اک شمع ضیا بار ہے یا آج قلم ہے
قرطاس، تہ دامنِ قندیلِ حرم ہے
اب جتنا اُجالا ہو سر بزم وہ کم ہے
تفسیرِ تجلی مرا انداز رقم ہے
نور احدیت کا بیاں ہے سرِ مجلس
جو لفظ ہے انوارِ فشاں، رہے سرِ مجلس
ہر گوشہ تاریک ضیا بار ہوا ہے
جو نقطہ ہے وہ مطلع انوار ہوا ہے
ہر دائرہ مہتاب شب تار ہوا ہے
الفاظ سے خورشید نمودار ہوا ہے
جو لفظ ہے وہ شعلہ بداماں ہے روش میں
کرنوں کے سے انداز ہیں حرفوں کی کشش میں
ہر شعر میں بجلی سی چمک جاتی ہے اکثر
انوار کی اک قوس جھلک جاتی ہے اکثر
ہیرے کی طرح بیت دمک جاتی ہے اکثر
پڑھتے ہوئے خود آنکھ چمک جاتی ہے اکثر
جھٹکا جو قلم کو تو شرارے نکل آئے
کاغذ کو جو دیکھا تو ستارے نکل آئے
دن ڈھلنے لگے جب تو فضا اور ہو پُرنُور
افکار کی منزل بھی چراغوں سے ہو معمور
تاریکی شب ، صبحِ معانی سے رہے دُور
تابانی اشعار سے ظلمات ہو کافور
روشن ہو ابھی عالم اسباب کی صورت
ہر شب نظر آئے شبِ مہتاب کی صورت
کیا چیز ہے یہ روشنی، کیا اس کے ہیں حالات
بے وزن ہے ،بے جسم ہے، بے جان ہے بالذات
یہ آئے تو دن آئے، چلی جائے تو ہو رات
ہے تیرہ دلوں کے لئے یہ قبلہ حاجات
جو راہ سے بھٹکے اُسے یہ راہ دکھا دے
ہو دن میں اندھیرا تو شب ماہ بنا دے
یہ روشنی رکھتی ہے زمانے میں کئی رنگ
رہتی ہے اندھیروں سے یہ آمادہ پئے جنگ
محتاج اسی کے ہیں یہاں افسر و اَورنگ
دامانِ نظر اس کے احاطے کے لئے تنگ
پردے بھی پڑیں اس پہ تو پنہاں نہیں رہتی
بن کر یہ چراغِ تہ داماں نہیں رہتی
یہ روشنی اس دہر میں ہے صبح ازل سے
مٹتی ہے قضا سے نہ کبھی دستِ اجل سے
ہوتی ہے نمایاں کبھی پانی میں کنول سے
اشعار میں ڈھل جاتی ہے شاعر کی غزل سے
مطرب کے ترنم میں، مصّور کے قلم میں
نغمات میں شادی کے یہ ہنگامہ غم میں
ہر سمت زمانے میں اسی سے ہے اُجالا
کر دیتی ہے ظلمات کا عالم تہ و بالا
سب اس کے ہیں انداز وہ نرگس ہو کہ لالہ
ہر پُھول میں ہر برگ میں اک رنگ نکالا
پھیلے تو یہ ہو چادرِ کمخواب کی صورت
سمٹے تو بنے کرمکِ شب تاب کی صورت
پردے یہ نگاہوں سے ہٹا دیتی ہے آکر
خلوت میں بھی جلوت سی بنا دیتی ہے آ کر
سوتی ہوئی دنیا کو جگا دیتی ہے آ کر
بند آنکھوں کو بھی سیر کرا دیتی ہے آ کر
تنہائی میں بھی محفل احباب دکھا دے
سو جائیں اندھیرے میں تو یہ خواب دکھا دے
یہ روشنی ہے ذاتِ الٰہی کا اُجالا
یہ نُور ہے ترتیب جہاں بخشنے والا
یہ روزِ ازل سے تھی سرِ عالمِ بالا
اس نُور نے اس منزلِ کونین کو ڈھالا
آنکھیں ہیں تو دیکھو سرِ افلاک یہی ہے
کچھ غور سے جانچو تو تہِ خاک یہی ہے
شاہد ہیں اسی نُور کے ذرّے ہوں کہ تارے
اجرامِ سماوی میں اِسی کے ہیں اشارے
اِس نُور نے کونین میں سب رنگ نکھارے
ہیں اِس کے مظاہر وہ ہوں شعلے کہ شرارے
یوں غُلغلہ برقِ سرِطور نہ ہوتا
کچھ بھی نہیں ہوتا جو یہ اِک نُور نہ ہوتا