مذہب اور سائنس کا تقابل

اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔
اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔
اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپکو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عموماً بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور انکی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔
مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم، پابندیوں اور جانچ-پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا کہ یورپ میں انکے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو برا برتاؤ کیا، انکے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے چھین لینا، انکی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کردیا، مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا، اسلام کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اسکے برعکس، مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے، سیکھنے سکھانے اور غور و فکر، بجا لانے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو مسلم دنیا میں لانے کے خواہاں ہیں، اسلامی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔
مستفاد:
شیخ سلمان بن فہد العودہ کی ایک انگریزی تحریر سے اقتباس
’انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘، عبدالحمید ایم اے،
 
مذہب اور سائنس کا تقابل



مجھے ایک بات جو کبھی سمجھ میں نہیں آئی وہ سائنس اور مذہب کا تقابل ہے۔ اس نکتہ پر میں بارہاں اپنی مختلف تحاریر میں اشارہ کرتا رہا ہوں اور سوال یہ ہے کہ سائنس اور مذہب کو آمنے سامنے لا کر کس لیے کھڑا کیا جائے؟ جواب میں بہت ساری باتیں کی جاتی ہیں لیکن آج تک مکمل طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکا ہے کہ سائنس اور مذہب کا اختلاف کیا ہے؟ میں فی الحال سائنس کے یا مذہب کے کسی خاص نظریہ یا عقیدہ پر نہیں بلکہ ان دونوں کے اجمالی مقاصد کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہا ہوں۔
کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ان کے عقائد کو ایک اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کسی مذہب کے خدا، اس کے پیغمبر اور ان کے نظریات (جب تک کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو ان کی وجہ سے جانی اور مالی یا کسی اخلاقی قسم کا نقصان نہ پہنچے تب تک) کسی خطرے اور کشیدگی کا باعث نہیں ہوتے۔ درمیان مذاہب البتہ اونچ نیچ اور گرمی و سردی کے موسم آتے رہتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ مذاہب کا مقدمہ بنیادی طور مندرجہ ذیل نکات پر مبنی ہوتا ہے:
۱۔ اخلاقی اقدار، معاشرت کے قوانین اور ان کے نفاذ کی کوشش۔
۲۔ مقصودِ کائنات اور انسان کی زندگی کا مقصد۔
۳۔ الہیات کی گتھیوں کا حل۔
اپنے اپنے ادوار میں مختلف فلاسفہ نے مذاہب سے مطابقت اور مخالفت میں ان تینوں نکات پر اپنی آراء دنیا کے سامنے رکھی ہیں۔ لیکن یہ تینوں ہی نکات ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں اور رہیں گے۔ کیونکہ ان میں رفعِ تنازع کے لیے کوئی حتمی کسوٹی آج تک میسر نہیں آسکی جو ہر ایک کے لیے حجت بن سکے۔
اس کے برعکس سائنس کا موضوع “فطرت کے قوانین کی تفہیم ہے”۔ کائنات میں ظہور پذیر ہونے والے مظاہر کے مادی اسباب کا استقرائی بنیادوں پر تلاش کرنا اور ان اسباب کا استعمال انسانی فلاح و بہبود کے لیے ممکن بنانا سائنس کا کام ہے۔
اب ایک بات تو یہ طے ہوگئی کہ مذہب اور سائنس دونوں کا موضوع مختلف ہے۔ اور جب موضوع مختلف ہے تو تنازع “مذہب اور سائنس” میں تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہاں بالواسطہ اگر کوئی سائنسی علوم کو مذہب کے خلاف ہتھیار بناتا ہے اور چند ایک نظریات کو ڈھال بنا کر مذاہب کا پورا مقدمہ دریا برد کرنا چاہتا ہے تو ہم ایسی صورت میں سائنس کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے۔ درحقیقت وہ لوگ جو مذاہب کے خلاف سائنس کو ڈھال یا ہتھیار بنا کر استعمال کر رہے ہیں وہ نہ تو سائنس کے نفسِ مضمون سے واقف ہیں نہ مذہب کے مقدمہ کا انہیں دماغ ہے۔ ایسے لوگوں کو سلام کرکے ان سے رخصت چاہنا مناسب ہے۔
دوسری طرف اگر کوئی مذہب کو بنیاد بنا کر سائنس کو مردود جانتا ہے تو وہ بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہے کہ سائنس کو صرف اسی کے مذہب سے دشمنی ہے۔
سائنس ایک ایسا علم ہے جس کی تدوین اور ترقی کے لیے تمام مذاہب بشمول ملحدین کے، انسانوں نے صدیوں محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا ہے۔ اسی طرح اس کے فوائد سے بھی تمام مذہبی اور لامذہب غرض ہر قسم کے افراد بہرہ ور ہوئے۔ تو پھر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ سائنس کسی خاص مذہب یا اعتقاد رکھنے والوں کی جاگیر نہیں جن سے اسے منسوب کیا جاسکے۔ ایسے میں سائنس کے چند ایک نظریات کو صرف اس بنیاد پر مردود جاننا کہ ان سے ہمارے مخالف کو جلا ملتی ہے، یا پھر یہ کہنا کہ سائنس مذہب کے مخالف کوئی چیز ہے، یا یہ کہ سائنسی نظریات ان لوگوں سے مخصوص ہیں جو مذہب کو نہیں مانتے، یہ ساری باتیں مناسب نہیں ہیں۔
ہم جب یہ مان لیتے ہیں کہ سائنس کا کام صرف اور صرف مظاہر کے مادی اسباب تلاش کرنا ہے تو پھر اس تلاش میں جو بھی منطقی نظریات وجود میں آئیں گے انہیں غیر جانب دار ہوکر تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ تو کسی مذہب کے نفسِ مضمون کو نقصان پہنچتا ہے نہ کسی مخالفِ مذہب کو اس سے مذہب کی مخالفت میں بولنے کا کوئی جواز ملتا ہے. کوئی بھی نظریہ جو سائنس سے تعلق رکھتا ہے وہ چونکہ مظاہر کے ظہور پذیر ہونے کی مادی توجیہہ ہوتی ہے اور ایسی تمام توجیہات عقل اور استقراء کی مطابقت سے کشید کردہ ایک لازم نتیجہ ہوتی ہیں. اس لیے اسے انہی حدود میں رہتے ہوئے تسلیم کرنا چاہیے۔
یہاں تک آنے میں ہم نے اس بات کو سمجھا ہے کہ سائنس اپنے موضوع میں ایک ایسا علم ہے جس کے بنیادی مقاصد سے کسی مذہب کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ سائنس مذہب اور الحاد کی بحث سے قطعاً کوئی تعلق نہیں رکھتی۔
اب جو حضرات مذہب کی حمایت کو بنیاد بنا کر سائنسی نظریات کو رد کرتے ہیں وہ بے شک رد کریں۔ لیکن کم از کم اس کی ماہیت کو ضرور سمجھیں تاکہ رفعِ تعارض کی کوئی راہ نکل سکے۔ جب بات مادی توجیہہ کی آئے گی تو سائنس کو حرفِ آخر ماننا پڑے گا۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ زمین پر چیزیں اس لیے گرتی ہیں کیونکہ کشش ثقل انہیں اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اب اس کے برعکس اگر کوئی یہ بحث کرے کہ نہیں صاحب، زمین پر چیزیں خدا کے حکم سے گرتی ہیں۔ اور کشش ثقل کا کوئی وجود نہیں۔ تو ایسا کرنے والا در اصل سائنس کے مقدمے کو سمجھ نہیں پارہا۔ جب بات ہی مادی اسباب کی ہے تو مجرد اسباب پر زبردستی کرنا ایک غیر اصولی بات ہے۔
اسی طرح سائنس کے کسی نظریہ کو بنیاد بنا کر مذاہب کے مخالف بولنے والے در اصل مذہب کے نفس مضمون اور سائنسی مقاصد کے درمیان کا فرق ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ اور اپنے نظریات کا پرچار کرنے کی خاطر سائنس کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ سائنس کا موضوع نہ تو الہیات کے معاملات میں ٹانگ اڑانا ہے، نہ اخلاقیات اور معاشرت کے قوانین بنانا۔ اب اسی کو مدِ نظر رکھ کر اگر نظریۂ ارتقا کی بحثوں کو دیکھا جائے تو وہاں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔
نظریۂ ارتقا کو اس طرح سے زیرِ بحث لانے کی روایت در اصل عیسائی انتہا پسندوں کے بعد سے شروع ہوئی ہے۔ اور اس طرح کی بحث ہم نے عوامی فورمز اور ان لوگوں میں تو دیکھی ہے جو اکیڈیمکلی نظریۂ ارتقا کو نہیں پڑھ چکے۔ تاہم جب ہم کلاس روم میں اس نظریہ کو پڑھتے ہیں یا کوئی بھی گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ طالب علم اسے پڑھتا ہے تو اس کا موضوع مذہب یا صرف انسان نہیں ہوتا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان کو پڑھا نہیں جاتا۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس طرح نہیں پڑھا جاتا جس طرح عوامی فورمز میں ہم اسے ارتقا کی حیثیت سے بلا واسطہ مباحث میں لایا کرتے ہیں۔ ہم بلا واسطہ یہ نہیں پڑھتے کہ انسان کا ارتقا کیسے ہوا؟ بلکہ یہ پڑھا جاتا ہے کہ ٹیکزونومکل حیثیت سے کیا کیا تبدیلیاں جانوروں کے مختلف فائلمز میں آرہی ہیں۔ مثلاً گیسٹرو ویسکیولر کیویٹی کن مراحل سے گزر کر “ہائڈرا” سے انسان تک پہنچ کر گیسٹرو انٹیسٹائنل ٹریکٹ بناتی ہے۔ اسی طرح نان ویسکیولر سے ویسکیولر پلانٹس کس طرح ایک سیکوینس میں رکھے جارہے ہیں۔ پودے کی جڑ کی ابتدائی اور انتہائی صورتوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔
کوئی مستند بائیولاجسٹ کبھی اس طرح بحث کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا کہ وہ سارا زور انسان کے ارتقا پر لگا کر اسے منوانے کی کوشش کر رہا ہو۔ جبکہ اسے بطور سائنس پڑھنے والے ہر قسم کے مذہب اور لامذہب لوگ بھی ہیں۔ اس بحث کو بڑھاوا دینے والے دو ہی قسم کے لوگ دیکھے گئے ہیں۔ ایک تو مذہبی شدت پسند عیسائی اور مسلمان یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے جارح قسم کے افراد۔ اور دوسرے وہ شدت پسند دہریے یا ملحد جو کسی بھی صورت میں نظریۂ ارتقا کی کسی کمزوری کو ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔
میری ناقص رائے میں دونوں ہی ایک لاحاصل بحث میں مبتلا ہیں۔ ایسی بحث سے نہ سائنس کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ اس کے مقاصد میں کوئی کمی یا زیادتی ہوتی ہے۔ کام کرنے والے اپنے کاموں میں ہمیشہ سے مصروف ہیں۔ وہ مصروف رہیں گے۔ ہاں اپنے نظریات میں جارحیت پسند لوگ ہمیشہ ان چیزوں میں بھی اختلافات کے اسباب تلاش کرتے رہے ہیں جن میں اختلاف تھا ہی نہیں۔ اور یہی بات سائنس کے لیے مذہب کو اور مذہب کے لیے سائنس کو شجرِ ممنوعہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
 
مذہب کیخلاف جدید سائنسی مقدمہ اور پسند نا پسند کا اثر


دھٹکر چیمبرز نے اپنی کتاب شہادت میں اپنے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جو بلا شبہ اس کی زندگی کے لئے ایک نقطہ انقلاب بن سکتا تھا وہ اپنی چھوٹی بچی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر بچی کے کام پر جا پڑی اور غیر شعوری طور پر وہ اس کی ساخت کی طرف متوجہ ہو گیا اس نے اپنے جی میں سوچا یہ کتنی غیر ممکن بات ہے کہ ایسی پیچیدہ اور نازک چیز محض اتفاق سے وجود میں آجائے یقیناً یہ پہلے سے سوچئ سمجھے نقشے کے تحت ہی ممکن ہوئی ہو گی مگر اس نے جلد ہی اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دیا کیونکہ اسے احساس ہوا کہ اگر وہ اس کو ایک منصوبہ مان لے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسے منصوبہ سا ز (خدا) کو بھی ماننا ہو گا اور یہ ایک ایسا تصور تھا جسے قبول کرنے کیلئے اس کا ذہن آمادہ نہیں تھا۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ٹامس ڈیوڈ پارکس لکھتا ہے۔
” میں اپنے پروفیسروں اور ریسرچ کے سلسلے میں اپنے رفقاء کار میں بہت سے سائنسدانوں کے بارے میں جانتا ہوں کہ علم کیمیا اور طبعیات کے مطالعہ و تجربہ کے دوران میں انہیں بھی متعد و مرتبہ اس طرح کے احساسات سے دو چار ہونا پڑا“۔
)The evidence of God in an expanding Universe Edited by john clover monsma p.73-74 (
کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ایسا موڈ جو خدا کی رہنمائی کی طرف اشارہ کرتا ہے وہیں سےآدمی الٹی سمت میں مڑجاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ کوئی علمی دریافت نہیں بلکہ محض ذاتی پسند کو فوقیت دینا ہے.
نظریہ ارتقا کی مثال ہمارے سامنے ہے ، اس کا تصور یک طرفہ تمام علمی شعبوں پر چھاپا جارہا ہے ہر وہ مسئلہ جس کو سمجھنے کے لئے خدا کی ضرورت تھی اس کی جگہ بے تکلف ارتقا کا ایک خو بصورت بت بنا کر رکھ دیا گیا ہے مگر دوسری طرف عضویاتی ارتقا کا نظریہ جس سے تمام ارتقائی تصورات اخذ کئے گئے ہیں اب تک بے مشاہد اور بے دلیل ہے حتی کہ بعض ریسرچرز نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ اس تصور کو ہم صرف اس لئے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس موجود نہیں ہے ، سر آرتھ کیتھ نے ۱۹۵۳ء میں کہا تھا۔
“Evolution is unproved and unprovable We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable”
Islamic Thought, dec 1961)
یعنی ارتقاء ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ہم اس پر صرف اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے۔ گویا سائنسداں ارتقاء کے نظریے کی صداقت پر صرف اس لئے متفق ہو گئے ہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انہیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا۔
ظاہر ہے کہ جو لوگ مادی طرز تعبیر کے حق میں اس قسم کے تعصبات رکھتے ہوں وہ انتہائی کھلے ہوئے واقعات سے بھی کوئی سبق نہیں لے سکتے تھے اور ہمیں اعتراف ہے کہ ایسے لوگوں کو مطمئن کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔
اس تعصب کی بھی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے بقول ایک امریکی عالم طبعیات :
”خدا پرستی کی معقولیت اور انکا ر خدا کا پھسپھا پن بجائے خود ایک آدمی کے لئے عملاً خدا پر ستی اختیار کرنے کا سبب نہیں بن سکتا لوگوں کے دل میں یہ شبہ چھپا ہوا ہے کہ خدا کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہو جائے گا وہ علماء جو ذہنی آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں آزدی کی محدودیت کا کوئی بھی تصور ان کے لئے وحشتناک ہے “۔
The Evidence Of God p.130
چنانچہ جو لین ہکسلے نے نبوت کے تصور کو نا قابل برداشت اظہار برتری قرار دیا ہے کیونکہ کسی کو نبی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کویہ حیثیت دی جائے کہ اس کی بات خدا کی بات ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ جو کچھ کہے تمام لوگ اس کو قبول کر لیں۔ لیکن جب انسان کی حیثیت یہی ہے کہ وہ خالق نہیں مخلوق ہے وہ خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہے تو اس صورت واقعہ کو کسی خود ساختہ تصور کی بنا پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم حقیقت کو بدل نہیں سکتے ہم صرف اس کا اعتراف کر سکتے ہیں۔ ۔اگر تو انسان بالکل کسی کی اظہار برتری کو خاطر میں نا لاتا ہو پھر تو اس معاملے میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ ہم صرف انکی برتری کو قبول کیوں کریں، جب قوانین کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے تو بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اور سچ ہے اسے مان لیں، نہ کہ چند حیلوں سے اس کا انکار کر دیں۔ حقیقت کا انکار کرکے آدمی صرف اپنا نقصان کرتا ہے وہ حقیقت کا کچھ نہیں بگاڑتا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ سائنس کا آخری حقیقت کے پتہ لگانے میں بے بسی کے واضح ہوجائے کے باوجود ، عملی طور پر منکرین خدا کے ذہن میں کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں ہوا.بلکہ اس کے برعکس انکارخدا کے وکیل نئے نئے ڈھنگ سے اپنے دلائل کو ترتیب دینے میں لگے ہوئے ہیں . تاریخ بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہےکہ حقیقت ظاہر ہوجانے کے باوجود انسان نے محض اس لئے اس کو قبول نہیں کیا کہ تعصب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا. یہی تعصب تھا جب انیسویں صدی کے آخر میں برلن کے پروفیسر ماکس پلانگ نے روشنی کے متعلق بعض ایسی تشریحات پیش کیں جو کائنات کے نیوٹنی تصور کو غلط ثابت کر رہی تھیں تو وقت کے ماہرین نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور عرصہ تک اس کا مذاق اڑاتے رہے.حالانکہ آج وہ کو انٹم تھیوری کی صورت میں علم طبیعات کے اہم اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے. اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ تعصب دوسرے لوگوں میں تو ہوسکتا ہے مگر سائنس دانوں میں نہیں ہوتا،تو اس میں ایک سائنس دان کا قول یاد دلاؤں گا ۔ڈاکٹر ہلز (A.V. Hills) لکھتے ہیں
I should be the last claim that we scienctific men, are less liableto prejudice than other educated men. Quoted by A.N Gilkes, Faith for modren man,p.109
یہ میں آخری شخص ہوں جو اس بات کا دعوی کرتا ہوں گا کہ ہم سائنس دان دوسرے تعلیم یافتہ لوگوں کے مقابلہ کم تعصب رکھنے والے ہوتے ہیں . اب ایک ایسی دنیا کی کار فرمائی ہو،یہ امید کیسی کی جاسکتی ہے کہ کوئی تصور محض اس لیے قبول کرلیا جائے کہ وہ علمی طور پر ثابت ہوگیا ہے .
تاریخ کا طویل تجربہ ہے کہ انسان کے رہنما اس کے جذبات رہے ہیں ، نہ کہ اس کی عقل . اگرچہ علمی اور منطقی طور پر عقل ہی کو بلند مقام حاصل ہے .مگر زیادہ تر ایسا ہوا ہے کہ عقل خود جذبات کی آلہ کار ررہی ہو. بہت کم ایسا ہوا کہ وہ جذبات کو اپنے قابو میں کر سکی ہو. عقل نے ہمیشہ جذبات کے حقائق میں دلائل تراشے ہیں . اور اسی طرح اپنے جذباتی رویہ کو عقلی رویہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ،خواہ حقیقت واقعہ انسان کا ساتھ نہ دے مگر جذبات سے لپٹا رہنا وہ اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے . ہم کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا معاملہ کسی مشین سے نہیں جو بٹن دبانے کے بعد لازما اس کے مطابق عمل ظاہر کرتی ہے ، بلکہ ہمارا مخاطب انسان ہے اور اس وقت کسی بات کو مانتا ہے جب وہ خود بھی ماننا چاہے. اگر وہ خود ماننا نہ چاہتا ہو تو کوئی دلیل محض دلیل ہونے کی حیثیت سے اسے قائل نہیں کرسکتی . دلیل کو برقی بٹن (electric switch ) کا قائم مقام نہیں بنایا جا سکتا . اور بلا شبہ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ٹریجڈی ہے.
 
عقلی توجیہہ و تحقیق کے دو سائنسی طریقے


ایک قسم کا علم وہ ہوتا ہے جس کی تحقیق تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے ممکن ہو اور دوسری قسم کا علم وہ ہے جس میں اصل حصہ ظن و تخمین کا ہی ہوتا ہے۔ان دونوں قسم کے علوم میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں عقل اور نقل کے سلسلے میں ایک معرکہ برپاہو گیا۔ نتیجتاً مسلمانوں میں معتزلہ کا فرقہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے علمائے اہل سنّت کو طرح طرح کی ابتلاءو آزمائش سے گزرنا پڑا۔
یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ موجودہ دور میں سائنس کا لفظ تقریبا ً تحقیق یا علم کے ہم معنی ہے۔یہاں تک کہ انگریزی کے اسلامی لٹریچر میں جرح و تعدیل اور اسماءالرجال کے علم کو بھی سائنس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔چونکہ مغرب میں یہ بات بہت پہلے ہی سمجھ لی گئی تھی کہ علمی تحقیق میں ہرچیز کا مطالعہ مشاہدات اور تجربات سے کرنا قطعاً ناممکن ہے اسی بنا پر سائنس کو دو انواع میں منقسم کیا گیا ہے:
1۔ طبعی سائنس (Natural science): اس سے مراد فطرت کے ان حقائق کا علم حاصل کرنا ہے جس کی تحقیق مشاہدات اور تجربات سے کی جاسکتی ہے۔اس سائنس کا تعلق ان فطری قواعد اور کلیوں سے ہے جس کے تحت مادہ (Matter)اور قوت (Energy) تعامل کرتے ہیں۔اس زمرے کے تحت طبعیات (Physics)، کیمیا(Chemistry) حیاتیات (Biology) وغیرہ آتے ہیں۔
2۔سماجی سائنس (Social science): اس سے مراد علم و تحقیق کا وہ میدان ہے جس میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی مزاج اور برتاؤ اور اُس سے منتج صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کی تحقیقات میں ظن و تخمین اور قیاسات کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔یہاں پر اگر آپ تجربات کرنا چاہیں تو کئی نسلوں کے بعد مشکل سے کوئی نتیجہ اخذ ہوسکتا ہے۔ ان علوم میں علم نفسیات(Psychology)، عمرانیات (Sociology) ، معاشیات (Economy) علم بشریات (Anthropology) وغیرہ آتے ہیں ۔
اب ظاہر ہے کہ سائنسی تحقیق کو ان دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد یہی تو ہے کہ سماجی سائنس کے معاملے میں دو اور دو چار طرح کے اصول وضع کرنا ناممکن ہے۔ یہ علوم ایک طرح سے سائنس میں استثناءکی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یہ علوم ہیں بھی درحقیقت استثناءکے لئے۔ ان علوم میں جو بھی اصول وضع کئے جائیں گے اس کی حیثیت بہرحال تجرباتی ہوگی۔ دراصل یہ علوم انسان کی کم علمی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسانی فطرت انتہائی پیچیدہ ہے اور اس پیچیدہ فطرت کے انسان کیلئے خوداپنی فطرت کا مکمل ادراک کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔
موجودہ دور کی نسبت سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں اس دنیا میں سرمایہ داری کا جو تجربہ کیا گیا تھا اب جا کر اس کا کچھ کچھ نتیجہ معلوم پڑ رہا ہے اور وہ بھی بالکل واضح نہیں ہے۔جو اس تجربے کو غلط کہہ رہے ہیں وہ بھی اس میں اصل غلطی کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں اور آ جا کر اس وحی کی حامل امت بچی جو اس سلسلے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہے لیکن یہ امت بھی اگر سنانے سے زیادہ سننے لگ گئی ہو اور سننے بھی وحی کو نہیں (الذین یستمعون القول فیتبعون اَحسنہ) بلکہ وحی سے جاہل قوموں کو، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ ہاں سنانے والے ہیں مگر سننے والوں نے اگر کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہوں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
شریعت میں جو اسلامی احکام دیے جاتے ہیں وہ ظاہرہے کہ انسانوں کے لئے ہی دیے جاتے ہیں اور انسان کوئی مشین یا بے جان چیز تو نہیں۔ جب کسی شرعی احکام کی حکمت معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان صرف گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ایک روحانی مخلوق بھی ہے اور نفسیاتی لحاظ سے دنیا کی پیچیدہ ترین ہستی بھی۔
ان محققین کے سلسلے میں یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ مغرب جس کو مطمئن کرنے کے لئے یہ سب تحقیق کی جاتی ہے وہ تو ہار مان کر سماجی سائنس (social science) کو کب کا منظوری دے چکا ہے بلکہ اس کا داعی بن چکا ہے اور ہمارے مسلمان محققین ابھی تک شرعی احکامات کی تشریح طبعی سائنس(Natural science) میں تلاش کر تے پھر رہے ہیں!!!
تحریر ابو زید
 
شکریہ
clear.png
مضحکہ خیز والو
 
اور کیا ریٹنگ دی جاتی جب مضمون کا آغاز سائنس اور مذہب کو ماننے سے ہوتا ہے اور اختتام ارتقاء کو غلط قرار دینے پر ہوتا ہے بالکل مذہبی جنونیوں کی طرح

محترم یہ میری تحریریں نہیں ہیں۔ نہ کہیں میں نے ان سے متفق ہونے کا ذکر کیا ہے۔ آپ کو اگر کسی بات سے اختلاف ہے تو دلیل دیں
 

arifkarim

معطل
محترم یہ میری تحریریں نہیں ہیں۔ نہ کہیں میں نے ان سے متفق ہونے کا ذکر کیا ہے۔ آپ کو اگر کسی بات سے اختلاف ہے تو دلیل دیں
سائنس اور مذہب کے ٹکراؤ یا اختلاف پر کئی لاحاصل مباحثے پہلے ہی یہاں محفل پر ہو چکے ہیں۔ ایسے میں اس ضمن میں ایک اور دھاگہ کھول لینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ دیکھیں جب سائنس کو مذہب پر کوئی اعتراض نہیں سوائے ان باتوں کے جو اس مادی دنیا سے متعلق ہوں تو ان مذہب والوں کو کیوں سائنس کی فکر کھائے جا رہی ہے؟ یہ دونوں فیلڈز ایک دوسرے سے بالکل جُدا ہیں۔ انکو آپس میں ملانے ہی سے تمام مسائل جنم لیتے ہیں۔ مذہب کا تعلق ایمانیات سے ہے جبکہ سائنس کا تعلق ناقابل تردید مادی قائق سے۔ مجھے امید ہے آپ جیسے با علم شخص کو سمجھ آگئی ہوگی اور آپ اس موضوع پر مزید دھاگے شروع کرنے سے اجتناب کریں گے :)
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
شکریہ
clear.png
مضحکہ خیز والو
کوئی بھی تحریر کاپی پیسٹ کرنےسے قبل اسکا رد عمل ذہن میں رکھا کریں۔ یہاں محفل پر ہر قسم کی سوچ رکھنے والے احباب موجود ہیں۔ مذہبی احباب سائنس پرستوں کی پوسٹس پر اکثر منفی ریٹنگز دیتے ہیں تو سائنس پرست مذہبی سوچ رکھنے والوں کی پوسٹس پر۔ انکی سوچ و فکر کا ملاپ ناممکن ہے اور اثبوت کیلئے اسی دھاگے میں میری مندرجہ بالا پوسٹ پر مذہبی جنونیوں کا رد عمل دیکھ لیں جہاں ہم نے مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے جُدا کہا تھا:
b715.gif

چونکہ مذہبی رجحان رکھنے والے سائنس اور مذہب کے مابین واضح فرق کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی اسکے حق میں کوئی منطقی یا عقلی دلیل پیش کر سکتے ہیں، یوں انتقامی کاروائی کرتے ہوئے منفی ریٹنگ سے کام چلاتے ہیں۔ اسلئے ہمیں ان منفی ریٹنگز پر کوئی اعتراض بھی نہیں کہ ہم انکی "ایمانی" مجبوریوں سے اچھی طرح واقف ہیں :)
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔
لغت کے مطابق الحاد کا مطلب Atheism ہے، Secularism نہیں۔ جس مذہبی ویبسائٹ سے آپنے یہ مضحکہ خیز مواد کاپی پیسٹ کیا ہے، جب انہیں ان دو اصطلاحات کے مابین بنیادی فرق ہی معلوم نہیں تو ذرا سوچیں انکی علمی حالت کیا ہوگی؟ الحاد یعنی Atheism ہر قسم کی خدائی ہستی سے انکار ہے۔ جبکہ سیکولرازم کا مطلب نظام حکومت یا امور ریاست کو مذہب سے جدا کرنا ہے۔

اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سیکولرازم اور الحاد ایک نہیں ہے ۔ آپ کٹر مذہبی ہوتے ہوئے بھی سیکولرسٹ ہو سکتے ہیں۔ یعنی اگر آپکے ارد گرد مختلف مذاہب اور مکاتب الفکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں تو ایسے میں نظام حکومت کو مذہبی بنانا ناممکن ہے۔ کیونکہ پھر کسی ایک مذہبی گروہ کا مذہب کسی دوسرے کیساتھ تعلیمات میں فرق کی وجہ سے زیادتی کرے گا اور یوں نظام حکومت چلانا ناممکن ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اسلامی حکومت میں شراب نوشی حرام ہے۔ اب آپکے پڑوس میں کوئی عیسائی، یہودی یا ہندو رہتا ہو تو وہ تو شراب نوشی تو کرےگا۔ ایسے میں صرف مسلمانوں کیلئے الگ قانون اور دیگر کیلئے الگ قوانین بنانے پڑیں گے جو کہ ایک قومی ریاست یعنی Nation State کے شہریوں میں تفرقہ کا باعث بنتا ہے۔

دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپکو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عموماً بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور انکی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔
مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم، پابندیوں اور جانچ-پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا کہ یورپ میں انکے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو برا برتاؤ کیا، انکے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے چھین لینا، انکی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کردیا، مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا، اسلام کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اسکے برعکس، مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
تو پھر خلافت عثمانیہ کے دور میں تہلکہ خیز یورپی ایجاد’’ پرنٹنگ پریس‘‘ کو تین سو سال تک بین کیوں کیا گیا؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب 14 ویں صدی یورپ میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا تو خلافت عثمانیہ کے باسیوں کو اسکا علم تھا۔ اور اُندلس سے 1492 میں نکالے گئے یہود و مسلمانان جب خلافت عثمانیہ میں ہجرت کر کے آئے تو انہوں نے اس ایجاد کو یہاں بھی بیروئے کار لانے کی کوشش کی۔ لیکن اسوقت کے خلیفہ با یزید ثانی نے مذہبی جنونیوں کے دباؤ میں آکر ایک شاہی فرمان جاری کیا جہاں عربی رسم الخط کی پرنٹنگ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی جو کہ 300 سال تک قائم رہی۔ بالآخر 1727 میں جاکر پرنٹنگ پریسز کو عربی رسم الخط میں کچھ چھاپنے کی اجازت دی گئی مگر تب تک یورپ پرنٹنگ پریس کے مسلسل استعمال کی بدولت علوم اور فنون میں مسلم دنیا سے کئی سو سال آگے نکل چکا تھا!
http://www.theopavlidis.com/MidEast/part50.htm

اسی طرح جس دور میں یورپ جدید دوربینیں ایجاد کر کے فلک پر پائے جانے سیاروں اور ستاروں کی ساخت کو سمجھ رہا تھا، اسی دور میں خلافت عثمانیہ استنبول میں قائم مسلم دنیا کی واحد رصدگارہ کو علماء کے دباؤ پر مسمار کر رہا تھا:
https://en.wikipedia.org/wiki/Istanbul_observatory_of_Taqi_ad-Din

ان تلخ تاریخی حقائق کے باوجود بلند و باند مضحکہ خیز دعوے کرنا کہ اسلامی حکومتیں ہمیشہ سے سائنس دوست رہی ہیں، اس مضمون کے لکھنے والے کی بے انتہاء جہالت کا کھلم کھلا اثبوت ہیں۔ اور ساتھ کے ساتھ میں اسپرآنکھیں بند کر کے یقین کرنے والوں کی ریٹنگز کا بھی۔ :)

آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے، سیکھنے سکھانے اور غور و فکر، بجا لانے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو مسلم دنیا میں لانے کے خواہاں ہیں، اسلامی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔
جن ممالک کی آبادی 99 فیصد سے زائد مسلم ہے اسے سیکولرازم کی ضرورت نہیں کہ وہاں شریعت کا نفاذ اپنے آپ ہی ہو جاتا ہے۔ اور جن ممالک میں مسلما ن فی الحال اکثریت میں نہیں ہیں وہاں سیکولرازم کے بغیر مسلمانوں کو عددی برتری حاصل ہو نہیں سکتی جیسا کہ بھارت، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک۔ جوں جوں ان ممالک میں مسلمانوں کی تعداد دیگر مذاہب کی آبادیوں کے مقابلے میں بڑھے گی، ویسے ویسے یہاں بھی شریعت کے نفاذ کا نعرہ بلند ہوگا جیسا کہ آجکل برطانیہ کے ان علاقوں میں ہو رہا ہے جہاں کی اکثریت مسلمان آبادی پر مشتمل ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلمین مسلمانوں سے خوف کھاتے ہیں کہ جب یہ اقلیت میں ہوتے ہیں تو جمہوریت اور سیکولرازم کو پسند کرتے ہیں تاکہ اپنی تعداد کو بڑھا سکیں اور جونہی یہ کہیں اکثریت میں ہوتے ہیں تو فوراً سے پہلے یہاں اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ شروع کردیتے ۔ تب انہیں غیر مسلمین کیلئے جمہوریت اور سیکولرازم کا سبق سب بھول جاتا ہے۔ آپ اسے حد درجہ کی منافقت پسندی کہہ سکتے ہیں :)

مجھے ایک بات جو کبھی سمجھ میں نہیں آئی وہ سائنس اور مذہب کا تقابل ہے۔ اس نکتہ پر میں بارہاں اپنی مختلف تحاریر میں اشارہ کرتا رہا ہوں اور سوال یہ ہے کہ سائنس اور مذہب کو آمنے سامنے لا کر کس لیے کھڑا کیا جائے؟ جواب میں بہت ساری باتیں کی جاتی ہیں لیکن آج تک مکمل طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکا ہے کہ سائنس اور مذہب کا اختلاف کیا ہے؟ میں فی الحال سائنس کے یا مذہب کے کسی خاص نظریہ یا عقیدہ پر نہیں بلکہ ان دونوں کے اجمالی مقاصد کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہا ہوں۔
پہلے تو یہ طے کرلیں کہ سائنس اور مذہب میں مشترک کیا ہے؟

کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ان کے عقائد کو ایک اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کسی مذہب کے خدا، اس کے پیغمبر اور ان کے نظریات (جب تک کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو ان کی وجہ سے جانی اور مالی یا کسی اخلاقی قسم کا نقصان نہ پہنچے تب تک) کسی خطرے اور کشیدگی کا باعث نہیں ہوتے۔ درمیان مذاہب البتہ اونچ نیچ اور گرمی و سردی کے موسم آتے رہتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ مذاہب کا مقدمہ بنیادی طور مندرجہ ذیل نکات پر مبنی ہوتا ہے:
۱۔ اخلاقی اقدار، معاشرت کے قوانین اور ان کے نفاذ کی کوشش۔
۲۔ مقصودِ کائنات اور انسان کی زندگی کا مقصد۔
۳۔ الہیات کی گتھیوں کا حل۔
معاشرت کےقوانین اور انکی نفاذ کی کوشش صرف اسلام کا خاصا ہے۔ جبکہ دیگر مذاہب اور ادیان میں ایسی کوئی چیز نہیں جو انکے پیروکاروں کو ڈنکے کی چوٹ پر انکے نفاذ کیلئے مجبور کرے۔

اپنے اپنے ادوار میں مختلف فلاسفہ نے مذاہب سے مطابقت اور مخالفت میں ان تینوں نکات پر اپنی آراء دنیا کے سامنے رکھی ہیں۔ لیکن یہ تینوں ہی نکات ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں اور رہیں گے۔ کیونکہ ان میں رفعِ تنازع کے لیے کوئی حتمی کسوٹی آج تک میسر نہیں آسکی جو ہر ایک کے لیے حجت بن سکے۔
بعض اسلامی قوانین بھی مسلمین اور غیرمسلمین کیلئے متنازع ہیں۔

اب جو حضرات مذہب کی حمایت کو بنیاد بنا کر سائنسی نظریات کو رد کرتے ہیں وہ بے شک رد کریں۔ لیکن کم از کم اس کی ماہیت کو ضرور سمجھیں تاکہ رفعِ تعارض کی کوئی راہ نکل سکے۔ جب بات مادی توجیہہ کی آئے گی تو سائنس کو حرفِ آخر ماننا پڑے گا۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ زمین پر چیزیں اس لیے گرتی ہیں کیونکہ کشش ثقل انہیں اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اب اس کے برعکس اگر کوئی یہ بحث کرے کہ نہیں صاحب، زمین پر چیزیں خدا کے حکم سے گرتی ہیں۔ اور کشش ثقل کا کوئی وجود نہیں۔ تو ایسا کرنے والا در اصل سائنس کے مقدمے کو سمجھ نہیں پارہا۔ جب بات ہی مادی اسباب کی ہے تو مجرد اسباب پر زبردستی کرنا ایک غیر اصولی بات ہے۔
یہ غیر اصولی بات اسلامی تاریخ کے مشہور و معروف امام غزالی کی پھیلائی ہوئی ہے جنہوں نے اس زمانہ کے چوٹی کے مسلمان مفکرین اور سائنسدان جیسے ابن سینا اورا لفارابی کے رد میں اپنی شہرہ آفاق کتاب تہافت الفلاسفہ شائع کی۔ امام غزالی کے مطابق جب آگ کپڑے کو جلاتی ہے تو یہ عمل اسلئے نہیں ہوتا کہ آگ اور کپڑے کے درمیان کوئی کیمیائی ردعمل وقوع پزیر ہوا۔ بلکہ ایسا اسلئے ہوتا کیونکہ اسوقت ’’خدا‘‘ یہ چاہتا ہے۔ یعنی جب خدا نہ چاہے تو کپڑا نہیں جلے گا چاہے آپ جتنی مرضی آگ جلا لیں۔
اس مضحکہ خیز اور جہالت پر مبنی ’’منطق‘‘ کی تشہیر کے خلاف اس زمانہ کے چوٹی کے مسلمان سائنسدان اور فلاسفر ابن رشد تہافت التہافت نامی کتاب لکھی جسے بدقسمتی سے مسلم دنیا میں کوئی پزیرائی نہیں ملی۔ جبکہ یورپ نے ابن رشد کی تعلیم کو گلے سے لگا کر جدید سیکولرازم کی بنیاد رکھی۔وہیں مسلم دنیا امام غزالی کی غیر منطقی باتوں کو ایمانیات کا حصہ بنا کر آج تک جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئے ہے۔ ان دونوں کتب کے بارہ میں تفاصیل یہاں دستیاب ہیں جنہوں نے مغرب اور مسلم دنیا کی فکری سوچ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جُدا کر دیا۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو انکا مطالعہ ضرور کریں:
https://en.wikipedia.org/wiki/The_Incoherence_of_the_Philosophers
https://en.wikipedia.org/wiki/The_Incoherence_of_the_Incoherence

اور دوسرے وہ شدت پسند دہریے یا ملحد جو کسی بھی صورت میں نظریۂ ارتقا کی کسی کمزوری کو ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔
میری ناقص رائے میں دونوں ہی ایک لاحاصل بحث میں مبتلا ہیں۔ ایسی بحث سے نہ سائنس کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ اس کے مقاصد میں کوئی کمی یا زیادتی ہوتی ہے۔ کام کرنے والے اپنے کاموں میں ہمیشہ سے مصروف ہیں۔ وہ مصروف رہیں گے۔ ہاں اپنے نظریات میں جارحیت پسند لوگ ہمیشہ ان چیزوں میں بھی اختلافات کے اسباب تلاش کرتے رہے ہیں جن میں اختلاف تھا ہی نہیں۔ اور یہی بات سائنس کے لیے مذہب کو اور مذہب کے لیے سائنس کو شجرِ ممنوعہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جدید سائنسی فیلڈ Biology یعنی حیاتیات کا سارا ڈھانچہ نظریہ ارتقاء پر کھڑا ہے۔ اسکا اثبوت دلائل کیساتھ مکرمی زیک لاتعداد بار یہیں محفل پر فراہم کر چکے ہیں۔ ایسے میں پھر وہی لایعنی بحث کو چھیڑ دینا کہ نظریہ ارتقاء محض ایک ’’نظریہ‘‘ ہے جسے ماننےیا نہ ماننے سے سائنس کو کوئی فرق نہیں پڑھتا، مضمون نگار کی سائنس کے بارہ میں جہالت کا ایک اور واضح نشان ہے۔ مطلب موصوف خود کو بڑا سائنسی سمجھتے ہیں اور اتنا ہی نہیں جانتے کہ اگر آپ نظریہ ارتقاء کو حق تسلیم نہیں کرتے توآپ حیاتیات کو پڑھنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔

یعنی ارتقاء ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ہم اس پر صرف اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے۔ گویا سائنسداں ارتقاء کے نظریے کی صداقت پر صرف اس لئے متفق ہو گئے ہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انہیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا۔
مضحکہ خیز! یہ 1961 کی سائنس ہوگی۔ 2015 کی سائنس میں تو نظریہ ارتقاء کب کا ثابت ہوچکا ہے۔ جو اسے جھٹلاتا ہے وہ درحقیقت علم الحیاتیات کو جھٹلا رہا ہے۔
آپکی اطلاع کیلئے عرض کر دوں کہ مذہب بدھمت میں خدا کے وجود کا کوئی تصور ہی نہیں۔ اب جب کوئی چینی یا جاپانی بدھمت کاپیروکار نظریہ ارتقاء کو جھٹلا بھی دے، تب بھی وہ کسی خدا کے وجود کا قائل نہیں ہوگا کہ انکے مذہب میں ایسی کسی ہستی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے! لیکن اسکے باوجود بدھمت ایک مذہب ہی شمار ہوتا ہے ! ایسے میں دنیا کی 8 فیصد آبادی جو کہ بدھ مت کی پیروکار ہے مذہبی ہوتے ہوئے بھی سو فیصد ملحد ہے۔ ان کا ہمارے مذہبی جنونی کیا ’’علاج‘‘ کریں گے؟ کیا اب انہیں ڈنڈے کے زور پر مسیحیوں، یہودیوں، ہندوؤں کی طرح خدا کے وجود کو تسلیم کرنے کو کہیں گے؟
https://en.wikipedia.org/wiki/God_in_Buddhism
https://en.wikipedia.org/wiki/Buddhism_by_country

جب قوانین کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے تو بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اور سچ ہے اسے مان لیں، نہ کہ چند حیلوں سے اس کا انکار کر دیں۔ حقیقت کا انکار کرکے آدمی صرف اپنا نقصان کرتا ہے وہ حقیقت کا کچھ نہیں بگاڑتا۔
سائنس نے کبھی بھی قوانین نے قدرت کا انکار نہیں کیا جو انگنت تجربات کے بعد ثابت ہو چکے ہیں۔ یہ تو مذہبی جنونی ہیں جو قوانین قدرت کو جھٹلاتے ہوئے انکی جگہ اپنی محبوب مذہبی تعلیمات کا پرچار کرتے نہیں تھکتے۔ اگر انکی تعلیمات سائنس کے مقابلے میں درست ہیں تو انہیں تجربات کی روشنی میں ثابت کریں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو سائنس پر بے بنیاد الزامات لگانا بند کر دیں۔

یہ امر واقعہ ہے کہ سائنس کا آخری حقیقت کے پتہ لگانے میں بے بسی کے واضح ہوجائے کے باوجود ، عملی طور پر منکرین خدا کے ذہن میں کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں ہوا.بلکہ اس کے برعکس انکارخدا کے وکیل نئے نئے ڈھنگ سے اپنے دلائل کو ترتیب دینے میں لگے ہوئے ہیں . تاریخ بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہےکہ حقیقت ظاہر ہوجانے کے باوجود انسان نے محض اس لئے اس کو قبول نہیں کیا کہ تعصب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا. یہی تعصب تھا جب انیسویں صدی کے آخر میں برلن کے پروفیسر ماکس پلانگ نے روشنی کے متعلق بعض ایسی تشریحات پیش کیں جو کائنات کے نیوٹنی تصور کو غلط ثابت کر رہی تھیں تو وقت کے ماہرین نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور عرصہ تک اس کا مذاق اڑاتے رہے.حالانکہ آج وہ کو انٹم تھیوری کی صورت میں علم طبیعات کے اہم اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے. اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ تعصب دوسرے لوگوں میں تو ہوسکتا ہے مگر سائنس دانوں میں نہیں ہوتا۔
سائنسدانوں اور مذہبی جنونیوں میں یہی فرق ہے کہ سائنس دانوں کے مابین تعصب کچھ ہی عرصہ بعد لاتعداد تجربات اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں دور ہو جاتا ہے ، جبکہ مذہبی جنونیوں کے مابین تعصب ہزاروں سال تک جوں تا توں رہتا ہے۔ جیسے پچھلے 1400 سال سے مسلم دنیا میں قائم شیعہ سنی فتنہ و فساد، یہود و نصاریٰ کی دوہزار سال زائد عرصہ پر محیط خونی تاریخ ، ہندوؤں اور بدھ مت کے پیروکاروں کا کئی صدیوں سے جاری انتشار وغیرہ۔

ایک قسم کا علم وہ ہوتا ہے جس کی تحقیق تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے ممکن ہو اور دوسری قسم کا علم وہ ہے جس میں اصل حصہ ظن و تخمین کا ہی ہوتا ہے۔ان دونوں قسم کے علوم میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں عقل اور نقل کے سلسلے میں ایک معرکہ برپاہو گیا۔ نتیجتاً مسلمانوں میں معتزلہ کا فرقہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے علمائے اہل سنّت کو طرح طرح کی ابتلاءو آزمائش سے گزرنا پڑا۔
علمائے اہل سنّت کو طرح طرح کی ابتلاءو آزمائش کا سامنا تو ہونا ہی تھا کیونکہ معتزلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان سنیوں کے عقیدہ تقلید کی بجائے تحقیق، تشکیک اور منطق سے حاصل ہونے علوم پر ’’ایمان‘‘ کے خواہاں تھے ۔ مطلب یہ لوگ اجتہادی تھے ، یوں یہ تمام علوم کو آزاد و خودمختار انسانی عقل و دانش سے پرکھنے کے بعد اس پر یقین کرتے تھے جبکہ سنی فرقہ کے لوگ آج بھی اجتہاد کی بجائے تقلید پر ہی زور دیتے ہیں۔

یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ موجودہ دور میں سائنس کا لفظ تقریبا ً تحقیق یا علم کے ہم معنی ہے۔یہاں تک کہ انگریزی کے اسلامی لٹریچر میں جرح و تعدیل اور اسماءالرجال کے علم کو بھی سائنس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔چونکہ مغرب میں یہ بات بہت پہلے ہی سمجھ لی گئی تھی کہ علمی تحقیق میں ہرچیز کا مطالعہ مشاہدات اور تجربات سے کرنا قطعاً ناممکن ہے
سفید جھوٹ! سائنس تو نام ہی لا تعداد مشاہدات اور تجربات سے حاصل ہونے والے علوم کا ہے۔ ایسے میں سائنس پر یہ جاہلانہ الزام لگانا مضمون نگار کی سائنس سے تعصب کا سب سے بڑا اثبوت ہے!

2۔سماجی سائنس (Social science): اس سے مراد علم و تحقیق کا وہ میدان ہے جس میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی مزاج اور برتاؤ اور اُس سے منتج صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کی تحقیقات میں ظن و تخمین اور قیاسات کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔یہاں پر اگر آپ تجربات کرنا چاہیں تو کئی نسلوں کے بعد مشکل سے کوئی نتیجہ اخذ ہوسکتا ہے۔ ان علوم میں علم نفسیات(Psychology)، عمرانیات (Sociology) ، معاشیات (Economy) علم بشریات (Anthropology) وغیرہ آتے ہیں ۔
مضحکہ خیز! یہ مادی سائنسز نہیں ہیں۔ بلکہ سوشل سائنسز ہیں۔ مطلب انہیں اصل سائنسی علوم جو کہ مادی ہیں سے ملانا ہی غلط ہے۔ Pseudoscience کو سائنس کا لیبل لگا دینے سے وہ سائنس نہیں بن جاتی۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ معاشیات کوئی سائنس نہیں ہے۔ نہ ہی سوشیالوجی وغیرہ کو حقیقی سائنس تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ علوم علاقہ، تہذیب، زمان و مکاں کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں جبکہ سائنسی تحقیق سے حاصل ہونے والے علوم تو پوری کائنات پر ایک ساتھ لاگو ہوتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمارے نظام شمسی کا ستارہ سورج اگر ہائڈروجن و ہیلیم کا گولا ہے تو دیگر ستارے بالکل ہی دوسرے قسم کے ایٹمز کے مرکب ہوں۔ اسی طرح جو دھاتیں، معدنیات وغیرہ اس زمین پر پائے جاتی ہیں، بالکل ویسے ہی دیگر سیاروں پر بھی ہیں۔

اب ظاہر ہے کہ سائنسی تحقیق کو ان دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد یہی تو ہے کہ سماجی سائنس کے معاملے میں دو اور دو چار طرح کے اصول وضع کرنا ناممکن ہے۔ یہ علوم ایک طرح سے سائنس میں استثناءکی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یہ علوم ہیں بھی درحقیقت استثناءکے لئے۔ ان علوم میں جو بھی اصول وضع کئے جائیں گے اس کی حیثیت بہرحال تجرباتی ہوگی۔ دراصل یہ علوم انسان کی کم علمی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسانی فطرت انتہائی پیچیدہ ہے اور اس پیچیدہ فطرت کے انسان کیلئے خوداپنی فطرت کا مکمل ادراک کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔
ہاہاہا! سوشل سائنس کو نیچرل سائنس سے اسلئے الگ کیا گیا کیونکہ یہ علوم مادی نہیں سماجی ہیں۔ چونکہ انپر تحقیق سائنسی طریقہ سے ہی ہوتی ہے اسلئے انکے آگے سائنس کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔ وگرنہ ان سے حاصل ہونے والے نتائج کہیں سے بھی سائنسی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تو ہر انسانی معاشرے پر ایک ساتھ لاگو بھی نہیں ہوتے۔ ہاں جس علاقے یا علاقوں پر تحقیق کی گئی ہو، وہاں انہیں لاگو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

موجودہ دور کی نسبت سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں اس دنیا میں سرمایہ داری کا جو تجربہ کیا گیا تھا اب جا کر اس کا کچھ کچھ نتیجہ معلوم پڑ رہا ہے اور وہ بھی بالکل واضح نہیں ہے۔جو اس تجربے کو غلط کہہ رہے ہیں وہ بھی اس میں اصل غلطی کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں اور آ جا کر اس وحی کی حامل امت بچی جو اس سلسلے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہے لیکن یہ امت بھی اگر سنانے سے زیادہ سننے لگ گئی ہو اور سننے بھی وحی کو نہیں (الذین یستمعون القول فیتبعون اَحسنہ) بلکہ وحی سے جاہل قوموں کو، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ ہاں سنانے والے ہیں مگر سننے والوں نے اگر کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہوں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
یہ سائنس اور مذہب کی بحث میں معاشی سرمایہ کاری اور امتی کہاں سے گھس گئے؟ سرمایہ دارانہ نظام تو اسلامی طرز معاشرت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ جڑوں میں گھسا ہوا ہے۔ زکوٰۃ یعنی ٹیکس، بیت المال یعنی بینک، سونے اور چاندی کے سکے یعنی کرنسی، کاروبار میں منافع کر غرض سے سرمایہ کاری کرنا یعنی جمع پونجی لگانا، یہ اگر اسلام کا سرمایہ دارانہ نظام نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ ہاہاہا!

شریعت میں جو اسلامی احکام دیے جاتے ہیں وہ ظاہرہے کہ انسانوں کے لئے ہی دیے جاتے ہیں اور انسان کوئی مشین یا بے جان چیز تو نہیں۔ جب کسی شرعی احکام کی حکمت معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان صرف گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ایک روحانی مخلوق بھی ہے اور نفسیاتی لحاظ سے دنیا کی پیچیدہ ترین ہستی بھی۔
انسان سے بھی زیادہ پیچیدہ جنات پر مبنی مخلوقات یہیں کہیں رہتی ہیں لیکن اسبارہ میں ہمیں کچھ علم نہیں ، انکی پیچیدگی کی وجہ سے :)

ان محققین کے سلسلے میں یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ مغرب جس کو مطمئن کرنے کے لئے یہ سب تحقیق کی جاتی ہے وہ تو ہار مان کر سماجی سائنس (social science) کو کب کا منظوری دے چکا ہے بلکہ اس کا داعی بن چکا ہے اور ہمارے مسلمان محققین ابھی تک شرعی احکامات کی تشریح طبعی سائنس(Natural science) میں تلاش کر تے پھر رہے ہیں!!!
مغرب نے سائنس کے معاملہ میں نہ تو ہار مانی ہے اور نہ ہی سوشل سائنس کو نیچرل سائنس سے اسلئے الگ کیا ہے ۔ چونکہ نیچرل سائنسز سے قوانین قدرت اخذ کئے جاتے ہیں اور اس سے حاصل شدہ نتائج بغیر زمان و مکاں کی قید کے ہر جگہ لاگو ہیں سوائے انتہائی شدید طبیعاتی ماحول کے جیسا کہ بلیک ہولز، تو ایسی صورت میں منطقی اور عقلی طور پر سائنسدانوں نے یہی جانا کہ کسی بھی قسم کی کنفیوژن سے بچنے کیلئے انہیں الگ کر دیا جائے۔ یوں سوشل سائنسز میں وہ علوم آتے ہیں جو حتمی نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں ہر جگہ اپلائی کیا جا سکتا ہے۔ اگر مستقبل میں کبھی ہمارا ٹاکر ا ہماری جیسی یا ہم سے بھی بہتر خلائی مخلوق سے ہو گیا تو ایسے میں تمام تر انسانی سوشل سائنسز دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ البتہ نیچرل سائنسز انکے سیارہ پر بھی ہو بہو ویسے ہی کام کریں گی جیسا کہ ہمارے سیارہ زمین پر کرتی ہیں۔ اگر یہ جاہل مضمون نگار اس واضح فرق کو مغربی سائنس کی ’’کمزوری‘‘ اور اسلام و مسلمانوں کی ’’برتری‘‘ سمجھ رہا ہے تو ایسے میں ان جاہلین کے ڈھیر کا کیا کیا جا سکتا ہے؟

اور کیا ریٹنگ دی جاتی جب مضمون کا آغاز سائنس اور مذہب کو ماننے سے ہوتا ہے اور اختتام ارتقاء کو غلط قرار دینے پر ہوتا ہے بالکل مذہبی جنونیوں کی طرح
مذہبی جنونیوں کی تعداد محفل پر روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے!
 
آخری تدوین:
Top