حسن رضا مرضِ ہجرِ بت میں مَر مَر کے

مَرَضِ ہجرِ بت میں مَر مَر کے
جی بچا ہوں خدا خدا کر کے

دیدۂِ تر کے پُچھ گئے آنسو
اُن کو دیکھا جو اِک نظر بھر کے

جانتے ہیں وہ اِک نہ مانیں گے
بات کیوں کھوئیں التجا کر کے

کیا کِیا تُو نے ڈوب مَر اے مہر
صبح چمکی وہ پاس سے "سَرکے"

ہو مبارک تمھیں رقیب کہ ہم
اور مہمان ہیں گھڑی بھر کے

مے کدہ تک تو آئیے واعظ
کتنے پیتے ہو جام کوثر کے

ٹھوکریں وہ لگاتے آتے ہیں
کیا ہی اعزاز ہیں مِرے سَر کے

دے خدا میری آہ کو وہ اثر
دل پگھل جائیں جس سے پتھر کے

ہم جب آئے تمھیں نہیں پایا
اے حسؔن
ہو رہو تم اس در کے​
 
Top