مدحتِ حیدر

انتہا

محفلین
مزید یہ کہ مطلع کا دوسرا مصرع بھی کچھ بہتری چاہتا ہے کیونکہ

لاکھ سلطاں ہیں، مگر شیرِِ خدا کوئی نہیں

اس میں شیرِ خدا کے ساتھ سلطان کا تلازمہ صحیح بنتا نہیں، گو سلطان کا ایک مطلب طاقت ور بھی ہوسکتا ہے لیکن سلطان کا عمومی مطلب حکمران ہے جب کہ شیر خدا کا لقب حضرت علی کو اپنی بہادری اور شجاعت کی وجہ سے ملا سو کچھ یوں ہو سکتا ہے

صد بہادر ہیں مگر شیرِ خدا کوئی نہیں
یا
لاکھ اشجع ہیں مگر شیرِ خدا کوئی نہیں
وغیرہ۔​
ہیں بہادر لاکھ پر شیرِ خدا کوئی نہیں
یہ دیکھیے
یا یہ؟
لاکھ ہوں رستمِ زماں، شیرِ خدا کوئی نہیں
 

انتہا

محفلین
مصرعے کی ساری بنت تبدیل کرنے پڑے گی، مطلبی تو کسی طور اس بحر میں نہیں آئے گا کیونکہ اس بحر میں فاعلاتن ہے اور مطلبی مفتعلن ہے لیکن 'مُطلب' آ جائے گا، اس کے ساتھ خانوادہ وغیرہ اس طرح کے الفاظ استعمال کر کے دیکھ لیں :)
خاندانِ مطلب و ہاشم میں ان کے کفو
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے 'کفو' کو بھی دیکھنا چاہیے، لغات میں یہ کُف،و یعنی فاع کے وزن پر ہے، ایک جگہ کَفُو بھی دیکھا جیسا کہ اس شعر میں ہے۔
 

انتہا

محفلین
شعر کا مفہوم کچھ یوں ہو گا کہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایسے خلیفہ راشد ہیں جو سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان یعنی بنو ہاشم و بنو عبد المطلب ہونے میں آپ کے ہم پلہ ہیں۔ یہ فضیلت صرف آپ کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔
 

انتہا

محفلین
محمد وارث بھائی کی اصلاح اور سرپرستی کے بعد اب یہ نظم کچھ یوں ہو گئی:
اے علی تیرے علاوہ مرتضیٰ کوئی نہیں
لاکھ رستم سورما، شیرِِ خدا کوئی نہیں​

خاندانِ ہاشم و مطلب میں ہیں ان کے کفو
ایسا انسب، مصطفائی دوسرا کوئی نہیں​

دی گواہی کم سنی میں ہو گئے تم سرفراز
پیش قدمی میں مقابل بالکا کوئی نہیں​

دی چہیتی، لاڈلی، آنکھوں کی ٹھنڈک عقد میں
لاڈلا داماد ایسا باخدا! کوئی نہیں​

بھائی ہونے کی دی نسبت جب کلیم اللہ کے
نسبتِ نورِ نبوت باصفا کوئی نہیں​

مدحتِ حیدر جو فرمائی ہے وہ ہے بے مثال
کہہ گئے من کنتُ مولا، ما سوا کوئی نہیں​
 
آخری تدوین:
امجد علی راجا بھائی، پسندیدگی کا شکریہ، لیکن جس طرح آں جناب نے دیگر محفلین کے کلام پر بہتری کی رائے دی ہے، بندے کی کاوش پر بھی کچھ نظر کرم ہو جائے۔
عزت افزائی کے لئے شکریہ بھیا، آپ کی خوش نصیبی کہ استادِ محترم محمد وارث بھیا جیسے صاحب علم آپ کے کلام کی اصلاح فرما رہے ہیں۔
علمی اعتبار سے میں استاد محترم کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں، بلکہ میں تو استاد محترم الف عین کی عدم موجودگی تک خود اپنا کلام محمد وارث بھیا کی خدمت میں اصلاح کے لئے پیش کرنے والا ہوں :)
 

انتہا

محفلین
عزت افزائی کے لئے شکریہ بھیا، آپ کی خوش نصیبی کہ استادِ محترم محمد وارث بھیا جیسے صاحب علم آپ کے کلام کی اصلاح فرما رہے ہیں۔
علمی اعتبار سے میں استاد محترم کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں، بلکہ میں تو استاد محترم الف عین کی عدم موجودگی تک خود اپنا کلام محمد وارث بھیا کی خدمت میں اصلاح کے لئے پیش کرنے والا ہوں :)
بالکل، جس طرح وارث بھائی رہنمائی فرما رہے ہیں، دل سے ان کا شکر گزار ہوں، لیکن آپ کے ذوق سے بھی استفادہ چاہتا ہوں۔ آپ کی عاجزی اپنی جگہ، لیکن جو بہتری ہو سکتی ہے ضرور ارشاد فرمائیں۔ بندہ ممنون ہو گا۔
 

انتہا

محفلین
محمد خلیل الرحمٰن صاحب، آپ کی شفقت اور رہنمائی کا شکریہ ادا نہ کرنا شدید خفت کا سبب ہو گا۔ آپ ہی کی اصلاح اول سے یہ کچھ ممکن ہو سکا ہے۔ آئندہ بھی اپنی نوازشات سے شفقت فرماتے رہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عزت افزائی کے لئے شکریہ بھیا، آپ کی خوش نصیبی کہ استادِ محترم محمد وارث بھیا جیسے صاحب علم آپ کے کلام کی اصلاح فرما رہے ہیں۔
علمی اعتبار سے میں استاد محترم کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں، بلکہ میں تو استاد محترم الف عین کی عدم موجودگی تک خود اپنا کلام محمد وارث بھیا کی خدمت میں اصلاح کے لئے پیش کرنے والا ہوں :)
راجا صاحب واللہ 'پانی پانی ہوگیا'، اللہ اکبر۔
 

انتہا

محفلین
محمد وارث بھائی۔ آپ نے بالکل صحیح فرمایا۔ ابھی لغت دیکھ رہا تھا تو اس میں ”باخدا“ کو بھی قسم کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔

باخُدا {با + خُدا} (فارسی)
فارسی زبان میں اسم خدا کے ساتھ حرف جار با بطور سابقہ لگنے سے باخدا مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے اور گاہے بطور حرف قسم بھی مستعمل ہے۔ 1870ء میں الماس درخشاں" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی
معانی

1. خدا رسیدہ، خدا پرست، اللہ والا۔
اے عالمان باصفا اور اے واعظان باخدا آپ کی اعانت اس مردہ فرقے کو زندہ کر دے گی۔"، [1]
انگریزی ترجمہ

godly; religious; pious
حرف قسم

معانی

1. خدا کی قسم۔
باخدا، تاجیک، ترکماں یا بالتی کوئی عورت حسن میں ہماری کشمیری عورتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔"، [2]

مترادفات

خُدا پَرَسْت، اَللہ والا، با اِیمان
حوالہ جات

  1. ( 1936ء، راشدالخیری، نالۂ زار، 85 )
  2. ( 1956ء، آگ، 22 )
اس کے علاوہ دیگر معانی میں خدا رسیدہ اور اللّٰہ والا بھی ہیں۔ اگر ان معنوں کو مراد لیا جائے تو پھر یہ لفظ اس مصرعے میں ہنوز استعمال ہو سکتا ہے؟
 
Top