مطالعے کے کمرے میں موجود اپنے باپ کو حیران کرتے ہوئے سرگوشی کی ۔

اسحاق مسرور ، جو کہ یوٹیلیٹی سٹور سے ریٹائرڈ ملازم تھے جلدی سے اپنے گھر سے باہر آئے ۔ جلدی میں وہ کتاب رکھنا بھی بھول گئے جسے وہ اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے ۔ ان کی ایک انگلی ان دوصفحوں کے درمیان ہی تھی جہاں وہ پڑھتے ہوئے رکے تھے ۔

کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو میاں صاحب اور ان کی اہلیہ سے تعارف کروایا ۔ ان کے والد نے دونوں میاں بیوی کا استقبال کیااور انہیں گھر لے جاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پہلے سے اطلاع کردیتے تو ان کے لئے باقاعدہ انتظامات کیے جاتے ۔

گھر میں داخل ہوکر بیگم کلثوم نواز نے جائزہ لیا ۔ مہمانوں کو برآمدے میں بٹھایا گیا ۔ مہمانوں نے کیپٹن صفدر سے ان کی والدہ کا پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گئی ہیں ۔

پنجرے میں بند ایک خوبصورت طوطے پر خاتون اول کی نگاہ گئی تو وہ اس کے پاس چلی گئیں ۔ کیپٹن صفدر نے بیگم کلثوم نواز کی دلچسپی کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ یہ طوطا ان کی والدہ کا پالتو ہے اور یہ باتیں بھی کرتا ہے ۔ ” میاں مٹھو ، یہ بی بی جی ہیں ۔ ” کیپٹن صفدر نے طوطے کو مخاطب کرکے کہا ۔

جی بی بی جی ۔ جی بی بی جی ۔

طوطا رٹالگانے لگا۔ بیگم کلثوم نواز حیران رہ گئیں ۔ وزیر اعظم بھی اپنے اے ڈی سی کے والد سے ملاقات پر خوش ہوئے ۔ کیپٹن صفدر اپنے والدین کے چار بیٹوں میں تیسرے نمبر پہ ہیں ۔ جبکہ ان کی کوئی بہن نہیں ہے ۔ اتفاق یہ کہ جب وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں آئے تو کوئی بھی بھائی گھر پہ نہیں تھا ۔

چونکہ ان کی والدہ بھی گھر پہ نہیں تھیں ،لہذا وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں دس سے پندرہ منٹ رکے اور پھر وادی کاغان کی طرف اپنے اے ڈی سی کے ہمراہ روانہ ہوگئے ۔ وادی کاغان پہنچے تو وہاں میاں شہباز شریف بھی اپنے پروگرام کے مطابق پہلے سے موجود تھے ۔ بیگم کلثوم نواز نے میاں شہباز شریف کو بتایا کہ وہ کیپٹن صفدر کے گھر رکے تھے ۔

وزیر اعظم کے ساتھ روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کیپٹن صفدر نے جولائی 1990 میں سول سروسز کے ٹریننگ پروگرام کا خط وصول کیا جس میں انہیں ضلعی انتظامیہ کے اٹھارہویں کامن کورس میں شرکت کا کہا گیا ۔

صفدر نے اپنے افسران بالا بشمول وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ اب یہاں سے روانہ ہوں گے اور سول سروسز میں شامل ہوں گے ۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرےساتھ یہیں ڈیوٹی کرو۔ صفدر ر ک گئے اور ایسے انتظامات کر لیے کہ وہ آئندہ سال یہ ٹریننگ مکمل کرسکیں ۔ ان کا فوجی کیریر ختم ہورہا تھا اور یہ وقت فوج سے سول ادارے میں منتقل ہونے کا وقت تھا ۔ تاہم وہ ابھی تک وزیر اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے کام کررہے تھے ۔

صفدر نے وزیر اعظم کے ساتھ ذمہ داری جاری رکھی ۔ وزیر اعظم کے چاروں بچوں بشمول سب سے بڑی بیٹی مریم اس جوان سال وجیہہ صورت کیپٹن کو وزیر اعظم ہاؤس میں دیکھتے تھے ۔ ایک سال گزر گیااور جواں سال کیپٹن کی سول سروسز ٹریننگ کا مرحلہ دوبارہ آن پہنچا تو اس نے ایک پھر وزیر اعظم کو اپنی روانگی کا بتایا ۔

وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی اہلیہ براستہ ٹرین لاہور سے اسلام آباد رواں دواں تھے ۔ کیپٹن صفدر اپنے ڈبے میں تھے جب عملے نے انہیں بتایا کہ انہیں وزیراعظم نے طلب کیا ہے ۔ وہ وزیر اعظم کے ڈبےمیں آتے ہیں ۔ اپنے ڈبے میں وزیراعظم اپنی اہلیہ کلثوم نواز اور بزرگ گھریلو خدمتگار صوفی بیگ کے ہمراہ ہیں۔

وزیر اعظم انہیں بیٹھ جانے کو کہتے ہیں ۔ صفدر بیٹھ جاتے ہیں تو کلثوم نواز انہیں میز پر رکھی ٹوکری سے پھل کھانے کا کہتی ہیں ۔ صفدر احترام سے نہ کرتے ہیں ۔

”کیا تم ہمیں چھوڑ رہے ہو ؟۔” نواز شریف پوچھتے ہیں ۔

”جی سر ۔ مجھے جانا ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے ۔ ” کیپٹن صفدر نرم روی سے جواب دیتے ہیں ۔

” تم اپنی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ جاتے ؟”۔ نواز شریف صفدر کو مشورہ دیتے ہیں ۔ جبکہ ریل گاڑی لاہور سے راولپنڈی کا سفر طے کررہی ہے ۔

” سر ۔ مجھے اپنے والد سے اجازت لینا ہوگی ۔”۔ کیپٹن صفدر آہستگی سے کہتے ہیں ۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد سے اجازت لے لیں اور پھر انہیں مطلع کریں ۔

کیپٹن صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم کے کیبن سے نکل رہے تھے تو ان کے پرانے خدمتگار تیزی سے ان کے پاس آئے اور کہا کہ مت جاؤ۔ ملک کا وزیر اعظم تمہیں روک رہا ہے ۔ تم مت جاؤ ۔

وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر کیپٹن صفدر اپنے والد کو فون کرتے ہیں اور وزیر اعظم کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اجازت مانگتے ہیں ۔

” ٹھیک ہے تم وہی کرو جو میاں نواز شریف کہتے ہیں ۔ ” ان کے والد اسحاق مسرور نے ان سے کہا ۔ کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا تو وہ مسکرانے لگے اور کہا کہ اپنے والد کا شکریہ ادا کریں ۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور خاص طور پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کیپٹن صفدر پہ بہت مہربان ہیں ۔

” مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ بیگم کلثوم نواز نے اسٹاف کے عملے سے قمر زمان کو مانسہرہ بھیجا تھا کہ وہ وہاں خاموشی سے پتہ کریں کہ میرا مزاج اور طور طریقہ اور ہمارے خاندان کا رہن سہن اور شہرت کیسی ہے ۔ اب کی بار وزیر اعظم کے روکنے پہ ایسا ہوا کہ ان کی زندگی کی ڈگر ہی بدل گئی۔” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ۔ 1992 کی گرمیوں میں کیپٹن صفدر اے ڈی سی وزیر اعظم اپنی ہفتہ وار چھٹی پہ گھر آئے ہوئے تھے ۔ ان کے والد66 سالہ اردو شاعر اسحاق مسرور جو کہ اپنی اہلیہ حاجرہ بی بی کے ہمراہ بیٹھے تھے نے اپنے بیٹے صفدر کو بلایا ۔

”صفدر ، میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا خاندان اپنی بیٹی کے لئے تمہارا رشتہ مانگ رہا ہے ۔” ۔ اسحاق مسرور نے صفدر سے کہا ۔

” میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے اباجی ۔ آپ نے ایسا یہاں تو کہہ دیا لیکن کہیں اور مت کہیئے گا میری نوکری چلی جائے گی ۔ ” کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو جواب دیا ۔

” میں نے اپنی عمر گزاری ہے اور میں تجربہ کار ہوں ۔ بیگم کلثوم نواز نے تمہاری والدہ حاجرہ بی بی کو فون کیا ہے اور تمہارا رشتہ مانگا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں آپ کا بیٹا چاہیے ۔” باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے ۔

اس موقع پر جواں سال کیپٹن صفدر 28 سال کے تھے جبکہ مریم نواز نے 23 اکتوبر 1991 کو اپنی اٹھارہویں سالگرہ منائی تھی ۔ دونوں کے مابین دس سال کا فرق تھا جو کہ قابل قبول تھا ۔ کیپٹن صفدر سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ وجیہہ صورت کیپٹن سے اپنی ٹین ایج میں ضرور متاثر ہوں گی ۔

اس کے بعد دونوں خاندانوں نے شادی کی تیاری شروع کردی اور مریم اور صفدر کی شادی 25 دسمبر 1992 کو نواز شریف کی 42 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھی گئی ۔ اتفاق ہے کہ سالوں بعد ان کی بڑی بیٹی مہرالنساء کی شادی کی تاریخ بھی یہی رکھی گئی جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم مودی بھی افغانستان کے دورے سے واپس آتے ہوئے شریک ہوئے تھے ۔

کیاآپ کو توقع تھی کہ آپ کی شادی مریم نواز سے ہوگی ؟۔ میں نے کیپٹن صفدر سے ایک سیدھا سوال پوچھا ۔

” نہیں بالکل نہیں ۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا ۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا ۔ کیا آپ شادی سے پہلے مریم سے ملے تھے ؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا ۔ ” وہ دونوں بہنیں مریم اور عاصمہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھومتی پھرتی تھیں ۔ میں نے انہیں دیکھا تھا ۔ لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا جیسا کہ بعض اپوزیشن کی جماعتوں نے مشہور کیا ۔ جولوگ فوج کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہماری تربیت کیسی ہوتی ہے ۔ ہم لوگ ایسی جرات نہیں کرسکتے کہ اپنے باس کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں اور پھر وزیر اعظم کا خاندان ؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔

کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد بیگم کلثوم نواز( جنہیں اب وہ امی جان کہتے ہیں) نے بتایا کہ مریم کے لیے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گھروں سے بہت سے امیدوار تھے لیکن ہمیں امیر خاندانوں کی تلاش نہیں تھی، ہمیں تو اچھے اور شریف لوگوں کی تلاش تھی سو ہم نے تمہیں منتخب کرلیا ۔

(جاری ہے)
 
کیپٹن صفدر کی مریم سے شادی اور مشرف کے خفیہ رابطے دوسرا حصہ
شادی کے بعد مریم نواز لاہور میں اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر مانسہرہ میں اپنے سسرال میں دس مرلے کے مکان میں منتقل ہوگئیں ۔ نئے نویلے جوڑے کے پاس سوزوکی کی 1000 سی سی کار تھی کیونکہ اس وقت کیپٹن صفدر کی یہی استطاعت تھی۔

مجھے اندازہ تھا کہ یہ سب اس کے لئے مشکل ہے مگر اس نے گزارا کیا ۔ کیپٹن صفدر بتاتے ہیں ۔

مریم نے مانسہرہ میں ہمارے دس مرلے کے مکان میں عام عورتوں کی طرح وقت گزارا. پاکستان میں روایتی طور پر ساس ہی خاندان کی نگران ہوتی ہے ۔ آپ کی والدہ اور بیوی کے تعلقات کیسے تھے ؟ میں نے سوال کیا ۔

”ان کے تعلقات بہت مثالی تھے ۔ مریم میری والدہ کے بالوں میں تیل لگاتی تھیں ۔ کنگھی کرتی تھیں ۔ باورچی خانے میں کام کاج کرتی تھیں ۔ وہ وہاں عام گھریلو خواتین کی طرح تھیں ۔ میری والدہ اور بیوی کے تعلقات بہت اچھے تھے ۔ ”انہوں نے دعویٰ کیا ۔

شادی کے بعد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے سول سروسز کے کورس مکمل کیے اور ان کی پہلی پوسٹنگ ضلع قصور میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ہوئی ۔ جب کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اپنی پوسٹنگ پہ پہنچے تو وہ افسر جو ان سے پہلے وہاں تعینات تھے انہوں نے درخواست کی کہ صفدر اپنی پوسٹنگ کہیں اور کروالیں کیونکہ ان کے بچے وہاں زیر تعلیم تھے اور ان کے امتحانات قریب تھے ۔ لہذا صفدر نے چونیاں میں جوکہ لاہور قصور روڈ پر لاہور سے 70 کلومیٹر دور ہے وہاں اپنی پوسٹنگ کروالی ۔

جب صفدر بطور اے سی اپنی نوکری ادا کررہے تھے تو میاں نواز شریف کی حکومت کو 18 جولائی 1993 میں برطرف کردیا گیا ۔ اس دوران صفدر کا تبادلہ ماڈ ل ٹاؤن ہوگیااور وہ میاں محمد شریف صاحب والد نواز شریف کے احکامات پر شریف خاندان کی رہائش گاہ میں رہنے لگے جنہیں وہ لوگ ابا جی کہتے تھے ۔

safdar-and-maryam-600x445.jpg
کیپٹن صفدر یاد کرتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہاں ان کے ساتھ رہوں ،میں تو ایک مکان کرائے پر لینا چاہتا تھا ۔ تاہم دادا جی کی خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ جاتی امرا میں رہوں ۔ لہذا میں اپنے والدین کی رضامندی سے وہاں رہنے لگا۔جب وہ ماڈل ٹاؤن میں تھے تو ان کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی ۔ انہیں اس کی تادیب میں او ایس ڈی لگایا گیا ۔ تاہم یہ جلد ہی ختم ہوگئی ۔

مجھ پر الزام تھا کہ میں نے صحافیوں سے لڑائی کی ہے ۔ جلد ہی یہ معاملہ ختم ہوگیا ۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی وفاقی حکومت کی میرے خلاف سازش تھی ۔ کیپٹن صفدر وضاحت کرتے ہیں ۔

17 فروری 1997 کے بعد جب نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر طاقتور ترین وزیر اعظم منتخب ہوئے تو صفدر کو ہدایات ملیں کہ وہ وزیر اعظم کے اسٹاف میں بطور پرسنل اسٹاف افسر شامل ہوں ۔

وزیر اعظم ہاؤس میں جیسا کہ صفدر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں تک محدود تھے اور انہوں نے کبھی اپنی حدود پار نہیں کیں ۔ بہت سے لوگوں نے ان کے قریب ہونا چاہا مگر انہوں نے اپنے آپ کو لوگوں سے دور رکھا ۔ ان سب لوگوں میں ایک کردار حمید اصغر قدوائی کا بھی تھا جو کہ مہران گیٹ سکینڈل کا اہم مہرہ ہیں، ان کے فوجی اسٹیبلیشمنٹ میں بھی کافی رابطے تھے ۔ اس دوران وہ وزیر اعظم ہاؤس میں بطور مہمان ٹھہرے ہوئے تھے ۔

”ایک روز مسٹر قدوائی نے کہا کہ لیفٹنٹ جنرل مشرف مجھے منگلا میں مچھلیاں پکڑنے اور چھٹی گزارنے کے لئے بلانا چاہتے ہیں ۔ وہ اس زمانے میں کور کمانڈر منگلا تھے ۔ ” صفدر یاد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں ۔

صفدر حیران تھے کہ کور کمانڈر منگلا انہیں کیوں بلانا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے انکار کردیا ۔ مگر مسٹر قدوائی نے اصرار جاری رکھا کہ وہ منگلا جائیں ۔

آپ نے جنرل مشرف سے ملنے سے انکار کیوں کیا ؟ میں نے پوچھا ۔

” یہ میرے اختیار میں نہیں تھا کہ میں ایسے لوگوں سے ملوں جن سے ملنا میری ذمہ داری نہیں ہے ۔ مجھے علم تھا کہ میری شخصیت بہت حساس اور غیر معمولی ہے ۔میں ایک خاموش مبصر تھا اور میرا کام نہیں تھا کہ لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی کروں۔” کیپٹن (ر) صفدر نے کہا ۔

جنرل جہانگیر کرامت کی سبکدوشی کے بعد جنرل مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا گیا تو ان دونوں کی ملاقات وزیر اعظم ہاؤس کی مسجد میں ہوئی ۔

” مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں وزیر اعظم ہاؤس میں جمعہ کی نماز ادا کرنے گیا تھا وہاں میں جنرل مشرف سے ملا۔ وہ بہت گرمجوشی سے ملے ۔ نہ انہوں نے ، نہ ہی میں نے اس دعوت کا ذکر کیا جو میں ٹھکرا چکا تھا ۔ ” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ۔

کیپٹن صفدر کی حیرانگی میں اضافی تب ہوا جب انہیں مسٹر قدوائی نے بتایا کہ جنر ل مشرف نے ان کی مسجد میں ملاقات کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس وقت مجھے ملنے نہیں آئے تھے جب میں نے ان کو منگلا آنے کی دعوت دی تھی ۔

اس واقعے سے اندازہ ہوتا تھا کہ جنرل مشرف کے ارادے کیا تھے اور ان کے مسٹر قدوائی سے گہرے تعلقات تھے جنہیں انہوں نے اکتوبر 99 کی فوجی بغاوت کےبعد کینیا میں ہائی کمشنر تعینات کیا تھا ۔

جنرل مشرف اور جنرل عزیز کی گفتگو ہندوستانیوں نے سن لی

اگرچہ کیپٹن صفدر وزیر اعظم ہاؤس میں اپنی ذمہ داریوں تک محدود تھے تاہم انہوں نے کارگل کرائسس کےدوران آنے والی فوجی بغاوت کی چاپ سن لی تھی ۔

” میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ جنرل مشرف اور جنرل عزیز کی گفتگو ہندوستانیوں نے سن لی اور اسے میڈیا پر نشر کر دیا۔ میرے لئے یہ ہضم کرنا بہت مشکل تھا کہ ہندوستانی ہمارے نظام میں اس حد تک سرایت کرچکے تھے ۔ مجھے یقین تھا کہ اب کچھ ہوکر رہے گا ۔ ”

کیپٹن صفدر یاد کرتے ہیں ۔

سول ملٹری تعلقات جولائی میں ہونے والے کارگل کے فوجی آپریشن کے دوران بدتر ہوچکے تھے ۔ تین ہی ماہ میں ملک میں فوجی راج نافذ ہوگیا ۔

capton-safdar.jpg

میں جب وردی پہن کر گاؤں جاتا تھا، عورتیں چھتوں پر چڑھ کر مجھے دیکھا کرتی تھیں ۔ کیپٹن صفدر

12 اکتوبر کے روز کیپٹن صفدر اپنے والدین سے ملنے مانسہرہ گئے ہوئے تھے ۔ انہیں کہا گیا کہ کوئی بیمار ہے اس کی مزاج پرسی کرنی ہے۔

”اس روز میں وزیر اعظم ہاؤس میں فون کررہا تھا مگر کوئی بھی فون نہیں سن رہا تھا ۔ ” کیپٹن صفدر اپنی یاداشت دہراتے ہیں ۔

وزیر اعظم ہاؤس میں رابطے نہ ہونے کی وجہ سے جواں سال کپتان نے جاتی امرا لاہور میں وزیر اعظم ہاؤس فون کیا ۔

”سر! فوج نے قبضہ کرلیا ہے ۔” جیسے ہی کیپٹن صفدر نے آپریٹر سے بات کی تو اس نے بتایا ۔ پھر آپریٹر نے ان کا رابطہ بیگم کلثوم نواز سے کروایا انہوں نے بھی ساری صورتحال بتائی ۔ مریم نواز بھی ان کے ساتھ ہی تھیں ۔

صفدر نے دونوں خواتین کو صبر کرنے کو کہا اور تسلی دی کہ وہ بھی جلد ہی لاہور پہنچ جائیں گے ۔

صفدر نے اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کو اسلام آباد میں فوجی بغاوت کے متعلق بتایا ۔ ان کے والد نے کہا کہ وہ بھی ان کے ہمراہ اسلام آباد جائیں گے ۔ دونوں باپ بیٹا اسی رات اسلام آباد روانہ ہوگئے اور صبح ہی سپریم کورٹ میں کیپٹن صفدر کے والد کی جانب سے فوجی ایکشن کے خلاف پٹیشن دائر کردی گئی ۔ اسحاق مسرور پیٹشنر نے فوجی اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے وکالت کے لئے راجہ اکرم ایڈوکیٹ کی خدمات لیں جو کہ سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ کے والد تھے ۔

” ہم نے راجہ صاحب کو وکیل کیا ۔ اگلے روز 13 اکتوبر کو جب ہم سپریم کورٹ پہنچے تو ہمارے وکیل وہاں نہیں پہنچے تھے ۔ ” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہیں ۔

صفدر بتاتے ہیں کہ پہلی پٹیشن ان کے والد اسحاق مسرور نے دائر کی ۔ سینیٹر ظفر علی شاہ نے بعدا زاں پٹیشن دائر کی تھی ۔

سپریم کورٹ میں اپنی پٹیشن سے مایوس ہوکر کیپٹن صفدر لاہور میں اپنے خاندان کے پاس وزیر اعظم کی رہائش گا ہ پہنچے جنہیں فوجی انتظامیہ کی جانب سے زبردستی نظر بند کیا گیا تھا ۔

جاتی امرا کے گھر پہنچنے پر صفدر کو بھی فوجی حکام کی جانب سے حراست میں لے لیا گیا اور انہیں شریف خاندان کے ماڈل ٹاؤن والے مکان میں نظر بند کر دیا گیا ۔

” مجھے پانچ ماہ کے لئے نظربند کیا گیا تھا ۔ میرے ساتھ حمزہ بھی تھے مگر ہمیں ایک ساتھ نہیں رکھا گیا تھا ۔ شام کو جب ہمیں چہل قدمی کے لئے لے جایا جاتا تو ہم ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرلیتے ۔ ” ۔ کیپٹن صفدر یاداشت دہراتے ہیں ۔

جب صفدر کے والد کو علم ہوا کہ ان کا بیٹا نظر بند ہے تو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں مارچ 2000 میں اس کے خلاف عرضی دائر کردی ۔ بعد ازاں فوجی انتظامیہ کی جانب سے صفدر کو رہا کردیا گیا ۔ انہیں نوکری میں پہلے ہی او ایس ڈی بنا دیا گیا ۔ ممکنہ طور پر وہ فوجی طیش کا سامنا کررہے تھے کہ وہ سبکدوش وزیر اعظم نوازشریف کے داماد تھے ۔

سبکدوش وزیر اعظم اٹک کے قلعے میں قید تھے جبکہ بیگم کلثوم نواز ان کی رہائی کے لئے سیاسی مہم چلا رہی تھیں ۔ صفدر تکنیکی طور پر بے عمل ہوکررہ گئے تھے کیونکہ وہ سرکاری ملازم تھے ۔

” ایک روز مجھے بتایا گیا کہ مجھے نواز شریف اور ان کے خاندان کے ہمراہ جدہ سعودی عرب جانا ہوگا ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جاؤں لیکن ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے مجھے بتایا کہ میرانام بھی شامل ہے ۔ مجھے جانا ہوگا ۔ ” کیپٹن صفدر بتاتے ہیں ۔

یا اللہ ! پاکستان کو غاصب فوجیوں سے پاک فرما

جب وہ سعودی عرب میں تھے تو صفدر بتاتے ہیں کہ وہ باقاعدگی سے مسجد الحرام جاتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے ۔ ایک روز جب وہ مسجد الحرام میں نماز ادا کررہے تھے تو انہوں نے جنرل عزیز کو دیکھا کہ وہ وہاں نماز ادا کررہے ہیں ۔ وہ اس وقت جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین تھے ۔ یہی وہ آدمی تھے جنہوں نے حقیقت میں فوجی بغاوت کے تانے بانے بنے تھے اور ان کے سسر کی حکومت ختم کی تھی ۔ انہی کی وجہ سے وہ جلاوطنی کاٹ رہے تھے ۔

” میں نے انہیں دیکھا اور اپنے ہاتھ ہوا میں بلند کرکے اونچی اونچی دعا مانگنے لگا ۔ یا اللہ ! پاکستان کو غاصب فوجیوں سے پاک فرما ۔ جیسے جنرل عزیز نے یہ سنا انہوں نے اپنی جگہ بدل لی ۔ صفدر نے مسکراتے ہوئے مجھے بتایا ۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کی دعا کے بعد جنرل عزیز کے تعلقات جنرل مشرف کے ساتھ خراب ہوگئے اور انہیں ریٹائرڈ کردیا گیا ۔

” کیا جنرل عزیز نے آپ کو پہچانا ؟ نہیں ، وہ مجھے نہیں جانتے تھے ۔ صفدر نے میرے مختصر سوال کا چھ لفظوں میں جواب دیا ۔ اس سے پہلے اس طرح کی ایک حرکت وہ جنرل محمود کے ساتھ بھی کر چکے تھے جو کہ فوجی بغاوت کا ایک اور اہم مہرہ تھے ۔ مسجد الحرام میں جب جنرل محمود اپنے محافظوں کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے کے لئے موجود تھے تو صفدر نے انہیں وہاں دیکھ لیا ۔ انہیں دیکھ کر بھی انہوں نے اونچی آواز میں اپنے ملک کی حفاظت کے کے لئے دعا مانگنی شروع کردی ۔

” میں نے ایسا کیا ضرور تاہم مجھے لگتا ہے کہ جنرل محمود نے وہ نہیں سنا کیونکہ وہ اپنے محافظین کے ہمراہ تھے ۔ لیکن میری دعاؤں کے سبب انہیں جلد ہی ڈی جی آئی ایس آئی کی پوزیشن سے ہٹا کر گھر بھیج دیا گیا ۔ ”

ازحد مذہبی مزاج صفدر کو اپنی دعا پہ بھروسہ تھا ۔

آپ اس قدر مذہبی بنیاد پرست کیوں ہے کیونکہ آپ ایک مذہبی اقلیت کے خلاف بہت کچھ کہتے ہیں ؟ میں نے پوچھا۔

” میں بچپن سے ہی مذہبی ہوں کیونکہ میری پرورش ایک کٹر بریلوی خاندان میں ہوئی ہے ۔ صفدر بتاتے ہیں ۔

صفدر کے والد کے علاوہ ان کی والدہ حاجرہ بی بی بھی بہت مذہبی خاتون تھیں ۔ ایک بار ان کے بچپنے میں وہ سب بچوں کو تاج محل سینما لے کر گئیں جہاں انہوں نے خانہ خدا نامی فلم دیکھی ۔ اس فلم میں مکہ اور مسجد الحرام دکھائی گئی تھی ۔

” صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فلم کے دوران جب مسجد الحرام کا منظر آیا تو میری والدہ نے اسی وقت دعا کے ہاتھ بلند کئے اور دعا مانگی کہ وہ مسجد الحرام دیکھیں ۔ ”

جب ہم وہاں جلاوطنی گزار رہے تھے تو میرے والدین سات سالوں میں چھ بار حج کے لئے آئے ۔

صفدر صوفی اسلام کے ماننے والے ہیں ۔ وہ ممتاز قادری کا بھی احترام کرتے ہیں جنہوں نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا ۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو شریف خاندان میں سے کوئی منع نہیں کرتا کیونکہ آپ اپنے متنازعہ بیانات اور مذہبی نظریات کے سبب اکثر اوقات ان کے لئے مشکل صورتحال پیدا کردیتے ہیں ۔ کیا آپ کے سسر نواز شریف یا اہلیہ مریم نے آپ کو کبھی روکا نہیں ؟

” جہاں تک مذہب کا سوال ہے تو میں بالکل صاف گوئی سے کہوں گا ۔ میں نے کسی بھی شخص کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ میرے مذہبی خیالات پر نکتہ چیں ہو اور مجھے کوئی نصیحت کرے۔” صفدر مضبوط لہجے میں بیان کرتے ہوئے ایسے کسی بھی واقعے کو بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں جس میں ان کے خاندان کے مابین ان کے متنازعہ بیانات پر کبھی کوئی بحث مباحثہ ہوا ہو۔

جب صفدر جلاوطنی کاٹ رہے تھے تو ان کے والد کو اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ایک خط موصول ہوا کہ زیادہ چھٹیوں کی بناء پر صفدر کو نوکری سے برطرف کیا جاتا ہے ۔ ان کی نوکری اسی صورت باقی رہ سکتی ہے کہ اگر وہ چیف ایگزیکٹو اور صدر پاکستان پرویز مشرف سے تحریری درخواست میں استدعا کریں ۔

” میرے والد نے اس خط کا جواب خود ہی تحریر کردیا کہ میرا بیٹا کسی بھی غیر آئینی چیف ایگزیکٹو یا صدر سے نوکری کی درخواست نہیں کرے گا ۔ ” کیپٹن صفدر نے اپنے والد کی بات کو دہراتے ہوئے کہا ۔

یوسف رضا گیلانی نے میری ملازمت سے برطرفی کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ میں تبدیل کیا

اس خط کے بعد صفدر کو نوکری سے برخاست کردیا گیا۔ اوہ تو آپ کو برخاست کردیا گیا تھا۔ کیا آپ کو آپ کی نوکری واپس ملی؟ میں نے سوال پوچھا ۔

”نہیں مجھے میری نوکری واپس نہیں ملی ۔ تاہم جب ہم واپس پاکستان آئے تو میں نے وزیر اعظم یوسف گیلانی کو خط لکھا ۔ انہوں نے میری برخاستگی کو قبل از وقت ریٹائر منٹ میں بدل دیا۔ میں ان کا مشکور ہوں ۔” صفدر نے احسان مندی سے کہا ۔

کیا گیلانی کی برخاستگی کی حمایت کرنا نواز لیگ کی غلطی تھی ۔ میں نے پوچھا ۔ ہاں ! میرے نزدیک انہیں برخاست کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ میں نے اس وقت بھی یہی موقف اپنایا تھا اگرچہ میری جماعت نےاس وقت سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی تھی ۔ صفدر نے جواب دیا ۔

یہ لوگ کب تک آپ کو اور مجھے یوں برخاست کرتے رہیں گے ؟

بے نظیر کا نوازشریف سے سوال

صفدر کو سعودی عرب میں رہائش کے دوران ایک اور واقعہ بھی یاد آتا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اپنے خاوند آصف زرداری کے ہمراہ سرور پیلس تشریف لائی تھیں ۔

”میں وہاں موجود نہیں تھا ۔ میں نے کھانے پہ شمولیت کی تو میں نے سنا ۔ بے نظیر میاں نواز شریف سے کہہ رہی تھیں کہ یہ لوگ کب تک آپ کو اور مجھے یوں برخاست کرتے رہیں گے ؟”

”مجھے لگا کہ دونوں سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت ہوچکی ہے ۔ ” صفدر نے بے نظیر کی اچھے لفظوں میں تعریف کی ۔

2006 میں نواز شریف کو برطانیہ جانے کی اجازت ملی اور وہ وہاں چلے گئے ۔ صفدر اور ان کی اہلیہ مریم نے بھی برطانوی ویزے کی درخواست دی تاہم انہیں ویزے سے انکار کیا گیا ۔ وہ سعودی عرب میں ہی رہے ۔ برطانیہ میں بے نظیر اور دیگر جماعتوں کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد 10 ستمبر کو میاں نواز شریف نے پاکستان آنے کی کوشش کی جسے اس وقت کے فوجی حکمران مشرف نے ناکام بنا دیا۔

Maryam-and-safdar-Marriage-600x338.jpg
نواز شریف سعودیہ چلے گئے اور 25 نومبر 2007 کو دوبارہ پاکستان آنے کی کوشش کی ۔ اب کی بار مریم ، صفدر اور دیگر بچے بھی میاں نواز شریف کے ہمراہ اپنے آبائی وطن واپس آ رہے تھے ۔

سیاست میں شمولیت کے مرحلے پہ گفتگو ابھی باقی ہے
 

یاز

محفلین
پاکستان میں روایتی طور پر ساس ہی خاندان کی نگران ہوتی ہے ۔ آپ کی والدہ اور بیوی کے تعلقات کیسے تھے ؟ میں نے سوال کیا ۔

”ان کے تعلقات بہت مثالی تھے ۔ مریم میری والدہ کے بالوں میں تیل لگاتی تھیں ۔ کنگھی کرتی تھیں ۔ باورچی خانے میں کام کاج کرتی تھیں ۔ وہ وہاں عام گھریلو خواتین کی طرح تھیں ۔ میری والدہ اور بیوی کے تعلقات بہت اچھے تھے ۔ ”انہوں نے دعویٰ کیا ۔
یہ تو کمال ترین ہے جی۔
 

شاہد شاہ

محفلین
۲۰۰۶ وہی بابرکت سال جب شریف فیملی نے ۱۹۹۳ میں خریدے گئے بے نامی فلیٹس مریم نواز (جسکی برطانیہ تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہے) کے نام منتقل کئے۔ اور یوں کیپٹن صفدر کو اپنی سالہا سال کی گھر دامادی کا اجر مل گیا۔
اب یہ ۲۰۱۸ میں انہی بدنام زمانہ پانامائی فلیٹس کی پیشیاں بھگتتے پائے جاتے ہیں
2006 میں نواز شریف کو برطانیہ جانے کی اجازت ملی اور وہ وہاں چلے گئے ۔
 
Top