مرمریں شانے پہ کالے گیسوؤں کو ڈال کر از مجید لاہوری

مرمریں شانے پہ کالے گیسوؤں کو ڈال کر
درد مندوں کے دلوں کو شوق سے پامال کر

اِک نگاہِ ناز کافی ہے تباہی کے لئے
تُو خدا کو مان “ایٹم بم“ نہ استعمال کر

بھول جا ماضی کی آنکھیں بند کرکے حال سے
کہہ کے زندہ باد مستقبل کا استقبال کر

اے کہ تجھ سے ہیں کلفٹن کی فضائیں جلوہ ریز
ہم غریبوں کو ذرا فٹ پاتھ پر خوشحال کر

دیکھنا ہے “لگژری“ کے “بیچ“ وہ کب تک رہیں
جنّت فردا کے افسانوں پہ ہم کو ٹال کر

ہند “جاتی“ کو تو پاکستان مسلم کو ملا
“خالصہ جی“ اب تُو بیٹھا ست سری اکال کر

ہاں نہیں اس کے سوا کچھ شاعری میری مجید
پیش کرتا ہوں حقائق شاعری میں ڈھال کر
 

شوکت پرویز

محفلین
مرمریں شانے پہ کالے گیسوؤں کو ڈال کر
درد مندوں کے دلوں کو شوق سے پامال کر
جناب سید شہزاد ناصر صاحب!
ذرا درد مندوں کی فہرست بھیج دیتے تو اچّھا رہتا، ہمیں چند احباب کے نام تلاش کرنے ہیں۔ ;) ;) ;) ;)

میری ایک چھوٹی سی تک بندی:
چار پیسے ہی ملیں کُل آٹھ گھنٹے ڈال کر
رب مرے، بے حال ہوں، کچھ تو مجھے خوش حال کر
اس نے بولا جا تجھے دیتا ہوں اک آسان کام
جا سیاست دان بن جا، خود کو مالا مال کر
 
جناب سید شہزاد ناصر صاحب!
ذرا درد مندوں کی فہرست بھیج دیتے تو اچّھا رہتا، ہمیں چند احباب کے نام تلاش کرنے ہیں۔ ;) ;) ;) ;)

میری ایک چھوٹی سی تک بندی:
چار پیسے ہی ملیں کُل آٹھ گھنٹے ڈال کر
رب مرے، بے حال ہوں، کچھ تو مجھے خوش حال کر
اس نے بولا جا تجھے دیتا ہوں اک آسان کام
جا سیاست دان بن جا، خود کو مالا مال کر
ہمم خیر ذرا فرصت ملنے پر دو دو ہاتھ کرتا ہوں آپ سے :tongueout4:
 
Top