مرزا غالب کی زندگی کے چند پہلو

مرزا اسد اللہ خان بیگ کا زندگی نامہ

اصل و نسب:
مرزا غالب اوغوز ترکمانوں کے سلجوق طایفہ سے تعلق رکھتے تھے. اپنے ترک ہونے کا اقرار انہوں نے اپنے خطوط و اشعار میں متعدد جگہوں پر کیا ہے. جو کہ غالب کے الفاظ میں پیش ہیں.

"غالب از خاک پاک تورانیم
لاجرم در نسب فرھمندیم
ترک زادیم و در نژاد ھمہ
بسترگان قوم پیوندیم
"غالب میں توران کی پاکیزہ مٹی سے تعلق رکھتا ہوں.
بلاشبہ میں عالی النسب ہوں
ترک زاد ہوں اور اس قوم میں
میرا تعلق عظیم المرتبت حکمرانوں کے خاندان سے ہے"
اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں
"اسد اللہ خاں غالب تخلص, قوم کا ترک سلجوقی سلطان برقیارق سلجوقی کی نسل سے میرا دادا قوقان بیگ شاہ عالم کے عہد میں سمرقند سے دہلی آیا.."

زندگی نامہ:
غالب کے دادا مرزا قوقان بیگ سمرقند سے ہجرت کر کے ھند منتقل ہوئے تھے, ترکی زبان بولتے تھے اور ہند کی زبان نہیں جانتے تھے.
غالب کی پیدائش 27 دسمبر 1797 کو بدھ کے روز عبداللہ بیگ خان کے گھر میں پیدا ہوئے گئے. پانچ برس کے تھے کہ والد ایک جنگ میں گولی لگنے سے انتقال کر گئے. اس کے بعد پرورش کی زمہ داری چچا نصر اللہ بیگ خاں نے بر سر دوش لی.
13 سال کی عمر میں (1810) الہی بخش معروف کی دختر 'امراؤ بیگم' سے نکاح ہوا. بعد میں آگرہ سے دہلی منتقل ہوگئے اور تاحیات وہیں کے ہوکر رہ گئے.
زندگی غالب کی اس شکل میں گزری کہ تمام عمر قرض میں غرق رہے اور کرائے کے مکان میں مکین رہے. آمدنی کا کوئی مستقل زریعہ نہیں تھا اور خرچے امراء سے بڑھ کر تھے. آخر عمر میں پنشن مقرر ہوئی.
"شاہ کا مصاحب"
1850 میں حکیم احسن علی خان کی سفارش پر بہادر شاہ ظفر کے دربار میں شاھی مورخ کا وظیفہ ملا. شاہ نے تاریخ خاندان تیموریہ کی سرگزشت لکھنے کی زمہ داری سونپی جس پر غالب نے اپنے مخصوص انداز میں لکھنا شروع کیا اور اس مجموئے کا نام "پرتوتستان" رکھا ,اسے دو حصوں پر منقسم کیا. پہلا حصہ 'مہر نیم روز' یافث بن نوح سے ہمایون بادشاہ تک کے حالات درج کیے اور دوسرا حصہ "مہر نیم ماہ", جس میں اکبر سے بہادرشاہ ظفر تک کے حالات درج کرنا چاہتے تھے لیکن غدر کی وجہ سے دوسرا حصہ کبھی مکمل نہ ہوسکا.

مذھبی عقائد:
غالب عقائد کے اعتبار سے سخت گیر نہ تھے, تمام مذاھب و عقائد کا احترام رکھتے تھے یہی سبب ہے کہ ان کے کلام میں مسجد, مندر و کلیسا کا زکر ہمیں ملتا ہے.سنی حنفی مسلک پر عمل پیرا تھے, اہل بیت سے حد درجہ عقیدت و محبت رکھتے.
قلعہ میں تقرری کے ایام میں غالب سے بغض رکھنے والوں نے مشہور کردیا کہ مرزا شیعہ عقائد کے پیرو ہیں. شاہ کے دریافت کرنے پر غالب نے اپنے مخصوص انداز میں اس کی مکمل تردید کی اور یہ کہا
جن کو ہے مجھ سے عداوت گہری
کہتے ہیں مجھ کو رافضی و دہری
دہری کیونکر ہووے جو کہ ہووے صوفی
شیعی کیونکر ہووے ماورا النھری

یعنی میں تو ماوراالنہر (ترکستان) سے تعلق رکھتا ہوں اور ترکستان کا باشندہ کبھی شیعہ نہیں ہوتا.

غالب کی شاعری:
غالب کی شاعری گل ہائے رنگ رنگ پر مشتمل ہے, اس میں آپ کو تصوف, شوخی, نفاست, عشق مجازی, حقیقی, تنگی ہائے روزگار الغرض ہر موضوع پر شعر نظر آئے گا.
عبدالرحمن بنجوری لکھتے ہیں
" ہند کی الہامی کتب دو ہیں, مقدس وید اور دیوان غالب"
اگرچہ سو پشتوں سے غالب کا پیشہ آباء سپہ گری تھا لیکن شاعری ان کے لیے ایسا زریعہ عزت بنا جو کہ سپہ گری و شمشیر زنی سے بھی حاصل نہ ہوسکتا تھا.
غالب نے جب بے دلی سے اردو میں شعر کہے تو ان کا ثانی نہ ہوا اور ریختہ کے کہکشاں میں عظیم ترین ستارہ بن گئے.
غالب کی فارسی شاعری بھی کسی تعریف کی محتاج نہیں. ہے, یہ بلاشبہ ہند کی طرف سے ایران و خراسان کے اکثر شعراء کو ٹکر دینے کی طاقت رکھتا ہے.
فارسی وہ زبان ہے جس کی گود سے اردو کا جنم ہوا اور بہت سے فارسی گو شعرا (مثلا اقبال, سعدی, جامی, رومی) کے اشعار اردو میں ترجمہ کیا جاچکے ہیں لیکن اگر ریختہ میں کسی کا اردو کلام فارسی ترجمہ کرنے کے قابل ہے تو اولین ترجیح گفتہ غالب ہوگی..
افسوس اس بات کا ہے کہ غالب کی قدر غالب کے زمانے میں نہیں ہوئی.لیکن وہ جانتے تھے کہ ان کا حقیقی مقام کیا ہے, آنے والے زمانے میں اس کی قدر معلوم ہوگی. یہی سبب ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں تین ہزار سے زائد کتب غالب پر لکھی جاچکی ہیں لیکن ابھی تک اس کے گنجینہ معنی کا طلسم مکمل طور پر نہ کھل سکا.
غالب کہتے ہیں
"کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است
شھرت شعرم در گیتی بعد من خواھد شد"
ترجمہ
" میرے ستارے کو دوسری دنیا میں مقبولیت کا تاج پہنایا جاچکا ہے
میرے شعر کی شہرت دنیا سے میرے جانے کے بعد ہوگی."

یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوح جہاں پر حرف مقرر نہیں ہوں میں

یہ عندلیب گلشن ناآفریدہ 15 فروری 1769 میں پرانی دہلی کی گلی قاسم جان, محلہ بلی ماراں اپنے آبائی مکان میں راہی عدم ہوئے.

از قلم : رحمت اللہ ترکمن
 
Top