مرآۃ العروس از ڈپٹی نذیر احمد

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نعمان

محفلین
محمد عاقل نے جو اصغری کی اس قدر تعریف کی تو بات پکی ہوگئی۔ غرض دونوں سمدھیانے کی صلاح سے یہ امر قرار پایا کہ بقر عید کے اگلے دن اصل خیر سے نکاح ہو۔ اصغری کا باپ دور اندیش خان پہاڑ پر نوکر تھا۔ اس کو خط گیا۔ خط پہنچتے ہی خاں صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔ اصغری کو سب بچوں میں بہت چاہتا تھا۔ فورا رخصت کی درخواست کی۔ جواب صاف ملا۔ بہت زور مارے، ایک نہ چلی۔ جاڑے کی آمد تھی۔ دورہ شروع کو تھا، بےچارگی کیا کرتا۔ قہر درویش بر جان درویش۔ چپ ہو کر بیٹھ رہا۔ لیکن بڑا بیٹا خیر اندیش خان تھا۔ پانسو روپے نقد دے کر اس کو گھر روانہ کیا اور سب پس و پیش سمجھادیا۔ گھر پر زیور، کپڑا، برتن سب پہلے سے موجود تھا۔ خیر اندیش خان نے مکان پر پہنچ کر چاول، گھی، گیہوں، مصالحہ، نمک سب بقدر ضرورت خرید لیا۔ اصغری کے کپڑوں میں مصالحہ ٹکنا شروع ہوا۔ ماں کا ارادہ تھا کہ اصغری کو بڑی بہن سے بڑھ چڑھ کر جہیز ملے۔ جوڑے بھی اس کے زیادہ ہوں برتن بھی استعمال کی وزنی دئیے جائیں۔ زیور کے عدد بھی زیادہ ہوں۔ اصغری آخر اسی گھر میں رہتی تھی۔ جو بات ہوتی اس کو ضرور معلوم ہوجاتی۔ جب اصغری نے سنا کہ مجھ کو آپا سے زیادہ جہیز ملنے والا ہے تو اس کو رنج ہوا اور اس فکر میں ہوئی کی کسی تدبیر سے اماں کو منع کردوں۔ آخر اپنی خالہ زاد بہن تماشا خانم سے شرماتے شرماتے کہا "میں نے ایسا سنا ہے۔ مجھ کو اس نہایت سوچ لگا ہے۔ کئی دن سے نہایت فکر میں تھی۔ الٰہی کیا کروں! اچھا ہوا تم آنکلیں۔ بوجہ ہم عمری تم سے کہنے میں تامل نہیں۔ کوئی اماں کو اتنی بات سمجھا دے کہ مجھ کو آپا سے زیادہ ایک چیز نہ دیں۔"

تماشا خانم نے سن کر کہا "تم بھی بوا کوئی تماشے کی عورت ہو۔ وہی کہاوت ہے، گدھے کو نون دیا، اس نے کہا میری آنکھیں دکھتی ہیں۔ خدا دلواتا ہے۔ تم کیوں انکار کرو؟"

اصغری نے کہا تم دیوانی ہو اس میں کئی قباحتیں ہیں۔ آپا کے مزاج سے تم واقف ہو۔ ان کو ضرور رنج ہوگا۔ ناحق اماں سے بدمزگی ہوگی۔ مجھے سے بھی ان کو بدگمانی پیدا ہوگی۔"

تماشا خانم نے کہا "بوا اس میں بدمزگی کی کیا بات ہے؟ اپنی اپنی قسمت ہے۔ اور سمجھنے کو سو طرح کی باتیں ہیں۔ ان کی بسم اللہ کی شادی ہوئی۔ روزہ کشائی ہوئی۔ چار برس تک منگنی رہی۔ تیز تیوہار ان کا کون سا نہیں ہوا؟ ان کی کسر ادھر سمجھ لیں۔"

اصغری نے کہا "سچ ہے، مگر نام تو جہیز کا ہے۔ چھوٹی کو زیادہ ملے گا تو بڑی کو رنج ہوگا ہی۔ ایک محلے کا رہنا، روز کا ملنا ملانا۔ جس بات سے دلوں میں فرق پڑے، وہ کیوں کی جائے؟"

تماشا خانم نے کہا "بہن ناحق تم اپنا نقصان کرتی ہو۔ اجی، مہینے دو مہینے میں سب بھول جائیں گے۔"

اصغری نے کہا "ابے بی، اللہ اللہ کرو۔ نفع نقصان کیسا؟ کہیں ماں باپ کے دینے سے پوری پڑتی ہے اور جہیز سے عمریں کٹتی ہیں؟ خدا اپنی قدرت سے دے۔ تم اس بات میں اصرار مت کرو۔ نہیں تو میں کوئی دوسری تدبیر کروں گی۔"
 

نعمان

محفلین
غرض اصغری کی ماں تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ بھی سوچ کر اپنے ارادے سے باز رہیں۔ دل میں کہنے لگیں "دینے کے سو ڈھب ہیں دوسری جگہ سمجھ لوں گی۔" الغرض روز مقررہ کو ساعت نیک میں نکاح ہوگیا۔ مبارک سلامت ہونے لگی۔ خیر اندیش خاں ایسا منتظم آدمی تھا کہ اکیلے نے نہایت خوبی کے ساتھ بہن کا بیاہ کردیا۔ باراتیوں کی مدارات اعلی قدر مراتب خوب ہوئی۔ حق حقوق والوں کو خاصی طرح راضی کردیا۔ جب اصغری کی رخصت کا وقت آ پہنچا، گھر میں آفت برپا تھی۔ ماں پر تو نہایت درجے کا صدمہ تھا۔ محلے کی بیبیوں کا یہ حال تھا کہ آ آ کر اصغری کو گلے سے لگا کر روتی تھیں۔ اور ہر ایک کے دل سے دعا نکلتی تھی۔ اصغری ان دعاؤں کا بڑا بھاری جہیز لے کر سسرال میں داخل ہوئی۔ وہاں کی جو رسمیں تھیں، ادا ہوئیں۔ رونمائی کے بعد اصغری خانم کو تمیزدار بہو کا خطاب ملا۔ آگے چل کر تم کو معلوم ہوجائیگا کہ اصغری خانم نے خانہ داری کو کس طرح سنبھالا، کیا کیا مشکلیں اس کو پیش آئیں اور اس نے اپنی عقل سے کیوں کر ان کو رفع کیا۔

ذرا اصغری کی حالت کا اکبری کی حالت سے مقابلہ کرنا چاہيے۔ اصغری کی ماں دوسری بیٹی اور ساس کی دوسری بہو تھی۔ دونوں طرف ارمان اور حوصلے اکبری کے بیاہ میں نکل چکے تھے۔ اکبری سولہ برس کی بیاہی گئی تھی اور اصغری بیاہ کے وقت پوری تیرہ برس کی بھی نہ تھی۔ جب اکبری کا بیاہ ہوا اس کا دولہا محمد عاقل دس روپے کا نوکر تھا اور اصغری کا دولہا محمد کامل ہنوز پڑھ رہا تھا۔ محمد عاقل کی نسبت محمد کامل کم علم اور کم عقل تھا۔ اکبری کامل دو برس تک بچوں کے بکھیڑے سے آزاد رہی اور اصغری کو خدا نے بیاہ کے دوسرے برس ہی چھوٹی سی عمر ماں بنادیا۔ اکبری کو کبھی شہر سے باہر نکلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اصغری برسوں سفر میں رہی۔ پس بہرحال، اصغری کی حالت اکبری کے مقابلے میں اچھی نہ تھی مگر اصغری کی چھٹپن سے تربیت ہوئی تھی۔ روز بروز گھر میں برکت زیادہ ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ اکبری کا نام بھی کوئی نہیں جانتا اور خانم کے بازار میں تمیزدار بہو کا وہ عالیشان محل کھڑا ہے کہ آسمان سے باتیں کرتا ہے اور اصغری خانم کے نام سے ہی وہ خانم بازار مشہور ہوا۔ جوہری بازار میں وہ اونچی مسجد جس میں حوض اور کنواں ہے، تمیزدار بہو ہی کی بنوائی ہوئی ہے۔ خاص بازار سے آگے بڑھے کر لال ڈگی کی بغل میں تمیز گنج اسی کا ہے۔ مولوی محمد حیات کی مسجد میں اب تک بیس مسافروں کو اس کے لنگر خانے سے خمیری روٹی اور چنے کا قلیہ دونوں وقت پہنچا کرتا ہے۔ قطب صاحب میں اولیاء مسجد کے برابر سرائے اسی تمیزدار بہو کی بنوائی ہوئی ہے۔ رمضان کے رمضان فتح پوری میں بمبئی کے چھاپے پانسو قرآن اسی کی طرف سے تقسیم ہوا کرتے ہیں۔ ہزار کمبل آتے جاڑے میں مسکینوں کو اس کے گھر سے ملتے ہیں۔

جب خیر اندیش خان نے اپنے باپ دور اندیش خاں کو اطلاع کی کہ خدا کے فضل و کرم سے خیر و خوبی کے ساتھ ہمشیرہ عزیزہ کا عقد ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ مہر فاطمہ (رض) پر ہوگیا، دور اندیش خان نے دو رکعت نماز نفل شکرانہ ادا کی۔ لیکن بیٹی کی مفارقت کا قلق بہت دنوں تک رہا۔
 

نعمان

محفلین
دسواں باب

دسواں باب: بیاہی ہوئی لڑکیوں کے لیے عمدہ نصیحت

اصغری کے نام شادی ہوجانے کے بعد دور اندیش خان نے جو خط لکھا، وہ دیکھنے لائق ہے۔ اتفاق سے ہم کو اس کی نقل ہاتھ آگئی تھی۔ وہ خط یہ ہے:۔

آرام دل و جانم برخوردار اصغری خانم سلمہا اللہ تعالی۔ دعا اور اشتیاق دیدہ بوسی کے بعد واضح ہو کہ تمہارے بھائی خیر اندیش کے لکھنے سے تمہاری رخصت کا حال معلوم ہوا۔ برسوں سے یہ تمنا دل میں تھی کہ اس فرض کو میں اپنے اہتمام خاص سے ادا کروں مگر حاکم نے رخصت نہ دی۔ مجبور رہا۔ یہ بات تم پر ظاہر ہوئی ہوگی کہ سب بچوں میں تم سے مجھ کو ایک خاص طرح کا انس تھا اور میں اس بات کو بطور اظہار احسان نہیں لکھتا بلکہ تم نے اپنی خدمت گزاری اور فرماں برداری سے خود میرے اور سب کے دل میں جگہ پیدا کی تھی۔ آٹھ برس کی عمر سے تم نے میرے گھر کا تمام بوجھ اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا۔ مجھ کو ہمیشہ یہ بات معلوم ہوتی رہی کہ تمہارے سبب بیگم یعنی تمہاری ماں کو بڑی بے فکری حاصل ہے۔ جب کبھی اس اثناء میں مجھ کو گھر جانے کا اتفاق ہوا، تمہارا انتظام دیکھ ہمیشہ میرا جی خوش ہوا۔ اب تمہارے رخصت ہوجانے سے ایسا نقصان ہوا کہ اس کی تلافی شاید اس عمر میں ہونے کی مجھ کو امید نہیں ہوسکتی۔ خدا تم کو جزائے خیر دے اور اس خدمت کے صلے میں میرے دعاؤں کا اثر تم پر ظاہر ہو۔ خیر اندیش خان کے خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تم نے اکبری خانم سے زیادہ جہیز نہیں لینا چاہا۔ اس سے تمہاری بلند نظری اور عالی ہمتی ثابت ہوتی ہے۔ مگر میں اس کا نعم البدل بھیجتا ہوں۔ وہ یہ خط ہے۔ اس کو تم بطور دستورالعمل کے اپنے پاس رکھو اور ان نصیحتوں پر عمل کرو۔ انشاءاللہ تعالٰی ہر ایک مشکل تم پر آسان ہوگی اور اپنی زندگی آرام و آسائش میں بسر کروگی۔

سمجھنا چاہیے کہ بیاہ کیا چیز ہے۔ بیاہ صرف یہی بات نہیں کہ رنگین کپڑے پہنے، مہمان جمع ہوئے، مال و اسباب و زیور پایا۔ بلکہ بیاہ سے نئی دنیا شروع ہوتی ہے نئے لوگوں سے معاملہ کرنا اور نئے گھر میں رہنا پڑتا ہے۔ جس طرح پہلے بچھڑوں پر جوا رکھا جاتا ہے، آدمی کے بچھڑوں کو جوا بیاہ ہے۔ بیاہ ہوا، لڑکی بی بی بنی، لڑکا میاں بنا۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ دونوں کو پکڑ کر دنیا کی گاڑی میں جوت دیا۔ اب یہ گاڑی قبر کی منزل تک ان کو کھینچنی پڑے گی۔ پس یہ بہتر ہے کہ دل کو مضبوط کرکے اس مہم کا سر انجام کیا جائے اور زندگی کے دن جس قدر ہوں، عزت، آبرو، صلح کاری، اتفاق سے کاٹ دئیے جائیں۔ ورنہ لڑائی بھڑائی، جھگڑے، بکھیڑے، شور و شر، فساد اور ہائے وادیلا سے دنیا کی مصیبت اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔

اب تم کو، اے میری پیاری بیٹی، اصغری خانم، سوچنا چاہیے کہ میاں بی بی میں خدا نے کتنا فرق رکھا ہے۔ مذہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بہشت میں اکیلے گھبرایا کرتے تھے۔ ان کے بہلانے کو خدا نے حضرت حوا کو جو سب سے پہلی عورت دنیا میں گزری ہیں، پیدا کیا۔ پس عورت کا پیدا کرنا صرف مرد کی خوش دلی کے واسطے تھے اور عورت کا فرض ہے، مرد کو خوش رکھنا۔ افسوس کی دنیا میں کس قدر کم عورتیں اس فرض کو ادا کرتی ہیں۔ مردوں کا درجہ خدا نے عورتوں پر زیادہ کیا، نہ صرف حکم دینے سے بلکہ مردوں کے جسم میں زیادہ قوت اور ان کی عقلوں میں روشنی دی ہے۔ دنیا کا بندوبست مردوں کی ذات سے ہوتا ہے۔ مرد کمانے والے اور عورتیں ان کی کمائی کو مناسب موقع پر خرچ کرنے والیاں اور اس کی نگہبان ہیں۔ کنبہ بطور کشتی ہے اور مرد اس کے ملاح ہیں۔ اگر ملاح نہ ہو تو کشتی پانی کی موجوں میں ڈوب جائے گی یا کسی کنارے پر ٹکر کھا کر پھٹ جائے گی۔ کنبے میں اگر مرد منتظم نہیں تو اس میں ہر طرح کی خرابی کا احتمال ہے۔ کبھی نہیں خیال کرنا چاہئیے کہ دنیا میں خوشی صرف دولت سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر چہ اس میں بھی شک نہیں کہ دولت اکثر خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ بہت بڑے اور اونچے گھروں میں لڑائی اور فساد ہم زیادہ پاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ صرف دولت سے تو خوشی نہیں ہوتی۔ برخلاف اس کے اکثر خاندانوں میں خوشی صرف اتفاق اور صلح کاری کے سبب ہے۔ وہ دال روٹی اور گاڑھے دھوتر میں زیادہ آرام سے ہیں، بہ نسبت نوابوں اور بیگم کے جن کا تمام عیش آپس کی ناسازگاری سے تلخ رہتا ہے۔ اے میری پیاری بیٹی اصغری خانم! اتفاق پیدا کرو اور صلح کاری کو غنیمت جانو۔
 

نعمان

محفلین
اب دیکھنا چاہيے کہ اتفاق کن باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ نہ صرف اس بات سے کہ بی بی اپنے میاں سے محبت کرے بلکہ محبت کے علاوہ اس کو میاں کا ادب کرنا بھی لازم ہے۔ بڑی نادانی ہے اگر بی بی میاں کو برابر کے درجے میں سمجھے۔ بلکہ اس زمانے میں عورتوں نے ایسا خراب دستور اختیار کیا ہے جو ادب کے بالکل خلاف ہے۔ جب چند سہیلیاں آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتی ہیں تو اکثر تذکرہ ہوتا کہ فلانی کا میاں اس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ رکھتا ہے۔ ایک کہتی ہے "بوا، میں نے تو یہاں تک ان کو دبایا ہے کہ کیا مجال جو میری بات کو کاٹیں یا الٹ کر جواب دیں۔" دوسری فخر کرتی ہے۔ "جب تک گھڑیوں خوشامد نہ کریں میں کھانا نہیں کھاتی۔" تیسری بڑائی مارتی ہے "میں تو دس مرتبہ پوچھتے ہیں تب ایک جواب مشکل سے دیتی ہوں۔" چوتھی ڈینگ کی لیتی ہے "چاہے وہ پہروں نیچے بیٹھے رہیں، بندی کو پلنگ سے اترنا قسم ہے۔" پانچویں شیخی بگھارتی ہے "جو میری زبان سے نکلتا ہے، پورا کراکے رہتی ہوں۔" شادی بیاہ کے ٹونے ٹوٹکے بھی اس غرض سے نکلے ہیں کہ میاں مطیع و فرماں بردار رہے۔ کہیں تو دلہن کی جوتی پر کاجل پاڑ کر میاں کے سرمہ لگایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر بھر جوتیاں کھاتا رہے اور چوں نہ کرے۔ کہیں نہاتے وقت دلہن کے پاؤں کے نیچے بیڑا رکھا جاتا ہے اور میاں کو کھلایا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنے کہ پیروں پڑتا رہے۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ عورتیں مردوں کا درجہ اور اختیار کم کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن یہ تعلیم بہت بری ہے اور ہرگز قباحت سے خالی نہیں۔ مردوں کو خدا نے شیر بنایا ہے۔ اگر دباؤ زبردستی سے کوئی ان کو زیر کرنا چاہے تو ناممکن ہے۔ بہت آسان ترکیب ان کو زیر کرنے کی خوشامد اور تابعداری ہے۔ اور جو احمق عورت اپنا دباؤ ڈال کر مرد کو زیر کرنا چاہتی ہے وہ بڑی غلطی میں ہے۔ وہ شروع میں تخم فساد بوتی ہے اور اس کا انجام ضرور فساد ہوگا۔ اگرچہ اس کو بالفعل نہیں سمجھتی۔ اصغری خانم! میری صلاح یہ ہے کہ تم گفتگو اور نشست و برخاست میں بھی اپنے میاں کا ادب ملحوظ رکھنا۔ مذہب میں میاں بی بی کے متعلق بہت سے احکام ہیں اور چونکہ تم نے قرآن کا ترجمہ اور اردو کے بہت سے مذہبی رسالے پڑھے ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ وہ احکام تھوڑے بہت ضرور تمہارے خیال میں ہوں گے۔ ان احکام کا مجموعہ خانہ داری کے لیے بڑا دستور العمل ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی تعمیل میں تن دہی نہیں کرتے اور انہیں انواع و اقسام کی خرابیاں پیش آتی ہیں۔ میں نے حدیث کی کتاب میں پڑھا تھا کہ اگر خدا کے سوائے دوسرے کو سجدہ کرنا روا ہوتا تو پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بی بی کو حکم دیتا کہ اپنے میاں کو سجدہ کیا کرے۔ بس اسی بات سے تم خیال کرسکتی ہو کہ میاں بی بی میں کیا نسبت ہے۔ اب اس کے ساتھ ملکی رواج کو ملاؤ کہ بی بی نہ تو میاں کو چھوڑ سکتی ہے، نہ بدل سکتی ہے نہ اس سے کسی وقت کسی حال میں بے نیاز ہوسکتی ہے۔ تو سوائے اس کے کہ سچے دل سے آپ اس کی ہورہے اور اطاعت سے، فرماں برداری سے، خوشامد سے، جس طرح ممکن ہو، اس کو اپنا کرکے، عافیت کی، عزت آبرو کی زندگی بسر کرے، دوسری تدبیر ہے اور نہ ہونی ممکن ہے۔

کیا وجہ ہے کہ شادی بیاہ ایسے چاؤ سے ہوتا ہے اور چوتھی کے بعد ہی بہو سے ساس نند کا بگاڑ شروع ہوجاتا ہے؟ یہ مضمون غور کے قابل ہے۔

بیاہ کے بعد پہلے تک لڑکا ماں باپ میں رہا اور صرف ان ہی کے ساتھ اس کو تعلق تھا۔ ماں باپ نے اس کو پرورش کیا اور توقع کرتے رہے کہ بڑھاپے میں ہمارے خدمت کرے گا۔ بیاہ کے بعد بہو ڈولی سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ماں باپ کو چھوڑ دیں۔ پس لڑائی ہمیشہ بہو کی طرف سے شروع ہوتی ہے۔ اگر بہو کنبے میں مل کر رہے اور کبھی ساس کو معلوم نہ ہو کہ بیٹے کو ہم سے چھڑانا چاہتی ہے تو ہرگز فساد پیدا نہ ہو۔ یہ تو سب کوئی جانتا ہے کہ بیاہ کے بعد ماں باپ کے ساتھ تعلق چند روزہ ہے۔ آخر گھر الگ ہوگا۔ میاں بی بی جدا ہوکر رہیں گے۔ دنیا میں یہی ہوتی آئی ہے لیکن نہیں معلوم کم بخت بہوؤں میں بے صبری کہاں کی پڑجاتی ہے کہ جو کچھ ہونا ہو اسی دم ہوجائے۔ بہوؤں میں ایک عیب چغلی کا ہوتا ہے جو بنیاد فساد ہے۔ وہ یہ کہ سسرال کی ذرا سی بات آ کر ماں سے لگاتی ہیں اور مائیں خود بھی کھود کر پوچھا کرتی ہیں۔ لیکن اس کہنے اور پوچھنے سے سوائے اس کے لڑائیاں پڑیں اور جھگڑے کھڑے ہوں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
 

نعمان

محفلین
بعض بہوؤیں اس طرح کی مغرور ہوتی ہیں کہ سسرال میں کیسا ہی اچھا کھانا اور کیسا ہی اچھا کپڑا ان کو ملے، ہمیشہ حقارت سے دیکھتی ہیں۔ ایسی باتوں سے میاں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ اصغری اس کی تم کو بہت احتیاط چاہیے۔ سسرال کی ہر ایک چیز قابل قدر ہے اور تم کو ہمیشہ کھانا کھا کر اور کپڑے پہن کر بشاشت ظاہر کرنی چاہيے۔ جس سے معلوم ہو کہ تم نے پسند کیا۔ نئی دلہن کو اس بات خیال بھی ضرور رکھنا چاہیے کہ سسرال میں بے دلی سے نہ رہے۔ اگرچہ اوپری ہونے کے سبب اجنبی لوگوں میں جی نہیں لگتا؟ لیکن جی کو سمجھانا چاہیے۔ نہ یہ کہ روتے ہوئے گئے، وہاں رہے تو روتے رہے۔ جاتے دیر نہیں ہوئی آنے کا تقاضا شروع ہوا۔ رفتہ رفتہ انس پیدا کرنے کے واسطے چالوں کا رواج بہت پسندیدہ ہے۔ اس سے زیادہ میکے کا شوق ظاہر کرنا سسرال والوں کو ضرور ناپسند ہوتا ہے۔

گفتگو میں درجہ اوسط ملحوظ رہے۔ یعنی نہ اتنی بہت کہ خودبخود بک بک، نہ اتنی کم کہ غرور سمجھا جائے۔ بہت بکنے کا انجام برا ہوتا۔ جب رات دن کی بکواس ہوگی، ہزاروں طرح کا تذکرہ ہوگا۔ نہیں معلوم کہ کس تذکرے میں کیا بات منہ سے نکل جائے۔ نہ اتنی کم گوئی اختیار کرنا چاہیے کہ بولنے کے واسطے لوگ خوشامد اور منت کریں۔ ضد اور اصرار کسی بات پر زیبا نہیں۔ اگر کوئی بات تمہاری مرضی کے خلاف بھی ہو، اس وقت ملتوی رکھو۔ پھر کسی دوسرے وقت بطرز مناسب طے ہوسکتی ہے۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تم کو اپنے ہاتھوں سے کرنا عار نہ سمجھنا چاہیے۔ چھوٹوں پر مہربانی اور بڑوں کا ادب ہر دلعزیز ہونے کے واسطے بڑی عمدہ تدبیر ہے۔ اپنا کوئی کام دوسروں کے ذمے نہیں رکھنا چاہیے اور اپنی کسی چیز کو بےخبری سے پڑا نہ رہنے دو کہ دوسرے اس کو اٹھالیں گے۔ جب دو آدمی چپکے چپکے باتیں کریں، ان سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔ پھر ان کی تفتیش بھی مت کرو کہ یہ آپس میں کیا کہتے تھے اور خواہ مخواہ یہ بھی مت سمجھو کہ کچھ ہمارا ہی تذکرہ تھا۔ اپنا معاملہ شروع سے ادب لحاظ کے ساتھ رکھو۔ جن لوگوں میں بہت جلد حد درجے کا اختلاط پیدا ہوجاتا ہے اسی قدر جلد ان میں رنجش پیدا ہونے لگتی ہے۔ فقط میں چاہتا ہوں کہ تم ہرروز بلاضرورت بھی اس خط کو کم سے کم ایک دفعہ پڑھ لیا کرو تاکہ اس کا مطلب پیش نظر رہے، والدعا۔

حررہ
خیر اندیش خان

باپ کا خط پا کر اصغری کے دل میں جوش محبت نے عجیب اثر پیدا کیا اور بے اختیار رونے کو جی چاہا۔ لیکن نئی بیاہی تھی، سسرال میں رو نہ سکی۔ ضبط کو کام میں لائی اور باپ کے خط کو آنکھوں سے لگا بہت احتیاط سے وظیفے کی کتاب میں رکھ لیا۔ ہر روز بلاناغہ اس کو پڑھتی اور اس کے مطلب پر غور کرتی تھی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top