مروجہ جہیز کی برائیاں

زلفی شاہ

لائبریرین
جہیز دینا بری بات نہیں ، جہیز کا مطالبہ البتہ ایک گھٹیا بات ہے۔۔۔۔اگر کوئی افورڈ کرسکتا ہے تو وہ یقیناّ یہ چاہے گا کہ جو بیٹی یا بہن اسکی آنکھوں کا تارا تھی، اسکو رخصت کرتے وقت جو بحی ہوسکے اس پر نچحاور کردے۔۔۔اور اس میں کوئی برائی نہیں۔۔البتہ اعتدال شرط ہے۔
میرے بھائی جہیز دینا بری بات نہیں یہ آپ کی ذاتی رائے ہے اگر آپ اس پر دلائل پیش کرتے تو خوشی ہوتی۔ شائد آپ نے میری اوپر والی پوسٹس کا مطالعہ نہیں فرمایا ۔ میں نے قرآن پاک ، عمل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فقہ سے یہ بات ثابت کی ہے کہ نکاح کے سلسلہ میں تمام اخراجات کا ذمہ دار مرد ہے نا کہ عورت۔
جہیز کی رسم ہندوؤں سے مسلمانوں میں آئی ہے۔ ہندو جو کہ لڑکی کو وراثت میں حصہ دار نہیں مانتے ۔ وہ شادی کے موقع پر اپنی بیٹیوں کوکنیا دان کے نام پرجو کچھ ان سے بن پڑتا دے دیتے جسے جہیز کا نام دیا جاتا۔ مروجہ جہیز بیٹی کے پیار میں نہیں دیا جارہا بلکہ جیسا کہ ام نورالعین صاحبہ نے اوپر ذکر فرمایا ہے اور مشاہدات بھی یہی کہتے ہیں کہ جہیز محض دکھاوے کے لئے دیا جاتا ہے۔ جہیز کی نمائش اس بات بر بین دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ریاکاری (دکھلاوا) شرک خفی ہے اور قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔ ’’ان الشرک لظلم عظیم‘‘ بے شک شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔
قرآن پاک میں وراثت کے متعلق ہے ’’یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثین‘‘ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں ،بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔
جہیز دیتے وقت ہمیں بیٹی سے پیار ہوتا ہے لیکن جب وراثت کی تقسیم کا وقت آتا ہے اس وقت ہمارا پیار کہاں جاتا ہے۔ حالانکہ جہیز ہندوانہ رسم ہے اور وراثت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ہم محض لوگوں کے دکھلاوے اور برادری میں واہ واہ کی خاطر لاکھوں کا جہیز دے دیتے ہیں لیکن قرآنی حکم کی قطعا پرواہ نہیں کرتے اور عورت کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں رواج ہے بہن بھائیوں کے حق میں حق وراثت سے خود یا بعض اوقات بزور قوت دستبردار ہو جاتی ہے جو کہ شریعت کا کھلم کھلا مذاق ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مرضی سے بھی ایسا کرنے کی مجازنہیں جب تک جائیداد اس کے نام نہیں کر دی جاتی۔ جب تک وہ مالک ہی نہیں اس کو آگے دینے کا اختیار کہاں؟ مالک ہونے کے لئے ایک دفعہ سامان کا قبضے میں آنا ضروری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں رواج ہے بہن بھائیوں کے حق میں حق وراثت سے خود یا بعض اوقات بزور قوت دستبردار ہو جاتی ہے جو کہ شریعت کا کھلم کھلا مذاق ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مرضی سے بھی ایسا کرنے کی مجازنہیں جب تک جائیداد اس کے نام نہیں کر دی جاتی۔ جب تک وہ مالک ہی نہیں اس کو آگے دینے کا اختیار کہاں؟ مالک ہونے کے لئے ایک دفعہ سامان کا قبضے میں آنا ضروری ہے۔

یہ کام پنجاب کے علاقوں میں ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے سبھی علاقوں میں ہے اور سندھ اور بلوچستان میں زیادہ ہے۔
 
زلفی صاحب میرا خیال یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ اور اسکے رسول نے حرام نہیں قرار دیا، وہ حرام نہیں ہے۔۔۔اور جسکو انہوں نے فرض یا واجب قرار نہیں دیا، وہ بھی فرض اور واجب نہیں ہے۔۔۔جہیز کو انہوں نے حرام قرار نہیں دیا۔۔۔چنانچہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو محض اپنی خوشی سے کچھ دے دیتا ہے تو جائز ہے۔۔۔اور چونکہ کسی ایسی شرعی دلیل سے یہ بھی نہیں ثابت کیا جاسکتا کہ جہیز دینا ضروری ہے، چنانچہ یہ ضروری نہیں۔۔مباح کے درجے میں آجاتا ہے۔باقی بحث کو جتنا مرضی لمبا کرتے جائیں میرا ننقطہ نظر تو یہی ہے جو عرض کردیا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین اپنی سہولت کے ساتھ شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بات ہو رہی ہے مروجہ جہیز کی جس میں کہیں تو لڑکے والے تقاضا کر کے جہیز لیتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز لازمی ہو اور کہیں والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے قرضہ لیکر اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں اور ساری عمر سود ہی ادا کرتے رہتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
ماشاءاللہ ! بہت ہی اچھے جذبات ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمان نوجوانوں کو ایسی ہی پاکیزہ سوچ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔ اللہ تعالی نےمردوں کو عورتوں پر افسر بنایا ہے ۔ مردوں کی اکثریت اس بات پر شاکر بھی نظر آتی ہے لیکن کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ افسری کس وجہ سے عطا کی گئی ہے ۔قرآن میں ارشاد رب القدوس ہے۔ ’’مرد عورتوں پر افسر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان (مردوں) کوفصیلت دی کیونکہ وہ ان (عورتوں) پرا پنے مال خرچ کرتے ہیں۔ مردوں کو عورتوں پر فضیلت کی یہاں جو وجہ قرار دی جارہی ہے وہ مردوں کا مال خرچ کرنا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ ہم مرد کتنے خود غرض ہیں کہ شادی کے موقع پر مطالبات پیش کرکے لڑکی سے جہیز کی صورت میں خرچ کرواتے ہیں اور جب کبھی موقع ہاتھ آئے تو اپنی افسر شاہی کی دھونس جماتے ہیں۔ ہے نہ دوہرا معیار۔

جہیز کس قسم چیز ہے ۔ اس پر اب عقلی اور منطقی بحث کیا جائے کہ جب یہ بات واضع ہے کہ اس کی نہ کوئی شرعی حیثیت ہے اور نہ ہی یہ کسی اعلی اقدار کا نمونہ ہے ۔ یہ بہودہ رسم امیروں کو اپنی شان و شوکت دکھانے کے کا ایک ذریعہ بنتی ہے ۔ اور غریبوں کے لیئے باعث ِ مشقت ۔ مگر میں نے یہاں زلفی صاحب کی جن باتوں کو نشان زد کیا ہے ۔ دراصل وہ ان آیات کی بلکل غلط interpretation ہے ۔ جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضلیت حاصل ہے ۔ یہ استدلال خود زلفی صاحب کے مراسلے میں عیاں بھی ہے ۔ اگر پوری سورہ کے سیاق و سباق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بلکل واضع ہے کہ یہاں اللہ تعالی ٰ عورت اور مرد کے تعلق سے نہیں بلکہ میاں اور بیوی کے رشتے کے حوالے سے بات کررہے ہیں ۔ قرآن خود کہتا ہے کہ مرد و عورت کو ایک ہی جنس سے پیدا کیا گیا ۔ لہذا یہاں عورت و مرد میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے ۔ بلکہ جہاں جب ایک مرد اور عورت میاں بیوی بنتے ہیں تو وہاں مرد اور عورت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ان کے درمیان ایک درجہ کا فرق صرف اس بنیاد پر رکھا گیا ہے کہ مرد کو اس رشتے میں کچھ زائد ذمہ داریاں دیدیں گئیں ہیں ۔ اس پر ماضی میں حاصلِ سیر گفتگو کی جاچکی ہے ۔ ایک آخری بات کہوں گا کہ اگر مرد کو عورت پر فضلیت ہوتی تو ایک ماں ( جو کہ ایک عورت ہوتی ہے ) کو اپنے بیٹے پر تین درجے فضلیت نہیں ہوتی ۔ یہ سب حفظِ مراتب کے معیار ہیں اور اللہ نے ان معیار کے مطابق عورت اور مرد کے درمیان مختلف رشتوں میں حفظِ مراتب کے اصول کے طور پر رشتوں کے درمیان ایک تقدس پیدا کیا ہے ۔ جو اپنے رشتے کے تعلق کے حوالے سے کہیں مرد کو فضلیت دیتا ہے اور کہیں عورت کو ۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
جہیز کس قسم چیز ہے ۔ اس پر اب عقلی اور منطقی بحث کیا جائے کہ جب یہ بات واضع ہے کہ اس کی نہ کوئی شرعی حیثیت ہے اور نہ ہی یہ کسی اعلی اقدار کا نمونہ ہے ۔ یہ بہودہ رسم امیروں کو اپنی شان و شوکت دکھانے کے کا ایک ذریعہ بنتی ہے ۔ اور غریبوں کے لیئے باعث ِ مشقت ۔ مگر میں نے یہاں زلفی صاحب کی جن باتوں کو نشان زد کیا ہے ۔ دراصل وہ ان آیات کی بلکل غلط interpretation ہے ۔ جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضلیت حاصل ہے ۔ یہ استدلال خود زلفی صاحب کے مراسلے میں عیاں بھی ہے ۔ اگر پوری سورہ کے سیاق و سباق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بلکل واضع ہے کہ یہاں اللہ تعالی ٰ عورت اور مرد کے تعلق سے نہیں بلکہ میاں اور بیوی کے رشتے کے حوالے سے بات کررہے ہیں ۔ قرآن خود کہتا ہے کہ مرد و عورت کو ایک ہی جنس سے پیدا کیا گیا ۔ لہذا یہاں عورت و مرد میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے ۔ بلکہ جہاں جب ایک مرد اور عورت میاں بیوی بنتے ہیں تو وہاں مرد اور عورت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ان کے درمیان ایک درجہ کا فرق صرف اس بنیاد پر رکھا گیا ہے کہ مرد کو اس رشتے میں کچھ زائد ذمہ داریاں دیدیں گئیں ہیں ۔ اس پر ماضی میں حاصلِ سیر گفتگو کی جاچکی ہے ۔ ایک آخری بات کہوں گا کہ اگر مرد کو عورت پر فضلیت ہوتی تو ایک ماں ( جو کہ ایک عورت ہوتی ہے ) کو اپنے بیٹے پر تین درجے فضلیت نہیں ہوتی ۔ یہ سب حفظِ مراتب کے معیار ہیں اور اللہ نے ان معیار کے مطابق عورت اور مرد کے درمیان مختلف رشتوں میں حفظِ مراتب کے اصول کے طور پر رشتوں کے درمیان ایک تقدس پیدا کیا ہے ۔ جو اپنے رشتے کے تعلق کے حوالے سے کہیں مرد کو فضلیت دیتا ہے اور کہیں عورت کو ۔
ماشاء اللہ آپ کا انداز تحریر اچھا ہے لیکن قرآن و حدیث کے مقابلے میں ذاتی رائے، منطق اور ذاتی استدلال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ قرآن پاک کا تھوڑا سا علم رکھنے والا مسلمان بھی جانتا ہے کہ قرآن پاک کی ایک ایک سورۃ میں بیسیوں مسائل بیان ہوتے ہیں اس لئے سورۃ کا سیاق وسباق نہیں دیکھا جاتا ۔ آیت کا سیاق و سباق دیکھ کر مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مرد اور عورت میں فضیلت کا استدلال قرآن و حدیث سے اخذ کریں گے نا کہ ذاتی رائے سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے۔ کیا اس حدیث مبارکہ کے بعد کوئی مسلمان خاوند کی فضیلت سے انکار کرنے کی جرات کر سکے گا؟یہاں عورت اور مرد کی فضیلت پر بات نہیں ہورہی یہاں تذکرہ خاوند اور بیوی کا ہو رہا ہے اور یقینا اسلام میں خاوند کو فضیلت حاصل ہے بیوی پر۔ یہ نہیں کہ مرد کوصرف ذمہ داریاں زیادہ سونپی گئیں ہیں۔ اس دھاگے کا عنوان ہے مروجہ جہیز کی برائیاں، میرا موقف یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے جہیزکی ذمہ داری مرد پر ہے نہ کہ عورت پر ۔ جس کے لئے میں نے قرآن و حدیث اور فقہ حنفی سے دلائل پیش کئے ہیں۔ اگر اس موضوع پر دلائل دیئے جائیں تو موضوع سے مطابقت قائم رہ سکے گی۔
 

ظفری

لائبریرین
ماشاء اللہ آپ کا انداز تحریر اچھا ہے لیکن قرآن و حدیث کے مقابلے میں ذاتی رائے، منطق اور ذاتی استدلال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ قرآن پاک کا تھوڑا سا علم رکھنے والا مسلمان بھی جانتا ہے کہ قرآن پاک کی ایک ایک سورۃ میں بیسیوں مسائل بیان ہوتے ہیں اس لئے سورۃ کا سیاق وسباق نہیں دیکھا جاتا ۔ آیت کا سیاق و سباق دیکھ کر مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مرد اور عورت میں فضیلت کا استدلال قرآن و حدیث سے اخذ کریں گے نا کہ ذاتی رائے سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے۔ کیا اس حدیث مبارکہ کے بعد کوئی مسلمان خاوند کی فضیلت سے انکار کرنے کی جرات کر سکے گا؟یہاں عورت اور مرد کی فضیلت پر بات نہیں ہورہی یہاں تذکرہ خاوند اور بیوی کا ہو رہا ہے اور یقینا اسلام میں خاوند کو فضیلت حاصل ہے بیوی پر۔ یہ نہیں کہ مرد کوصرف ذمہ داریاں زیادہ سونپی گئیں ہیں۔ اس دھاگے کا عنوان ہے مروجہ جہیز کی برائیاں، میرا موقف یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے جہیزکی ذمہ داری مرد پر ہے نہ کہ عورت پر ۔ جس کے لئے میں نے قرآن و حدیث اور فقہ حنفی سے دلائل پیش کئے ہیں۔ اگر اس موضوع پر دلائل دیئے جائیں تو موضوع سے مطابقت قائم رہ سکے گی۔

آپ نے اپنی اس تحریر میں ایسی باتیں کردیں ہیں کہ انتہائی مصروفیت کے باوجود آپ کے استدلال کا کم زکم مختصراً جواب دینا میں لازمی سمجھتا ہوں ۔ آپ کے استدلال کے جواب میں اپنی بات مختصر اس لیئے کر رہا ہوں کہ یہ دھاگہ اس بحث کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ جو نکتہ آپ نے اٹھایا ہے وہ دھاگے کے موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ اگر اس پر آپ کو "علمی بحث " مقصود ہے تو اس کے لیئے آپ ایک نیا دھاگہ تخلیق کرسکتے ہیں ۔

قرآن مجید دنیا کی واحد کتاب ہے،جس کے بارے میں عموماً تاثر یہ ہے کہ کہ اس کا ہر جملہ ایک سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔ اوریہ چیز اس کے معجزانہ پہلو کی حیثیت سے بیان کی جاتی ہے، بہ نظر تامل اگر دیکھا جائے تو اسے خوبی قرار نہیں دیا جا سکتا۔قرآن مجید ہی نہیں بلکہ آپ کسی بھی کتاب کا جملہ سیاق و سباق سے کاٹ دیں تو اس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے۔چنانچہ وہ لوگ جو اپنی مرضی کے معنی قرآن مجید سے اخذ کرنا چاہتے ہیں،انھیں کلام الٰہی سے منسوب،یہ معجزبیانی بڑا سہارا دیتی ہے ۔ اوراسی بنیاد پر کسی کے لیئے اپنی رائے کے مطابق کسی بھی آیات سے خود ساختہ معنی نکالنا اس کے لیے مشکل نہیں رہتا۔ لیکن یہ کسی بھی طور ایسی کتاب کی خصوصیت نہیں ہو سکتی جو ایک واضح پیغام، متعین شریعت اور اعلیٰ حقائق کی حامل ہو اور خصوصاً اس کے مخاطب وہ عرب ہوں جو سادہ اور واضح اسلوب نگارش پسند کرتے اور ایسا ادب تخلیق کرتے ہوں جو فطرت کے بالکل قریب ہو اور جس میں مصنوعی خیال ، استعارے اور محض لفاظی کو کوئی دخل حاصل نہ ہو ۔ قرآن مجید کی ہر آیت ایک واضح اور متعین پیغام کی حامل ہے۔چنانچہ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے۔پوری سورہ کا مضمون، اس باب کا مرکزی خیال،جس میں یہ سورہ رکھی گئی ہے اور زیر بحث آیت کی سابق ولاحق آیات جب تک ایک مفہوم کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو جائیں، کسی مفہوم کو قرآن مجید کا مفہوم قرار نہیں دیا جا سکتا۔اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص جو قرآن کے دائرے میں نہ رہنا چاہتا ہو،اس کے لیے دو راستے ہیں۔ایک راستہ یہ ہے کہ وہ زبان کے قواعد و ضوابط کی شکل بگاڑ کر ان سے چھٹکارا حاصل کر لے اور دوسرا راستہ یہ کہ قواعد و ضوابط کی پابندیوں ہی کو ماننے سے انکار کر دے۔یہ دونوں طریقےکسی بھی طور پر جائز قرار نہیں دیئے جاسکتے ۔ چنانچہ قرآن مجید کی اہمیت اور مقام کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تفسیر ان اصولوں کے مطابق کی جائے جو ابتدائی زمانے ہی سے اہل حق نے طے کر دیے ہیں۔
لہذا ٰ یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید کے معنی طے کرتے ہوئے،ایک ہی تاویل ،ایک ہی مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی آیت ظاہر الفاظ میں ایک سے زائد معنی کا احتمال رکھتی ہو تو نظم کلام، سیاق وسباق اور نظائر کلام کی روشنی میں،اس کا مفہوم ٹھیک ٹھیک متعین ہوجائے گا ۔ الفاظ کے تمام احتمال بیان کر دینا قرآن مجید کی کوئی خدمت نہیں ہے اور اس طرح ایک واضح کتاب ہونے کی نفی ہوتی ہے ۔
اور آپ نے عورت اور مرد کے درمیان فضلیت کے ذاتی استدلال کا جو نکتہ ، قرآن و حدیث کے حوالے سے پیش کیا ہے ۔ وہ اتنا غیر منطقی ہے کہ فی الوقت مجھےاس کا کوئی منطقی جواب نہیں سوجھ رہا ہے ۔ ( اس کے لیئے میں معذرت خواہ ہوں ) ۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
ظفری بھائی شائد میں اپنی بات آپ کو صحیح طور پر سمجھا نہیں پا رہا۔ میں بار بار یہی کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ قرآن کے مقابلے میں منطق نہیں چل سکتی۔آپ نے اپنے سارے کمنٹس میں منطق کے زور پر اپنا نقطہ نگاہ بیان کیا ہے۔ اگر آپ یہ باتیں قرآن وحدیث سے با حوالہ اخذ کرتے تو ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوتا اور ہمیں خوشی ہوتی۔
 

عثمان

محفلین
بھئی جب آپ منطق اور دلیل کے قائل ہی نہیں تو تکرار کے کیا معنی ؟ حدیث ، آیت قوٹ کیجیے اور باقی گفتگو پر مٹی ڈال کر چلتے بنیں۔ :)
 
زلفی صاحب، معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ آپکی اپنی تحریر میں جابجا تعارض ہے۔ایک لائن میں آپ بڑے اعتماد سے دعویّ کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں اور فقہ کی کتابوں میں کہیں جہیز کا ذکر ہی نہیں ہے اور اس سے اگلی سطر میں آپ فرماتے ہیں کہ جہیز دینا خاوند کی ذمہ داری ہے۔۔۔بھی جب اسکا ذکر ہی نہیں ہے اور یہ ہندوانہ رسم ہے تو پھر حکم کیسے صادر فرمادیا آپ نے کہ اگرچہ اسکا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے اور کتب فقہ بھی اس بحث سے عاری ہیں اور یہ ہے بھی ہندووں کی رسم، لیکن اسکے باوجود یہ جہیز دینا خاوند کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
بات اصل میں یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں جہیز کے دو تین معنی ہیں۔۔۔جب آپ قرآن و حدیث اور فقہ سے اسکی نفی کرتے ہیں تو اس وقت آپ کے ذہن میں جہیز سے مراد وہی ہندوانہ رسم ہے جس میں اسکا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔۔۔آپکی اس بات سے یہاں کسی کو بھی اختلاف نہیں
لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ جہیز دینا دراصل خاوند کی ذمہ داری ہے تو اس وقت آپکے ذہن میں جہیز سے مراد وہ ہندوانہ رسم نہیں جس کا ذکر قرآن و حدیث و فقہ میں نہیں ہے۔۔۔بلکہ اس وقت آپ کے نزدیک جہیز ان تحائف اور سازو سامان کو کہتے ہیں جو خاوند اپنے گھر میں بیوی کے قدم رنجہ فرمانے کے نتیجے میں خریدتا ہے اور یہاں لفظ جہیز کے اندر آپ بیوی کا حق مہر بھی داخل کررہے ہیں۔۔۔
لیکن میں جس جہیز کی بابت عرض کر رہا ہوں وہ ان مذکورہ بالا دونوں صورتوں سے علیحدہ ایک صورت ہے۔۔۔اور وہ ہے ھدیہ۔۔وہ ھدیہ جو ماں باپ اور بھائی وغیرہ اپنی بیٹی یا بہین کو اپنی خوشی سے دیتے ہیں ، کسی رسم یا کسی مطالبے کے تحت نہیں۔۔اور اس ھدیے یا اس جہیز کو کوئی شخص حرام یا واجب قرار نہیں دے سکتا۔۔۔وما علینا الا البلاغ
 

زلفی شاہ

لائبریرین
زلفی صاحب، معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ آپکی اپنی تحریر میں جابجا تعارض ہے۔ایک لائن میں آپ بڑے اعتماد سے دعویّ کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں اور فقہ کی کتابوں میں کہیں جہیز کا ذکر ہی نہیں ہے اور اس سے اگلی سطر میں آپ فرماتے ہیں کہ جہیز دینا خاوند کی ذمہ داری ہے۔۔۔بھی جب اسکا ذکر ہی نہیں ہے اور یہ ہندوانہ رسم ہے تو پھر حکم کیسے صادر فرمادیا آپ نے کہ اگرچہ اسکا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے اور کتب فقہ بھی اس بحث سے عاری ہیں اور یہ ہے بھی ہندووں کی رسم، لیکن اسکے باوجود یہ جہیز دینا خاوند کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟؟؟؟؟
بات اصل میں یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں جہیز کے دو تین معنی ہیں۔۔۔جب آپ قرآن و حدیث اور فقہ سے اسکی نفی کرتے ہیں تو اس وقت آپ کے ذہن میں جہیز سے مراد وہی ہندوانہ رسم ہے جس میں اسکا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔۔۔آپکی اس بات سے یہاں کسی کو بھی اختلاف نہیں
لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ جہیز دینا دراصل خاوند کی ذمہ داری ہے تو اس وقت آپکے ذہن میں جہیز سے مراد وہ ہندوانہ رسم نہیں جس کا ذکر قرآن و حدیث و فقہ میں نہیں ہے۔۔۔بلکہ اس وقت آپ کے نزدیک جہیز ان تحائف اور سازو سامان کو کہتے ہیں جو خاوند اپنے گھر میں بیوی کے قدم رنجہ فرمانے کے نتیجے میں خریدتا ہے اور یہاں لفظ جہیز کے اندر آپ بیوی کا حق مہر بھی داخل کررہے ہیں۔۔۔
لیکن میں جس جہیز کی بابت عرض کر رہا ہوں وہ ان مذکورہ بالا دونوں صورتوں سے علیحدہ ایک صورت ہے۔۔۔اور وہ ہے ھدیہ۔۔وہ ھدیہ جو ماں باپ اور بھائی وغیرہ اپنی بیٹی یا بہین کو اپنی خوشی سے دیتے ہیں ، کسی رسم یا کسی مطالبے کے تحت نہیں۔۔اور اس ھدیے یا اس جہیز کو کوئی شخص حرام یا واجب قرار نہیں دے سکتا۔۔۔وما علینا الا البلاغ
میرے بھائی میں نے جہاں بھی جہیز کا ذکر کیا ہے وہاں لفظ مروجہ کے ساتھ کیا ہے۔ اور اس مروجہ جہیزکی نفی آپ بھی کر رہے ہیں۔جہاں تک تعلق ہے خاوند کی طرف سے جہیز کا ہے تو میں باربار اس کی وضاحت کر چکا ہوں کہ سنت سے یہی ثابت ہے کہ شادی کے سلسلہ میں تمام خرچ لڑکے کی طرف سے ہو نہ کہ لڑکی کی طرف سے۔ چونکہ ہمارے ہاں شادی کے موقع پر دئیے جانے والی چیزوں کو جہیز کا نام دیا جاتا ہے اس لئے لفظ جہیز سمجھانے کے لئے استعمال کر لیا۔ جہاں تک سوال ہے ہدیہ دینے کا اس پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات ہم سب سمجھتے ہیں کہ شادی کے موقع پر جو سامان دیا جاتا ہے وہ دکھاوے کے لئے دیا جاتا ہے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو ساری عمر ہدایہ سے نوازتے رہتے ہیں تو کیا ان سب ہدایہ کی ایسے ہی نمائش کی جاتی ہے جیسی کہ جہیز کی کی جاتی ہے۔
 
جہاں تک سوال ہے ہدیہ دینے کا اس پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات ہم سب سمجھتے ہیں کہ شادی کے موقع پر جو سامان دیا جاتا ہے وہ دکھاوے کے لئے دیا جاتا ہے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو ساری عمر ہدایہ سے نوازتے رہتے ہیں تو کیا ان سب ہدایہ کی ایسے ہی نمائش کی جاتی ہے جیسی کہ جہیز کی کی جاتی ہے۔
معذرت کے ساتھ پھر اختلاف کروں گا۔۔۔یہ جو آپ نے فرمایا کہ "ہم سب سمجھتے ہیں کہ شادی کے موقع پر جو سامان دیا جاتا ہے وہ دکھاوے کیلئے دیا جاتا ہے"۔۔۔۔محترم ضروری نہیں کہ سب لوگ ایسا ہی سمجحتے ہوں۔۔۔اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ شادی پر جو سامان دیا جاتا ہے وہ سب دکھاوے کیلئے دیا جاتا ہو۔۔۔۔دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے اور جس چیز کو اللہ اور اسکے رسول نے حرام نہیں قرار دیا اسکو ہم اپنی مرضی سے حرام قرار نہیں دے سکتے محض اس دلیل کے ساتھ کہ جی فلاں کی نیت ایسی ہوگی۔۔۔نیتوں کو براہ کرم اللہ پر ہی چھوڑ دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ لڑکی والوں کی جانب سے جہیز کی نمائش کی جاتی ہو۔۔۔بلکہ یہ سامان چپکے سے لڑکی کے سسرال پہنچا دیا جاتا ہے اور اسکے برعکس، شادی کے موقع پر یہ جو 'بری' والی رسم لڑکے والوں کی طرف سے انجام دی جاتی ہے، اس میں نہایت بھونڈے انداز میں لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی اور اسکے خاندان کو دیئے جانے والے تحائف کی نمائش بھری محفل میں کی جاتی ہے۔۔۔اب بتائیے ، اس پر کیا کہیں گے؟
 

زلفی شاہ

لائبریرین
معذرت کے ساتھ پھر اختلاف کروں گا۔۔۔یہ جو آپ نے فرمایا کہ "ہم سب سمجھتے ہیں کہ شادی کے موقع پر جو سامان دیا جاتا ہے وہ دکھاوے کیلئے دیا جاتا ہے"۔۔۔ ۔محترم ضروری نہیں کہ سب لوگ ایسا ہی سمجحتے ہوں۔۔۔اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ شادی پر جو سامان دیا جاتا ہے وہ سب دکھاوے کیلئے دیا جاتا ہو۔۔۔۔دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے اور جس چیز کو اللہ اور اسکے رسول نے حرام نہیں قرار دیا اسکو ہم اپنی مرضی سے حرام قرار نہیں دے سکتے محض اس دلیل کے ساتھ کہ جی فلاں کی نیت ایسی ہوگی۔۔۔نیتوں کو براہ کرم اللہ پر ہی چھوڑ دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ لڑکی والوں کی جانب سے جہیز کی نمائش کی جاتی ہو۔۔۔بلکہ یہ سامان چپکے سے لڑکی کے سسرال پہنچا دیا جاتا ہے اور اسکے برعکس، شادی کے موقع پر یہ جو 'بری' والی رسم لڑکے والوں کی طرف سے انجام دی جاتی ہے، اس میں نہایت بھونڈے انداز میں لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی اور اسکے خاندان کو دیئے جانے والے تحائف کی نمائش بھری محفل میں کی جاتی ہے۔۔۔اب بتائیے ، اس پر کیا کہیں گے؟
میں تو شادی کے موقع پر کی جانے والی سب جاہلانہ رسومات کا مخالف ہوں۔ لڑکے والوں کی طرف سے بری کالایا جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ جب لڑکی لڑکے کے گھر میں آ رہی ہے تو اس کے رہنے سہنے اور اخراجات کا انتظام وہیں پر کرنا ہوگا ۔ یہ بری بھی دکھلاوے کے لئے ہی کی جاتی ہے۔ یہ بھی اسی زمرے میں آئے گی۔ خاوند بیوی کے اخراجات کا کفیل ہے نہ کہ اس کے خاندان کا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کس کس جاہلانہ رسم کا ذکر کریں گے؟ ان میں مؤجل اور غیر مؤجل حق مہر کا بھی ذکر ہے، اور پھر کتنے ایسے خاوند ہیں جو مؤجل حق مہر پہلی ملاقات پر ہی ادا کر دیتے ہیں۔

کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کم سے کم رسمیں ادا کی جائیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ماشاء اللہ آپ کا انداز تحریر اچھا ہے لیکن قرآن و حدیث کے مقابلے میں ذاتی رائے، منطق اور ذاتی استدلال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ قرآن پاک کا تھوڑا سا علم رکھنے والا مسلمان بھی جانتا ہے کہ قرآن پاک کی ایک ایک سورۃ میں بیسیوں مسائل بیان ہوتے ہیں اس لئے سورۃ کا سیاق وسباق نہیں دیکھا جاتا ۔ آیت کا سیاق و سباق دیکھ کر مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مرد اور عورت میں فضیلت کا استدلال قرآن و حدیث سے اخذ کریں گے نا کہ ذاتی رائے سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے۔ کیا اس حدیث مبارکہ کے بعد کوئی مسلمان خاوند کی فضیلت سے انکار کرنے کی جرات کر سکے گا؟یہاں عورت اور مرد کی فضیلت پر بات نہیں ہورہی یہاں تذکرہ خاوند اور بیوی کا ہو رہا ہے اور یقینا اسلام میں خاوند کو فضیلت حاصل ہے بیوی پر۔ یہ نہیں کہ مرد کوصرف ذمہ داریاں زیادہ سونپی گئیں ہیں۔ اس دھاگے کا عنوان ہے مروجہ جہیز کی برائیاں، میرا موقف یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے جہیزکی ذمہ داری مرد پر ہے نہ کہ عورت پر ۔ جس کے لئے میں نے قرآن و حدیث اور فقہ حنفی سے دلائل پیش کئے ہیں۔ اگر اس موضوع پر دلائل دیئے جائیں تو موضوع سے مطابقت قائم رہ سکے گی۔
بولڈ اور انڈر لائن شدہ حدیث کا ریفرنس دیجئے گا :)

استفسار کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکن میری کم عقلی اس بات کو سمجھنے سے مانع ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کا "تمنائی" فقرہ ادا کیا ہو۔ تمنائی اس طرح کا کہ اگر یہ چیز روا ہوتی تو فلاں کو حکم دیتا کہ فلاں کام کرو۔ حالانکہ نبیوں کا کام اللہ تعالٰی کا پیغام اور احکامات کو لوگوں کو پہنچانا ہے نہ کہ اپنی طرف سے مذہبی احکامات جاری کرنا۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں کہ میں محض بحث برائے بحث نہیں کر رہا بلکہ اپنی کم عقلی کا اعتراف کر رہا ہوں۔ وسعت قلبی سے جواب دیجئے گا
 
بولڈ اور انڈر لائن شدہ حدیث کا ریفرنس دیجئے گا :)

استفسار کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکن میری کم عقلی اس بات کو سمجھنے سے مانع ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کا "تمنائی" فقرہ ادا کیا ہو۔ تمنائی اس طرح کا کہ اگر یہ چیز روا ہوتی تو فلاں کو حکم دیتا کہ فلاں کام کرو۔ حالانکہ نبیوں کا کام اللہ تعالٰی کا پیغام اور احکامات کو لوگوں کو پہنچانا ہے نہ کہ اپنی طرف سے مذہبی احکامات جاری کرنا۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں کہ میں محض بحث برائے بحث نہیں کر رہا بلکہ اپنی کم عقلی کا اعتراف کر رہا ہوں۔ وسعت قلبی سے جواب دیجئے گا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترمذي 1159 ۔ ابن ماجة ( 1853 ) حسن صحيح ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دینے والا ہوتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔
جديد مساوات كے چكر ميں آ كر شريك حيات كے احسان كا اعتراف نہ كرنا مستحسن بات نہيں۔
 
Top