مرثیہ نسیم امروہوی : مسند نشین بزم طہارت ہیں فاطمہ

فاخر رضا

محفلین
نسیم امروہوی نے یہ مرثیہ ۱۹۳۷ میں لکھا تھا اور یہ ان کی مرثیے کی کتاب میں موجود ہے۔ انٹرنیت پر یہ مرثیہ عکس کی شکل میں پی ڈی ایف فائل میں موجود ہے۔ میں یہاں اس کو انپیچ میں ٹائپ کرکے شامل کررہاہوں۔ ہوسکتا ہے ایک دفعہ میں نہ ہوسکے لیکن آہستہ آہستہ کردوں گا۔ مجھے ذاتی طور پر یہ مرثیہ بہت پسند ہے۔ ہمارے خاندان میں شادی والے گھرمیں شادی سے پہلے یا یہ سمجھ لیں بارات کے گھر سے جانے سے پہلے یہ مرثیہ ایک مجلس کی شکل میں پڑھا جاتا ہے۔ عقیدہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا غم ہر حال میں زندہ رکھا جائے چاہے شادی ہی کا موقع کیوں نہ ہو۔ لہذا برات کی روانگی سے پہلے بھی مجلس برپا کی جاتی ہے۔ یہ رسم ہر خاندان میں نہیں ہوتی لہذا اسے ہمارے خاندان کی رسم بھی کہ سکتے ہیں۔ ہر صورت میں یہ مرثیہ بہرحال پڑھا جاتا ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ اب مرثیہ کے ابتدائی بند حاظر ہیں۔
بند ۱
مسند نشینِ بزم ِ طہارت ہیں فاطمہ
در یتیم تاج شفاعت ہیں فاطمہ
نفس نفیس جسم رسالت ہیں فاطمہ
اصلِ اصول نخل امامت ہیں فاطمہ
بچے بھی ان کے فخر خلیل و ذبیح ہیں
جھولے میں دونوں لال کلیم و مسیح ہیں
بند ۲
جزوِ صلات و صوم ولائے بتول ہے
حیدر کی جانماز ردائے بتول ہے
ام الکتاب محو ثنائے بتول ہے
قرآن کے شروع میں بائے بتول ہے
حیدر سمیت فاطمہ راس الکتاب ہیں
بِ ہیں بتول ، نقطۂ با بوتراب ہیں
بند ۳
حور بہشت حاجب ِ دربارِ فاطمہ
روح القدس ملازمِ سرکارِ فاطمہ
عین الٰہ پردۂ اسرار فاطمہ
عصمت کا نور غازۂ رخسارِ فاطمہ
مضمر جو خال و خد میں جلال رسول ہے
یہ آیۂ حجاب کی شانِ نزول ہے
بند ۴
عالم میں ہے محیط رخ پر ضیا کا نور
ذرہ ہے جس کے سامنے شمس الضحا کا نور
چادر چھپا سکے گی نہ یہ مصطفیٰ کا نور
جب تک ردائے پاک نہ ہو کبریا کا نور
لازم ہے چونکہ نور سے پردہ بتول کا
رخ پر سمٹ کے آگیا سایہ رسول کا

بند ۵
شمع منیر قصر طہارت ہے فاطمہ
سرمایۂ فروغ امامت ہیں فاطمہ
ختم الرسل کا اجر رسالت ہیں فاطمہ
قرآن ہیں رسول تو آیت ہیں فاطمہ
حق سے خطاب پایا ہے ام الکتاب کا
گویا ہے معجزہ یہ رسالت مآب کا
بند ۶
جامہ ہے ان کا فقر، بنی خاک فرش خواب
ان خاکساریوں میں ہیں کفو ابوتراب
ہے زیب و زین گوش مبارک بہ آب و تاب
آویزۂ حدیث اور آوازۂ کتاب
پھر کیوں نہ زر، نظر میں ہو کم خاک و دھول سے
آراستہ ہیں زیور خلق رسول سے
بند۷
مریم بھی ان سے کم ہیں مسیحا سے پوچھ لو
آدھا بھی مرتبہ نہیں سارا سے پوچھ لو
اپنوں کا کیا ہے تذکرہ اعدا سے پوچھ لو
جاؤ مباہلہ میں نصاریٰ سے پوچھ لو
زہرا سی عورتیں ہیں نہ حیدر سے مرد ہیں
ختم الرسل کے بعد یہ زوجین فرد ہیں
بند ۸
بی بی پہ ہے طہارت و عصمت کا خاتمہ
شوہر پہ ہے شجاعت وہمت کا خاتمہ
بابا وہ ہے کہ جس پہ نبوت کا خاتمہ
پوتا وہ ہے کہ جس پہ امامت کا خاتمہ
زہرا نہ ہوں تو دین کا قصہ تمام ہے
نام خدا انہی سے محمد کا نام ہے
بند ۹
یہ جان مصطفیٰ صفت بوتراب ہیں
بیٹے شریک نور رسالت مآب ہیں
ماں مطلع شرف تو پسر آفتاب ہیں
ام کتاب یہ ہیں وہ گویا کتاب ہیں
زہرا نے اپنی گود میں کیا لال پائے ہیں
منزل میں بولتے ہوئے قرآن آئے ہیں
بند۱۰
کیونکر بیاں ہو بنتِ شہ انبیا کا اوج
روشن نگین ختم نبوت ہے جس کا زوج
وہ قلزم شرف کہ طہارت ہے جس کی موج
عصمت کا تاج طبل کرم معجزوں کی فوج
کامل ہیں جس کے چاند شہ بدر کی طرح
پوتا حجاب میں ہے شب قدر کی طرح
بند ۱۱
صورت سے آشکار ہے سیرت رسول کی
میراث میں ملی ہے کرامت رسول کی
باتیں رسول کی تو فصاحت رسول کی
تطہیر فاطمہ ہے طہارت رسول کی
وارث نبی کے علم کی تنہا بتول تھیں
پردہ نشیں نہ ہوتیں تو یہ بھی رسول تھیں

جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
نبیل برائے مہربانی ٹائٹل درست کردیں۔ یہ غلط ٹائپ ہوگیا ہے۔
درست ٹائٹل مصرعہ اول ہے
مسند نشین بزم طہارت ہیں فاطمہ
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۱۲
صدیقہ و زکیہ ہے یہ فخر آسیہ
مرضیہ و رضیہ و زہرا و راضیہ
ہے مصحف حجاب و حیا نفس زاکیہ
آیا ہے جسکا سورۂ مریم سا حاشیہ
حیدر میں یہ صفت نہ رسول حجاز میں
تسبیح فاطمہ کی ہے شامل نماز میں

بند ۱۳
چمکا وجود فاطمہ سے پنجتن کا نور
نفس نبی کا نور رسولِ زمن کا نور
قائم ہے تا قیام حسین و حسن کا نور
وجہِ بقا بنا ہے علی کی دلہن کا نور
جلوے سے دین کے جو زمیں رشک طور ہے
یہ فاطمہ کے نور کا سارا ظہور ہے

بند ۱۴
زہرا کے دم سے گلشن ایماں مہک گیا
امید مغفرت کا شگوفہ چٹک گیا
عصمت کے ضو سے نور کا دریا چھلک گیا
احمد کے گھر علی کا ستارہ چمک گیا
ذاتی شرف بتول کے رشتے سے بڑھ گئے
عینِ خدا نبی کی نگاہوں پہ چڑھ گئے

بند ۱۵
اب ذکرِ عقد ِجان و دل ِ مصطفیٰ سنو
مدح بتول ، منقبتِ مرتضیٰ سنو
گھر کا خدا رسول کے یہ ماجرا سنو
نسبت کہاں سے آئی ہے یہ بھی ذرا سنو
ہے حکم رب پیمبر عالی نژاد کو
دیدو تم اپنی بیٹی مرے خانہ زاد کو

بند ۱۶
ہاں حکم رب سے خوش ہیں رسول فلک مقام
واں ہے علی کے عقد کی اعلیٰ میں دھوم دھام
حق نے کیا ہے جشن عروسی کا اہتمام
معمور ضو سے خانۂ معمور ہے تمام
ہے عقد جانشینِ پیمبر رسول سے
قربت بڑھی خدا سے قرابت رسول سے

بند ۱۷
آراستہ نکاح کی ہے بزم بے مثال
منبر پر خطبہ پڑھتا ہے راحیل خوش مقال
داؤد وجد کرتے ہیں لہجے کا ہے یہ حال
بحرین کا ہے صورتِ سعدین اتصال
شاہد وہ ہے وجود بشر جس کے ہاتھ ہے
قاضی وہ ہے قضا و قدر جس کے ہاتھ ہے

بند ۱۸
شادی کی بارگاہ بنا آستان غیب
حور و ملک ہیں بزم نشین مکانِ غیب
سہرا بنے ہوئے ہیں گل بوستانِ غیب
محوِ ادائے صیغہ ہے گویا لسانِ غیب
شادی ہے اہل بزم کا دل شاد ہوگیا
حق کا ولی رسول کا داماد ہوگیا

بند۱۹
فضل خدا سے چھا گیا رحمت کا اک سحاب
پروانے جس سے خلد کے برسے بجائے آب
حوروں نے چن لئے وہ گلِ سرسبد شتاب
لکھے تھے جن پہ نام محبانِ بوتراب
جو دشمن علی ہے وہ جنت سے دور ہے
جو نام جس نے پایا اسی کی وہ حور ہے

بند ۲۰
گویا ہوئی زبان مشیت بہ آب و تاب
لے ان امانتوں کو اٹھا اے امیں شتاب
تل بھر بھی جس کے دل میں ہو عشق ابوتراب
دینا سند بہشت کی اسکو دم حساب
ضامن ہیں ہم علی کے محب کی نجات کے
شادی کا فیض ہیں یہ قبالے برات کے

بند ۲۱
ساقی وہ پھول دے جو نہ زاہد پہ بار ہو
سرخی سے جس کی باغِ سخن لالہ زار ہو
مصرع مرا بہشت کے پھولوں کا ہار ہو
باغی بھی دیکھ لے تو ناں آنکھوں میں خوار ہو
وہ مے پلادے جو ازلی میکدے کی ہے
بدذوق بھی پئے تو کہے ہاں مزے کی ہے

بند ۲۲
عرفاں کے نور سے جو چمکتی ہے وہ شراب
تطہیر جس کے رخ سے ٹپکتی ہے وہ شراب
مومن کے جامِ دل میں چھلکتی ہے وہ شراب
جو غیر کے گلے میں اٹکتی ہے وہ شراب
خمِ غدیر سے جو ملی ہے وہ مے پلا
جو بے بسی میں شیخ نے پی ہے وہ مے پلا

بند ۲۳
ساغر لبوں پہ آکے ندا دے علی علی
محفل میں اپنا رنگ جما دے علی علی
شیشہ بھی جھک کے صاف ندا دے علی علی
قل قل کے بدلے کھل کے سنا دے علی علی
ایماں کا رنگ ڈھنگ شریعت کا طور ہو
قرآں کے دائرے میں پیالے کا دور ہو

جاری ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۲۴
ساقی کی چاہ میں سوئے کوثر چلیں گے ہم
پھولیں کے زیرِ سایۂ طوبیٰ پھلیں کے ہم
رضواں سے سلسبیل کا ساغر نہ لیں گے ہم
واں بھی خدا کے ہاتھ سے پی کر ٹلیں گے ہم
ساقی کے پیچھے پیچھے چلیں جھومتے ہوئے
ہر ہر قدم نشانِ قدم چومتے ہوئے

بند ۲۵
ہاں میکشو چلو سوئے دارالبقا چلو
مکے چلو مدینۂ خیر الورا چلو
مشہد سے کاظمین چلو سامرا چلو
چھک جاؤ گے نجف سے اگر کربلا چلو
پی کر مزے فرات پہ کوثر کے آئیں گے
ایک ایک بادہ کش کو بہتر پلائیں گے

بند ۲۶
پوچھو کتابِ پاک سے توقیر میکدہ
کی حضرت خلیل نے تعمیر میکدہ
دستِ خدا سے پھر ہوئی تطہیرِ میکدہ
ساقی علی ہیں شاہ رسل میرِ میکدہ
چودہ طبق میں بس یہی میخانہ ایک ہے
چودہ پلانے والے ہیں پیمانہ ایک ہے

بند ۲۷
ساقی یہ شب خوشی کی ہے یہ دن سرور کا
محفل بھی آج نور کی دولہا بھی نور کا
جامِ سرور بزم میں ہے چشم حور کا
شربت کی جا ہے دور شراب طہور کا
آپ بقا میں شہدِ ولا گھول کر پلا
عقدہ کشا کے عقد میں جی کھول کر پلا

بند ۲۸
زہرہ جبیں سے خسرو خاور کا عقد ہے
درنجف سے عرش کے گوہر کا عقد ہے
قرآن سے مشیت داور کا عقد ہے
نفس نبی سے جان پیمبر کا عقد ہے
بنت شہ رسل کو شہ اولیا ملا
احمد کی نور عین کو عین خدا ملا

بند ۲۹
مہر مبیں سے صبح سعادت کا عقد ہے
معصوم روزگار سے عصمت کا عقد ہے
معبود کے ولی سے عبادت کا عقد ہے
المرتضیٰ سے مصطفویت کا عقد ہے
دو مل گئے چراغ تو دونی ضیا ہوئی
نور حرم سے شمع حرم کتخدا ہوئی

بند ۳۰
سردارِ اولیا کا سیادت سے عقد ہے
محبوب مغفرت کا شفاعت سے عقد ہے
مقصود کن کا حق کی امانت سے عقد ہے
ایمانِ کل کا جزو رسالت سے عقد ہے
یکساں فضیلتیں ہیں علی و بتول کی
لڑکا خدا کے گھر کا ہے لڑکی رسول کی

بند ۳۱
یثرب تمام تختۂ باغِ عدن بنا
جو خار دشت دیکھیئے وہ گل بدن بنا
سوکھا ہوا درخت بھی رشک چمن بنا
گیتی دلہن بنی ہے تو چرک کہن بنا
پہنچی خبر جوگلشن عنبر سرشت میں
سہرے کے پھول کھل گئے باغِ بہشت میں

بند ۳۲
غلمان و حور کا در حیدر پہ ہے ہجوم
گویا در بہشت ہے بابِ درِ علوم
شادی رچی ہے کون و مکاں میں علی العموم
گیتی میں جشن، چرخ پہ غل، لا مکاں کی دھوم
تا عرش کردگار علی کی رسائی ہے
اس بندۂ خدا کی وہاں بھی خدائی ہے

بند ۳۳
سب بی بیاں ہیں خدمت زہرا میں محو دید
بی بی کے گرد پھر کے ہوئیں آسیا مرید
عیسیٰ کی ماں کو بھی ہے مسیحائی کی امید
قربان ہورہی ہیں ، یہ ہے حاجرہ کو عید
زوجہ خلیل کی طبق زر لئے ہوئے
سارا ریاض خلد کا عنبر لئے ہوئے

بند ۳۴
شادی کے اہتمام میں ساری خدائی ہے
مہندی پئے عروس شفق لے کے آئی ہے
خورشید کے طبق میں سحر غازہ لائی ہے
والنجم نے ستاروں کی افشاں لگائی ہے
سرمہ حیا ہے، چشمِ حقیقت شناس کا
خلق نبی ہے عطر بنی کے لباس کا

بند ۳۵
ہے دیں کی زیب، زیورِ خاتونِ دوجہاں
جھومر ہے سر پر رحمت خلاق انس و جاں
روشن جبیں پہ، چاند کی جا، سجدے کا نشاں
کانوں میں وعظ و پند پیمبر کی بالیاں
عصمت کے گوشوارے جو عفت بدوش ہیں
مریم کمال ِ عجز سے حلقہ بگوش ہیں

جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۳۶
ہے واجبات دیں کا گلو بندِ پر ضیا
گردن کا طوق، مرضیٔ اللہ و مصطفیٰ
تسبیح سچے موتیوں کی سلک بے بہا
ہے جس کے دانے دانے پہ دانائے کل فدا
مالا ہے، معرفت کے در شہوار کا
نادِ علی کا نقش ہے تعویذ ہار کا

بند ۳۷
ناخن کا آئنہ ہے انگوٹھے میں آرسی
چھلوں کی جا ہے انگلیوں میں جوہر بنی
انگشتری ہے مہر سلیماں بنی سجی
کندہ نگینِ در نجف پر ہے یا علی
گھر کی بھی زیب و زین ہے زیور کے ساتھ میں
ہے دامن علی کا علی بند ہاتھ میں

بند ۳۸
جوشن ہے جوشنین کا ، کنگن ہے زہد کا
پازیب فخر، پیرویٔ حکمِ کبریا
عصمت ردا بنی ہے ، طہارت ہے کفش پا
ملبوس پاک، جامۂ تن زیب ہل اتیٰ
تاجِ کرم ہے بنتِ رسولِ زمن کے سر
امت کی مغفرت کا ہے سہرا دلہن کے سر

بند ۳۹
مسند نشینِ بزمِ کرامت دلہن بنی
مشاطہ عروسِ شفاعت دلہن بنی
وجہِ کمالِ حسنِ رسالت دلہن بنی
قرآں پکارا، رحلِ امامت دلہن بنی
ایسی بھی کتخدائی نہ ہوگی خدائی میں
خالق نے گیارہ لال دیئے رونمائی میں

بند ۴۰
یہ فاقہ کش بہشت کی جاگیر پائے گی
تحفہ میں حق سے آیۂ تطہیر پائے گی
رحمت کرے گی ناز وہ توقیر پائے گی
یعنی خدا سے شبر و شبیر پائے گی
دل ہے غنی کہ مادرِ آلِ رسول ہے
حق کی امانتوں کا خزانہ بتول ہے

بند۴۱
وہ شادیٔ عروسیٔ مخدومۂ انام
وہ بندوبستِ عقدِامامِ ِفلک مقام
جھک جھک کے دیکھنا وہ فلک کا یہ دھوم دھام
کرّوبیوں کی بھیڑ، فرشتوں کا ازدحام
غلماں ہیں دست بستہ غلامی کے واسطے
حوریں کھڑی ہیں در پہ سلامی کے واسطے

بند ۴۲
حاضر ہیں آستانے پہ خدّامِ بارگاہ
وہ دینِ دادخواہ وہ ایمانِ خیر خواہ
وہ حورِ عیں کی چشم طلب ، طالب ِ نگاہ
مسند بنی ہے رحمتِ حق، شرع فرش راہ
سہرا لئے بہشت سے رضوان آیا ہے
صورت کے اشتیاق میں قرآن آیا ہے

بند ۴۳
جوڑا شہانہ سجنے لگے شاہِ ذوالفقار
عزت عبا، جلال قبا،پیرہن وقار
بالائے سر، امامۂ اسرارِ کردگار
نعلین وہ کہ دوش نبی دیکھے باربار
سہرا کلاہِ جود پہ حاجت روائی کا
کنگنا بندھا کلائی میں مشکل کشائی کا

بند ۴۴
حق مانگنے لگے جو ملائک تھے محوِ دید
روح الامین پکارے میں شاگرد ہوں رشید
میکال بولے حق سے ہے قربت مجھے مزید
رضواں نے دست بستہ کہا میں بھی ہوں مرید
رخ کی بلائیں لینے کا موقع جو پاگئیں
حوریں ادب سے نیگ جھگڑنے کو آگئیں

جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۴۵
شفقت سے مسکرانے لگے شاہِ ہل اتیٰ
حقداروں کی طرف کوبڑھی رحمتِ خدا
میکال کو دیا شرفِ قربِ کبریا
رضوان کو بہشت کے در کردیئے عطا
جبریل کو ولائے علی کا سبق دیا
حوروں کو شہ کے شیعوں کی خدمت کا حق دیا

بند ۴۶
لو دھوم سے چلی اسد اللہ کی برات
شمعیں پکارتی تھیں یہ شب ہے شب برات
سچے براتیوں کو جہنم سے ہے برات
ناکام حاسدوں کے لئے سورۂ برات
اہلِ نفاق موت سے بے موت مر گئے
چڑھنے لگی برات تو چہرے اتر گئے
(ایک ہی قافیہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے)

بند ۴۷
نوشاہ کی رکاب میں حاضر ہیں جانثار
غلمان و حور و جن و ملک باندھے ہیں قطار
شادی کے گیت گاتی ہیں حوریں جو بار بار
مشکل کشا کی مدح و ثنا کا بندھا ہے تار
داؤد کی زباں پہ ہیں نغمے زبور کے
ہیں انبیا جلوس میں پیچھے حضور کے

بند ۴۸
والفجر چاندنی کا ہے آنچل لیے ہوئے
والتین ڈالی دینے کو ہے پھل لیے ہوئے
واللیل بہر چشم ہے کاجل لئے ہوئے
والشمس آگے آگے ہے مشعل لئے ہوئے
والفتح خوش ہے دیکھ کے حسن شباب کو
والعادیات تھامے ہوئے ہے رکاب کو

بند ۴۹
ہے گونج طبلِ کلمۂ طیب کی تاسما
طاشے خدا کی حمد کے بجتے ہیں جا بجا
گویا شہادتین کا ہے جھانج برملا
تکبیر جبرئیل ہے شہنائی کی صدا
نعروں سے گونجتی ہے فضا دو جہان کی
نقارے ہیں درود کے نوبت اذان کی

بند ۵۰
برپا ہے جشن مرتضوی تابہ لامکاں
حوروں میں رت جگا ہے سجائی گئی جناں
زہرہ نے اپنے رقص سے باندھا ہے ، وہ سماں
خود جھومتا ہے وجد میں طاؤسِ آسماں
بزمِ طرب میں عالمِ بالا شریک ہے
وہ بھی شریک حال ہے جو لاشریک ہے

بند ۵۱
گھر تک گئی بنی کے جو ان باجوں کی صدا
فرحت سے جھومنے لگیں ازواجِ مصطفیٰ
اٹھ اٹھ کے دیکھنے لگے اصحابِ باصفا
خوش آمدید کہنے لگی رحمت ِ خدا
قرآن ساتھ ساتھ تھا نغمہ سرائی کو
خود پیشوائے خلق بڑھا پیشوائی کو

بند ۵۲
پہنچے نبی کے گھر جو امام فلک جناب
نورِ ازل کی مسند زریں بچھی شتاب
تھی چاندنی جو روئے بنی کی بہ آب و تاب
بیٹھے جھکا کے سر کو دو زانو ابوتراب
سامان عقد حضرت مشکل کشا ہوا
دولھا دلھن کا شاہدِ عادل خد ہوا

بند ۵۳
قرآں زبانِ حق سے پکارا بصد ادب
ایماں کا سلسلہ ہے، یہ رشتہ بحکمِ رب
دولھا دلھن خدا و نبی کے ہیں منتخب
رکھتے ہیں دونوں اشرف و اعلیٰ حسب نسب
ان کے یہ کفو ہیں تو وہ ان کی نظیر ہیں
وہ سیدہ ہیں اور یہ جنابِ امیر ہیں

جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۵۴
خطبہ پڑھا نبی نے جو حمد و ثنا کے ساتھ
آئے ملک بھی نعرۂ صل علیٰ کے ساتھ
باندھا قلیل مہر جو حق کی رضا کے ساتھ
غل تھا عطا کا جوڑ ملا ہل اتیٰ کے ساتھ
حق کی رضا سے مرضیٔ خیر الانام سے
تسبیح پاک کا ہوا رشتہ امام سے

بند ۵۵
مقبول حق ہوا جو وہ ایجاب وہ قبول
آئی ندائے غیب مبارک ہو یا رسول
تطہیر کو جو قرب امامت ہوا حصول
مومن شگفتہ ہوگئے جیسے جناں کے پھول
دل خوش ہوئے جو عقد علی و بتول سے
حق سے مال ثواب تو خرمے رسول سے

بند ۵۶
ڈنکے بجے جلوس امامت کے اک طرف
حُلے ملے غلاموں کو جنت کے اک طرف
مژدے ہوئے تمام جو نعمت کے اک طرف
بعثت کو لطف آگئے دعوت کے اک طرف
غل تھا علی کی شان ولیمہ تو دیکھیے
دعوت میں قلب کفر کا قیمہ تو دیکھیے

بند ۵۷
محبوب کی خوشی سے خدا شاد ہوگیا
گھر آج اہل بیت کا آباد ہوگیا
تخت نبی بھی فکر سے آزاد ہو گیا
ہمسر وہی ہے ایک جو داماد ہوگیا
بیٹے کی جا ہے یہ شہ معراج کے لئے
ہے سر کا تاج بیٹی کے سرتاج کے لئے

بند ۵۸
دل سے دعائیں دینے لگے صاحب ولا
پھولیں پھلیں جہاں میں زہرا و مرتضیٰ
اشعار تہنیت کا ہوا شور جا بجا
کی مقتضائے حال نے حضرت سے التجا
ہے لطف بوستان جناں کی شمیم کا
سن لیجیئے حضور یہ سہر ا نسیم کا

بند ۵۹
اسلام کے وقار کا سہرا علی کے سر
احمد کے افتحار کا سہرا علی کے سر
قدرت کے اختیار کا سہرا علی کے سر
توحید کردگار کا سہرا علی کے سر
سہرا ہے فرق پاک پہ اسمائے ذات کا
سہرا علی کے سر ہے خدا کی صفات کا


جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۶۰
احکام کارساز کا سہرا علی کے سر
قدرت کے امتیازکا سہرا علی کے سر
اسرار بے نیاز کا سہرا علی کے سر
روزے کا اورنمازکا سہرا علی کے سر
سہرا ہے فرق پاک پہ عہد الست کا
سہرا علی کے سر ہے بتوں کی شکست کا

بند ۶۱
اسلام کی کمائی کا سہرا علی کے سر
عالم کی پیشوائی کا سہرا علی کے سر
قدرت کی رونمائی کا سہرا علی کے سر
زہرا کی کتخدائی کا سہرا علی کے سر
سہرا ہے فرق پاک پہ خالق کی چاہ کا
سہرا ہے سر پہ اشہد ان لا الٰہ کا

بند ۶۲
تنویر ذولجلال کا سہرا علی کے سر
معبود کے جمال کا سہرا علی کے سر
کفار کے زوال کا سہرا علی کے سر
اسلام کے کمال کا سہرا علی کے سر
پایا ہوا نبی سے خدا سے چنا ہوا
نعمت کے خاتمے کا ہے سہرا بندھا ہوا

بند ۶۳
تنزیل قل کفیٰ کا ہے سہرا علی کے سر
معراج ہل اتیٰ کا ہے سہرا علی کے سر
لا سیف و لافتیٰ کا ہے سہرا علی کے سر
تطہیر و انما کا ہے سہرا علی کے سر
مل کر خدا رسول نے دولہا بنا یا ہے
قرآں کا سہرا آل کی کشتی میں آیا ہے

بند ۶۴
سہرا علی کے سر ہے خدا کے کلام کا
سہرا علی کے سر ہے قعود و قیام کا
سہرا علی کے سر ہےمحمد کے نام کا
سہرا علی کے سر ہےدرود و سلام کا
سب کی گرہ کشائی کا سہرا علی کے سر
المختصر خدا کا سہرا علی کے سر

بند ۶۵
اک اک کلی ہی سہرے کے تھے محو انس و جاں
جو باندھا اور بازیٔ آتش نے اک سماں
تارے تھے پھول آگ کے ، چکر تھا آسماں
چھٹتی تھیں اہل کفر کے منہ پر ہوائیاں
شادی میں غم سے کفر جو سینہ فگار تھا
ہر اہل نار کا دل سوزاں انار تھا


جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۶۶
لو عقد کے تمام مراحل ہوئے تمام
عورات میں ہے آرسی مصحف کا اہتمام
لایا ہے عرش ، لوح کا آئینہ لا کلام
عصمت اِدہر ہے بیچ میں قرآں اُدہر امام
آنکھیں رسول کی ہیں علی کی نگاہ میں
عینِ خدا ہے بنتِ نبی کی نگاہ میں

بند ۶۷
سب رسمیں حد شرع میں جب ہوچکیں ادا
ہر صاحبِ ولا نے سلامی میں دل دیا
لائی جو وحی خلعتِ مرضیٔ کبریا
قرآں نے بڑھ کے پیش کیا تاجِ انما
قدرت قلم کو سونپ کے محفوظ ہوگئی
دامن میں آکہ لوح بھی محفوظ ہوگئی

بند ۶۸
جو کچھ تھا جس کے پاس علی پر کیا نثار
اسلام نے کتاب، شجاعت نے ذولفقار
بیٹی رسول نے جو عطا کی بصد وقار
بس دے دیا خدا نے خدائی کا اختیار
مختار کائنات یداللہ ہوگئے
نوشاہ کیا بنے کہ شہنشاہ ہوگئے

بند ۶۹
غلمان و حور و قدسی و ابدال و انبیا
خدمت میں سن نے پیش کیا تحفۂ ولا
آدم جو لائے نذر کو صفوت بصد صفا
کشتی میں شکر لے کے بڑھے نوحِ ناخدا
بولے خلیلِ رب مری خلت نثار ہے
خلت کا ذکر کیا کہ امامت نثار ہے

بند ۷۰
غل ہر طرف ہے تحفۂ ادنیٰ قبول ہو
ایوب صبر لایاہے مولیٰ قبول ہو
خالق کے شیر ہیبتِ موسیٰ قبول ہو
یوسف کا حسن زہدِ مسیحا قبول ہو
سب انبیا کے وصف یداللہ پا گئے
جلوے سمٹ کے مرکز اصلی پہ آگئے

بند ۷۱
لو اب ودائے بنت نبی کی ہے دھوم دھام
تھوڑا ہے مہر ، کہتے ہیں آپس میں تلخ کام
سر خم کیا علی نے جو سن سن کے یہ کلام
شرم و حیا سے اور بھی دولہا بنا امام
ناگاہ حکم آیا خدائے عزیز کا
دونوں جہاں ہیں مہر ہماری کنیز کا



جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۷۲
بنتِ نبی کا مہر ہے آب و نمک تمام
پھر ان سے جو عناد رکھے وہ نمک حرام
انصاف اب دلوں میں یہ فرمائیں خاص و عام
مادر کا مہر نہر ہے بیٹا ہے تشنہ کام
کہتا ہے رحم کھاؤ پیمبر کے واسطے
اک جامِ آب دو علی اصغر کے واسطے

بند ۷۳
دیکھو جہیز دخترِ سردارِ انبیا
کُل ایک مِس کا جام ہے اور ایک بوریا
دو چادریں ہیں تارِ نظر سے جنہیں سیا
اک مشک، ایک کاسۂ چوبی، اک آسیا
سب ہیں وہ رنگ ڈھنگ جو حق کو پسند ہیں
زیور میں صرف چاندی کے دو بازو بند ہیں

بند ۷۴
کیوں یارو اس جہیز کا انجام کیا ہوا
سب کربلا میں نذرِ سپاہِ جفا ہوا
مشکیزے پر حسین کا بازو فدا ہوا
تیروں سے مثلِ سینۂ شہ تھا چھنا ہوا
شبیر کربلا میں جو زینب سے چھٹ گئے
چادر بھی بازو بند بھی مقتل میں لٹ گئے

بند ۷۵
ناقہ منگایا سرور گردوں رکاب نے
دی بڑھ کے طرِقُوا کی صدا شیخ و شاب نے
روکی قنات عمِ رسالت مآب نے
تھرا کے منہ کو پھیر لیا آفتاب نے
ستر ہزار حوریں تھیں حلقہ کئے ہوئے
امت کا پردہ پوش تھا پردہ کئے ہوئے

بند ۷۶
نعرہ یہ تھا نقیب جلالت کا باربار
خاتونِ دوجہاں کی سواری ہے ہوشیار
زہرا قریبِ ناقہ جو پہنچیں بصد وقار
بازو پکڑ کے شاہِ رسل نے کیا سوار
غل تھا ہٹو کہ جاتی ہے بیٹی رسول کی
دولہا کے گھر چلی ہے سواری بتول کی

بند ۷۷
دیکھو شکوہِ بنتِ سلیمانِ دو جہاں
محبوبِ رب، عقب میں سواری کے تھے رواں
ناقہ بڑھا رہے تھے عصا سے بہ عزو شاں
سلمان سا نبی کا صحابی تھا سارباں
یا فاطمہ غلام کا دل تھر تھرا گیا
اس وقت ساربانِ حرم یاد آگیا


جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۷۸
سب مرد تھے سواریٔ بنتِ نبی سے دور
ہمراہ تھیں زنانِ مدینہ بصد سرور
آگے رسول پاک کی ازواج ذی شعور
پیچھے برہنہ تیغیں لیے ہاشمی غیور
ناقہ پہ زوجۂ اسد ذوالجلال تھی
دیکھے اِدھر پرند کوئی، کیا مجال تھی

بند ۷۹
گردوں کے دور میں یہ سواری تھی یادگار
واحسرتا کہ بھول گیا چرخ کجمدار
رونے کی جا ہے دختر زہرا کا حالِ زار
سر ننگے، نے کجاوے کے ناقہ پہ تھی سوار
واں فاطمہ کے ساتھ رسولِ قدیر تھے
یاں عابد مریض تھے وہ بھی اسیر تھے

بند ۸۰
واں دم بدم نقیب کے لب پر تھی یہ صدا
منہ ڈھانپ لو کہ ناقہ پہ ہے بنتِ مصطفیٰ
یاں تھی قدم قدم پہ منادی کی یہ ندا
یہ سر حسین کا ہے یہ ہے زینب ہے بے ردا
دیکھو رسن میں بنتِ شہ دستگیر ہے
عباس نامدار کی خواہر اسیر ہے

بند ۸۱
پردے میں واں تھی بنتِ شہنشاہِ مشرقین
یاں بے نقاب فاطمہ زہرا کی نور عین
واں تھیں مخدرات رجز خواں بہ زیب و زین
یاں پڑھ رہاتھا کہف کا سورہ سرِ حسین
کہتی تھی روحِ مریم و حوا دہائی ہے
مشکل کشا کی لاڈلی بندی میں آئی ہے

بند ۸۲
حوریں وہاں تھیں ساتھ بصد شوکت و جلال
یاں فاطمہ کی روح پریشاں کیے تھی بال
پر مارنے کی واں نہ پرندے کو تھی مجال
یاں تازیانے مارتا تھا شمرِ بد خصال
عباس تھے مدد کو نہ شاہِ جلیل تھے
خوں بہ رہاتھا جسم سے شانوں پہ نیل تھے

بند ۸۳
جب حد سے بڑھ گیا ستمِ شمرِ نابکار
منہ کرکے کربلا کو پکاری یہ سوگوار
سوتے ہو کیا ترائی میں عباس نامدار
آؤ مدد کو اے علی اکبر پھوپھی نثار
سن سن کے شور خواہر بیکس کے بین کا
کروٹ بدل کے رہ گیا لاشہ حسین کا



جاری ہے
 

فاخر رضا

محفلین
بند ۸۴
سُن سُن کے خواہر شہ مظلوم کی بکا
واں فاطمہ تڑپتی تھیں یاں ہند باوفا
کہتی تھی سر کو پیٹ کے وہ غم کی مبتلا
ہے صاف صاف یہ تو مری بی بی کی صدا
کب تک ہجوم یاس میں آنسو بہاؤ ں گی
میں قیدیوں کی دیک کو زنداں میں جاؤں گی

بند ۸۵
استادہ ہوگئیں جو قناتیں اِدھر اُدھر
زنداں کی سمت گھر سے چلی ہندِ خوش سیر
نے ہوش و بے حواس و پریشاں و بے خبر
آنکھوں میں اشک اسیروں میں دل راہ پر نظر
تن سوز غم سے شمع کی صورت گھلا ہوا
چادر زمیں پہ کھنچتی ہوئی سر کھلا ہوا

بند ۸۶
پہنچی جو قید خانے میں ہند نکو سیر
دیکھا کہ اک مریض پڑا ہے قریب در
روتا ہے واں کوئی نہ کوئی پیٹتا ہے سر
ہاتھوں سے دل پکڑ کے پکاری وہ نوحہ گر
دم پر بھی بن گئی مگر آفت گھٹی نہیں
تپ میں بھی اس غریب کی بیڑی کٹی نہیں

بند ۸۷
آنسو بہا کے شانہ ہلایا جو چند بار
اک بار آنکھیں کھول کے بولا نحیف و زار
بیکس کو کیوں اٹھاتی ہو اماں پسر نثار
کیا روکے مرگیا کوئی معصومِ دلفگار
پیدا ہوئے ہیں اشک بہانے کے واسطے
اٹھتے ہیں ہم جنازہ اٹھانے کے واسطے

بند ۸۸
وہ بولی سب کی خیر ہے اے زار و باتواں
میں ہوں کنیز آپ کی مادر نہیں، یہاں
مشتاقِ دید آئی ہوں زنداں کے درمیاں
اتنا مجھے بتائیں اے یوسفِ زماں
اسمِ شریف کیا ہے؟ کہا سوگوار ہے
پوچھا پدر کانام ، کہا بے دیار ہے

بند ۸۹
پوچھا کہاں لٹے ہو، کہا حق کی راہ میں
پوچھا یہ کب، کہا کہ محرم کے ماہ میں
پوچھا یہ کیوں، کہا کہ محبوں کی چاہ میں
پوچھا پدر کہاں ہیں، کہا قتل گاہ میں
پوچھا جو گھر تو روکے کہا قید خانہ ہے
پوچھا غذا میں کیا ہے کہا تازیانہ ہے

بند ۹۰
تم لوگ قید ہوکے جب آئے تھے ننگے سر
دیکھے تھے میں نے آنکھ سے دوسر لہو میں تر
اک فرق میں خدا کی تجلی تھی جلوہ گر
تھی دوسرے میں شان محمد کی سربسر
اُ س دم سے اضطراب میں یہ دلملول ہے
بانو کا ایک لال شبیہِ رسول ہے

بند ۹۱
یہ کہ کہ ضعف سے جو ہوا چپ وہ ناتواں
روتی ہوئی وہاں سے بڑھی ہند خستہ جاں
زانو پہ سر دھرے ہوئے بیٹھی تھیں بیبیاں
تسلیم کرکے خاک پہ بیٹھی وہ قدر داں
بولی جفا پسند نہیں حق پسند ہوں
کچھ درد دل سناؤ کہ میں درد مند ہوں

بند ۹۲
یہ کہ کے پھر کنیزوں سے بولی کہ جلد جاؤ
جس سر نے میری جان نکالی ہے اس کو لاؤ
احمد کی شکل ہے کہ نہیں ان کو بھی دکھاؤ
میں غم زدہ ہوں میری مصیبت پہ رحم کھاؤ
یہ فکر ہے کہ شاہ کی حالت نہ غیر ہو
یا کبریا شبیہِ پیمبر کی خیر ہو

بند ۹۳
یہ سن کہ اک کنیز گئی اٹھ کے جلد تر
کچھ دیر بعد آکے پکاری بچشم تر
لائی تھی میں جو فرق رکا خود قریبِ در
شاید یہ وجہ ہوکہ یہاں سب ہیں ننگے سر
ایسے بھی باحیا نہیں دیکھے زمانے میں
آتا نہیں حجاب سے سر قید خانے میں

بند ۹۴
حیران ہوکے کہنے لگی ہند باوفا
لوگو کوئی بتاؤ کہ یہ ماجرا ہے کیا
کیسی حیا ہے، کیوں نہیں آتا یہ مہ لقا
اک دختر یتیم نے سر پیٹ کر کہا
کس سے حجاب ہے مرے دل کو خبر یہ ہے
ہاں میں سمجھ گئی مرے عمو کا سر یہ ہے

بند ۹۵
ہندِ حزیں پکاری ارے کوئی جلد جاؤ
وہ دوسرا جو سر ہے اسی کو اٹھا کے لاؤ
بچی سے پھر کہا کہ میں واری اِدھر تو آؤ
اپنے چچا کا نام و نسب تو ہمیں بتاؤ
وہ بولی کیا بتاؤں کہ عالم ہے کیا مرا
گھٹتا ہے دم رسن میں بندھا ہے گلا مرا

بند ۹۶
بی بی مرے پدر ہیں شہنشاہِ بیدیار
عمو کا میرے نام علمدارِ نامدار
اُس نے کہا کچھ اور لقب بھی ہے میں نثار
وہ بولی یہ غریب وہ صمصام کردگار
بابا ہے تشنہ کام چچا دلکباب ہے
اُن کا شہید اِ ن کا بہشتی خطاب ہے

بند ۹۷
یہ ذکر تھا کہ آگیا خولی تلخ کلام
لایا سنانِ ظلم پہ اک فرقِ لالہ فام
زندانِ شام نور سے روشن ہوا تمام
اُس سر نے دی ندا مرے بیمار السلام
گھبرا کے اہلِ بیت جو تعظیم کو اٹھے
سجاد کانپتے ہوئے تسلیم کو اٹھے

بند ۹۸
اس سر سے رو کے کہنے لگی ہندِ باوفا
اے سر تو بولتا ہے تو یہ بھی مجھے بتا
کس باخدا کی آل ہے کیا نام ہے ترا
کس باپ کا تو لال ہے کس ماں کا لاڈلا
کیا دخترِ رسول کا لخت جگر ہے تو
قربان جاؤں کیا مرے آقا کا سر ہے تو

بند ۹۹
چلایا کانپ کر یہ سر سرورِ زمن
پیاسا مرا خطاب ہے مقتل مرا وطن
مسموم میرا بھائی ہے قیدی مری بہن
نانا مرا رسول ہے بابا ابوالحسن
احمد کی رونے والی کا لختِ جگر ہوں میں
بی بی حسین بے کس و بے پر کا سر ہوں میں

بند ۱۰۰
غش ہوگئی یہ سنتے ہی ہند نکو سیر
زینب سرِ اخی کو پکاری بچشم تر
نام اپنا کیوں بتادیا یا شاہِ بحر و بر
اس کا نہیں خیال کہ خواہر ہے ننگے سر
پوچھے گی ہند کیا تو ہی زہرا کی جائی ہے
بی بی کا گھر اجاڑ کے زنداں میں آئی ہے

ختم شد

اللہ کا شکر ہے کہ یہ مرثیہ آج اختتام پزیر ہوا۔ خدا سے مزید توفیقات کے لیے دعا گو
فاخر رضا حیدری
 

منہاج علی

محفلین
بند ۸۴
سُن سُن کے خواہر شہ مظلوم کی بکا
واں فاطمہ تڑپتی تھیں یاں ہند باوفا
کہتی تھی سر کو پیٹ کے وہ غم کی مبتلا
ہے صاف صاف یہ تو مری بی بی کی صدا
کب تک ہجوم یاس میں آنسو بہاؤ ں گی
میں قیدیوں کی دیک کو زنداں میں جاؤں گی

بند ۸۵
استادہ ہوگئیں جو قناتیں اِدھر اُدھر
زنداں کی سمت گھر سے چلی ہندِ خوش سیر
نے ہوش و بے حواس و پریشاں و بے خبر
آنکھوں میں اشک اسیروں میں دل راہ پر نظر
تن سوز غم سے شمع کی صورت گھلا ہوا
چادر زمیں پہ کھنچتی ہوئی سر کھلا ہوا

بند ۸۶
پہنچی جو قید خانے میں ہند نکو سیر
دیکھا کہ اک مریض پڑا ہے قریب در
روتا ہے واں کوئی نہ کوئی پیٹتا ہے سر
ہاتھوں سے دل پکڑ کے پکاری وہ نوحہ گر
دم پر بھی بن گئی مگر آفت گھٹی نہیں
تپ میں بھی اس غریب کی بیڑی کٹی نہیں

بند ۸۷
آنسو بہا کے شانہ ہلایا جو چند بار
اک بار آنکھیں کھول کے بولا نحیف و زار
بیکس کو کیوں اٹھاتی ہو اماں پسر نثار
کیا روکے مرگیا کوئی معصومِ دلفگار
پیدا ہوئے ہیں اشک بہانے کے واسطے
اٹھتے ہیں ہم جنازہ اٹھانے کے واسطے

بند ۸۸
وہ بولی سب کی خیر ہے اے زار و باتواں
میں ہوں کنیز آپ کی مادر نہیں، یہاں
مشتاقِ دید آئی ہوں زنداں کے درمیاں
اتنا مجھے بتائیں اے یوسفِ زماں
اسمِ شریف کیا ہے؟ کہا سوگوار ہے
پوچھا پدر کانام ، کہا بے دیار ہے

بند ۸۹
پوچھا کہاں لٹے ہو، کہا حق کی راہ میں
پوچھا یہ کب، کہا کہ محرم کے ماہ میں
پوچھا یہ کیوں، کہا کہ محبوں کی چاہ میں
پوچھا پدر کہاں ہیں، کہا قتل گاہ میں
پوچھا جو گھر تو روکے کہا قید خانہ ہے
پوچھا غذا میں کیا ہے کہا تازیانہ ہے

بند ۹۰
تم لوگ قید ہوکے جب آئے تھے ننگے سر
دیکھے تھے میں نے آنکھ سے دوسر لہو میں تر
اک فرق میں خدا کی تجلی تھی جلوہ گر
تھی دوسرے میں شان محمد کی سربسر
اُ س دم سے اضطراب میں یہ دلملول ہے
بانو کا ایک لال شبیہِ رسول ہے

بند ۹۱
یہ کہ کہ ضعف سے جو ہوا چپ وہ ناتواں
روتی ہوئی وہاں سے بڑھی ہند خستہ جاں
زانو پہ سر دھرے ہوئے بیٹھی تھیں بیبیاں
تسلیم کرکے خاک پہ بیٹھی وہ قدر داں
بولی جفا پسند نہیں حق پسند ہوں
کچھ درد دل سناؤ کہ میں درد مند ہوں

بند ۹۲
یہ کہ کے پھر کنیزوں سے بولی کہ جلد جاؤ
جس سر نے میری جان نکالی ہے اس کو لاؤ
احمد کی شکل ہے کہ نہیں ان کو بھی دکھاؤ
میں غم زدہ ہوں میری مصیبت پہ رحم کھاؤ
یہ فکر ہے کہ شاہ کی حالت نہ غیر ہو
یا کبریا شبیہِ پیمبر کی خیر ہو

بند ۹۳
یہ سن کہ اک کنیز گئی اٹھ کے جلد تر
کچھ دیر بعد آکے پکاری بچشم تر
لائی تھی میں جو فرق رکا خود قریبِ در
شاید یہ وجہ ہوکہ یہاں سب ہیں ننگے سر
ایسے بھی باحیا نہیں دیکھے زمانے میں
آتا نہیں حجاب سے سر قید خانے میں

بند ۹۴
حیران ہوکے کہنے لگی ہند باوفا
لوگو کوئی بتاؤ کہ یہ ماجرا ہے کیا
کیسی حیا ہے، کیوں نہیں آتا یہ مہ لقا
اک دختر یتیم نے سر پیٹ کر کہا
کس سے حجاب ہے مرے دل کو خبر یہ ہے
ہاں میں سمجھ گئی مرے عمو کا سر یہ ہے

بند ۹۵
ہندِ حزیں پکاری ارے کوئی جلد جاؤ
وہ دوسرا جو سر ہے اسی کو اٹھا کے لاؤ
بچی سے پھر کہا کہ میں واری اِدھر تو آؤ
اپنے چچا کا نام و نسب تو ہمیں بتاؤ
وہ بولی کیا بتاؤں کہ عالم ہے کیا مرا
گھٹتا ہے دم رسن میں بندھا ہے گلا مرا

بند ۹۶
بی بی مرے پدر ہیں شہنشاہِ بیدیار
عمو کا میرے نام علمدارِ نامدار
اُس نے کہا کچھ اور لقب بھی ہے میں نثار
وہ بولی یہ غریب وہ صمصام کردگار
بابا ہے تشنہ کام چچا دلکباب ہے
اُن کا شہید اِ ن کا بہشتی خطاب ہے

بند ۹۷
یہ ذکر تھا کہ آگیا خولی تلخ کلام
لایا سنانِ ظلم پہ اک فرقِ لالہ فام
زندانِ شام نور سے روشن ہوا تمام
اُس سر نے دی ندا مرے بیمار السلام
گھبرا کے اہلِ بیت جو تعظیم کو اٹھے
سجاد کانپتے ہوئے تسلیم کو اٹھے

بند ۹۸
اس سر سے رو کے کہنے لگی ہندِ باوفا
اے سر تو بولتا ہے تو یہ بھی مجھے بتا
کس باخدا کی آل ہے کیا نام ہے ترا
کس باپ کا تو لال ہے کس ماں کا لاڈلا
کیا دخترِ رسول کا لخت جگر ہے تو
قربان جاؤں کیا مرے آقا کا سر ہے تو

بند ۹۹
چلایا کانپ کر یہ سر سرورِ زمن
پیاسا مرا خطاب ہے مقتل مرا وطن
مسموم میرا بھائی ہے قیدی مری بہن
نانا مرا رسول ہے بابا ابوالحسن
احمد کی رونے والی کا لختِ جگر ہوں میں
بی بی حسین بے کس و بے پر کا سر ہوں میں

بند ۱۰۰
غش ہوگئی یہ سنتے ہی ہند نکو سیر
زینب سرِ اخی کو پکاری بچشم تر
نام اپنا کیوں بتادیا یا شاہِ بحر و بر
اس کا نہیں خیال کہ خواہر ہے ننگے سر
پوچھے گی ہند کیا تو ہی زہرا کی جائی ہے
بی بی کا گھر اجاڑ کے زنداں میں آئی ہے

ختم شد

اللہ کا شکر ہے کہ یہ مرثیہ آج اختتام پزیر ہوا۔ خدا سے مزید توفیقات کے لیے دعا گو
فاخر رضا حیدری
بھائی سلامت رہیں !!! خدا مزید توفیق عطا فرمائے۔
نسیمؔ صاحب کے مراثی کے قدر دان آج کے زمانے میں کم یاب ہیں۔ آپ کی ہمت کو سلام عرض ہے !
 
Top