مخنث

تحریر،،،طاہر نقاش
گورنر تاثیر کا قتل ہوا تو بہت سے شدید تکلیف میں مبتلا مریض جان سے کھیل گئے۔ میری اہلیہ کا آپریشن صبح قرارپایا تھا، سب تیاریاں مکمل تھیں، آپریشن سے پہلے خون لگا ہوا تھا کہ اسی دوران اطلاع ملی کہ صبح تمام مریضوں کے آپریشن ملتوی کر دیئے گئے ہیں، گورنر قتل ہو گئے تو حکومت نے تمام سرکاری ملازمین کو چھٹی دے دی ہے۔ اب آپریشن اگلے ہفتے ہوں گے۔ بلکتے، چیختے اور درد و الم میں مبتلا مریض بددعائیں اور گالیاں دے رہے تھے۔ میری اہلیہ کا آپریشن ملتوی ہونے پر میں اسے اہل خانہ کی نگرانی میں دے کر ہسپتال سے قادسیہ مرکز کی طرف چل پڑا۔ ابھی میں ہسپتال سے نہر کے ساتھ واقع مین روڈ کے چوک میں ٹریفک کے بند اشارے پر کھڑا تھا۔ کھڑے کھڑے اچانک میری نظر اپنے سامنے کھڑے ایک بزرگ پر پڑی… جو رونی صورت بنائے… ماتھے پر پریشانیوں و تفکرات کی غماز شکنیں ڈالے… مایوسی و افسردگی کے عالم میں …ادھر ادھر دیکھ رہے تھے …لگتا تھا کسی کو تلاش کر رہے ہیں، میری نظریں جونہی ان سے ملیں وہ میکانکی انداز میں میری طرف کھینچنے لگے، میں نے ان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر سوچا کہ ضرور کوئی فقیر ہے، قریب آ کر اپنی کوئی ’’ہولناک مجبوری‘‘ بیان کرے گا اور پھر مدد کیلئے کچھ مانگے گا۔ سوچا کہ آنے دو جو ہو گادیکھا جائے گا، اتنے میں وہ میرے سامنے آ کر لجاجت، عاجزی، انکساری اور گلوگیر آواز یوں میں گویا ہوا… بائوجی! مجھے جیل روڈ تک لے چلیں گے؟ میں نے خلاف توقع اس کا سوال سن کر کہا: کیوں نہیں، بیٹھ جائیں۔ اب موٹرسائیکل دوڑ رہی تھی، کچھ کو گاڑیاں تیزی سے ہمارے آگے گزرتی جا رہی تھیں اور کچھ ہم پیچھے چھوڑ کر اڑے چلے جا رہے تھے۔
اس دوران میں نے حسب عادت خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے کہا: بابا جی! کہاں سے آ رہے ہیں اورکدھر جا رہے ہیں؟ میں شالا مار باغ اپنے گھر جا رہاہوں۔ اس کے لئے آپ نے سٹیشن جانے والی بس پر سوار ہو جانا تھا، آسانی سے کسی کی لفٹ مانگے بغیر گھر پہنچ جاتے۔ کہنے لگا: جیب میں کوئی پیسہ نہیں بچا، اب دھکے کھاتے ذلت اٹھاتے، لوگوں سے بے عزتی کرواتے لفٹ لیتے لیتے رات گئے گھر پہنچ سکوں گا۔ اس کے لئے کسی کے آگے ہاتھ اٹھانا پڑے گا، دو چار الٹی سیدھی گالیاں، طعنے اور کڑوی باتیں سننی پڑیں گی۔ اگر آپ سے ہو سکے تو مجھے صرف 25 روپے دے دیں تاکہ میں باعزت اپنے گھر بروقت پہنچ سکوں۔ میں نے کہا: بابا جی! میں کچھ سمجھا نہیں بات کھول کر بیان کیجئے کہ آپ بھیک مانگنے کیلئے مجبور کیوں ہوئے؟ حالانکہ آ پکاچہرہ مہرہ باوقار، انداز گفتگو شستہ زبان، بہترین لباس اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ آپ پیشہ ور بھکاری نہیں ہیں۔ بابا کو یہ سن کر چپ کا تالا لگ گیا … میں کافی دیر خاموشی کے عالم میں… بابا کے جواب کے انتظار میں ہمہ تن گوش ہو کر… سراپا انتظار بن کر …گاڑی چلاتا رہا۔ جواب کا انتظار کرتا رہا… کافی دیر بعد جب موٹرسائیکل رش سے نکلی، ٹریفک کا شور کم ہوا تو میں نے اپنی قوت سماعت کو ایک نقطے پرمرکوز کرتے ہوئے کہا: بابا جان! چپ ہو کر کہاں چلے گئے… جواب کی بجائے میں نے ہلکی ہلکی مدھم سی، دلخراش، سسکیوں، کو ابھرتے سنا تو میں نے یک لخت پیچھے مڑ کر دیکھا، بابا جان سسک رہے تھے۔ بوڑھی آنکھوں میں گرم گرم آنسو چمک رہے تھے۔ بابا جان! آپ رو رہے ہیں… کیا ہوا؟ کیا میری کسی بات نے آپ کے دل کو… ’’نہیں نہیں‘‘ بابا جی میری بات کاٹ کرگویا ہوئے: آج اس نے پھر مجھے ذلیل کر کے گھر سے نکال دیاہے… سسکیاں… ندامتیں، ہلکی آنچ کی آہیں… کس نے بابا جی نکالا آپ کو گھر سے، کچھ پتہ بھی تو چلے!!؟؟ … میرے جوائی نے اور کس نے!! کیوں اس کو تو آپ کو سر آنکھوں پر بٹھانا چاہئے۔ آخر آپ نے اس کو اپنی کائنات (بیٹی) دے دی، اپنے سر کے بال، اپنی پگڑی اور اپنی عزت و وقار اس کے پائوں کے نیچے دے دیا۔ آپ کو گھر سے کیوں نکالے لگا۔ ذرا تفصیل سے بتائیں، میں سمجھا نہیں۔
بائو جی! پانچ سال قبل میں نے ان کے منتیں ترلے کرنے اور طرح طرح کے سبز باغ دکھانے پراپنی بڑی بیٹی کا رشتہ انہیں دے دیا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد لڑکے نے کل پرزے نکالنے شروع کئے۔حتیٰ کہ تو تکار سے ہوتے ہوئے بات مار پٹائی تک پہنچی۔ اب وہ بات بات پر میری پھولوں جیسی بیٹی کی روئی کی طرح دھنائی کر ڈالتا اور پھر دھکے دے کر گھر سے نکال دیتا ہے اور کہتا کہ کنجروں سے ایک دو ماہ کا خرچہ ہی لائو میں بے روزگار ہوں۔ بچی لٹی پٹی حالت میں نیل پڑے دھنے جسم اور زخموں کے ساتھ ہمارے پاس آتی۔ ہم اس کے دکھ درد زخم اور گہری چوٹیں اور نیلگوں سوزش زدہ جسم کو دیکھتے تو اس کا مطالبہ اوکھے سوکھے ہو کر پورا کر دیتے۔ صرف اس لئے کہ بچی سکھی رہے۔ اس کا گھر آباد رہے اور یہ امید باندھ لیتے کہ کبھی تو اجڑے گلشن میں بہار آ جائے گی… تو ہم خزاں کی تمام چیرہ دستیاں بھول جائیں گے، کبھی وہ مکان کے کرائے کیلئے، کبھی خرچہ کیلئے، کبھی بچوں کے کپڑوں کیلئے، کبھی بجلی پانی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کیلئے پیسے مانگنے کیلئے بیٹی کو گھر سے نکال دیتا… اور وہ ہماری چوکھٹ پر اپنے سہاگ کی سلامتی کیلئے جھولی پھیلا دیتی۔ ہم کسی نہ کسی جگہ سے پکڑ کر اس کا مطالبہ اپنے لئے حکم سمجھتے ہوئے پورا کردیتے۔ دو سال قبل اتفاق سے یا بدقسمتی سے ہمارا کہیں ہاتھ نہ پڑ سکا اور ہم اس کا مطالبہ پورا نہ کر سکے تو اس نے مار مار کر بچی کا انجر پنجر ہلا ڈالا۔ غصہ میں میرے بیٹے نے اس کی مرمت کی تو اس کا بدلہ بھی اس نے میری بیٹی سے لینا شروع کیا جو آج تک تشدد کے ساتھ ساتھ مختلف طعنوں اور گندی ننگی گالیوں کے ساتھ جاری ہے۔ دو دن پہلے بیٹی نے فون کیا ابو جان! آپ کو دیکھنے کو جی چاہتا ہے آ کر اپنے نواسوں سے مل جایئے لہٰذا میں چلا گیا۔ رات وہاں گزاری، اپنے پاس موجود سات سو روپوں میں سے پانچ سو روپے میں نے بیٹی کو دے دیئے۔ صبح بیٹی نے میرے جوائی سے کہا کہ گھر میں آٹا نہیں، جائو یہ پیسے جو ابو نے دیئے تھے، لے جائو اور آٹا لائو تاکہ ابو جان کیلئے روٹی پکا کر ان کو ناشتہ دے سکوں۔ شوہرگالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ جب جی چاہتا ہے یہ کنجر منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں اور یہاں ڈیرا جما لیتے ہیں جیسے یہ ان کے باپ کی حویلی ہو، یہ پیسے تو فلاں کے دینے ہیں، اس کو چلے جانے ہیں میرے پاس مزید پیسے نہیں بچیں گے کہ میں تمہارے باپ ’’ناڈو خاں‘‘ کیلئے آٹا لا سکوں۔ میں نے یہ گفتگو سن کر باقی ماندہ دو سو روپے بھی اس کو دے دیئے، تاکہ ان کے گھر آٹا آ سکے اور خود بغیر کچھ کھائے پئے باہر نکل آیا۔ میری بیٹی نواسے نواسیاں روتے ہوئے مجھے روک رہے تھے لیکن میرے جوائی نے رسمی طور پر بھی نہ کہا کہ چائے ہی پی کر چلے جانا۔ میں اس ماں بہن کی گالی گلوچ والے سلوک سے اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ سب بچوں کے پائوں پڑنے کے باوجود گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ اور پیدل ہی چلتا چلتا یہاں تک پہنچ گیا تھا۔ اب چلا نہیں جا رہا تھا، شام ہو چکی تھی، دل کہہ رہا تھا کسی سے منت کر کے لفٹ لے لو یا کرایہ مانگ لو… اتنی طاقت نہیں بچی کہ مزید سفر کر سکوں یوں کسی سڑک کنارے گر کر اللہ کو پیارا ہو جائوں گا، یہی سوچ کر میں اشارے پر کھڑا تھا لیکن کسی سے کچھ کہنے کی ہمت نہ پڑ رہی تھی کہ آپ نظر آ گئے۔ اور میں نے دل کے کہنے پر آپ سے لفٹ مانگ لی۔ پھربابا جان ایک سرد آہ بھر کر بولے: کسی نہ کسی طرح مجھے گھر پہنچا دو، میری بیٹیاں پریشانی کے عالم میں میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔ اس حادثے کے بعد میں اپنی دوسری دو بیٹیوں کہ جن کی عمریں 20`21 سال ہو گئی ہیں، کی شادی کے متعلق پریشان رہتاہوں کہ ان کا رشتہ کہاں کروں اور کہیں میرے ساتھ دوبارہ ایسا حادثہ پیش نہ آ جائے۔ میں اس کی داستان غم سن کر بہت رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہوا۔ میں نے اسے ایک جگہ بٹھا کر چائے سے اس کی تواضح کی اور 75 روپے اسے دے کر رخصت کیا اور خود سوچوں کے بھنور میں گم سم، درد کے سمندر میں ڈوب گیا۔
میں سوچ رہا تھا کہ مرد تو ایک شیر کی اور شاہین و عقاب کی مانند ہوتاہے، نہ کہ گیڈر کی مانند۔ وہ زمانے بھر کے حالات سے لڑ کر اپناشکار لاتا ہے اور اپنے بچوں کو کھلاتا ہے، ان کی ہر طرح سے حفاظت کرتا ہے، کبھی کسی دوسرے کے کئے ہوئے شکار پر حرص نہیں رکھتا بلکہ کسی کے بچے کھچے شکار کو منہ لگانا بھی اپنی توہین و تذلیل سمجھتا ہے، جبکہ گیڈر، کتا، لومڑی اور چیل، کوا اورگدھ ہمیشہ دوسرے کے کئے ہوئے شکار پر حریصانہ نظررکھتے ہیں کہ کب وہ آگے پیچھے ہوں اور یہ ان کے چھوڑے ہوئے شکار کو ہڑپ کر جائیں۔
کیا ایسے مرد کو کہ جس پر بیوی، بچوں اور کچھ دیگر افراد کی کفالت کی ذمہ داری پڑی ہو اور وہ دوسروں کے مال پر طمع و حرص سے نظریں گاڑے ہو، اسے ’’مرد‘‘ کہنا چاہئے، اس میںظاہری تمام علامتیں تو مردوں جیسی ہیں اس کے بچے بھی ہیں۔ اس لئے اس کو عورت نہیں کہہ سکتے، جبکہ مردوں جیسے خواص، حمیت، غیرت، شجاعت، محنت، جفاکشی، ایثار، مروت، مسئولیت کا احساس، قوت بازو کا ثمر حاصل کرنا… قناعت، قوام، یہ مردانہ علامات اس میں یکسر موجود نہیں ہیں۔ تو یوں یہ مرد بھی نہیں… عورت بھی نہیں تو پھر ہم اس کو کیا کہیں…؟
اس موقع پر مجھے اپنے شفیق استاد محترم جناب حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ کاسنایا ہوا ایک واقعہ یاد آ گیا اور میں نے اس کے متعلق فیصلہ کر لیا، کیا فیصلہ کیا، یہ بتانے سے پہلے میں استاد صاحب کا بتایا ہوا واقعہ آپ کو سنانا چاہتاہوں، سنیں:
ایک ان پڑھ ملاح کا روزانہ کا یہ معمول تھا کہ وہ دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر واقع اسکول میں طلبہ بچوں کو کشتی میں سوار کر کے لے جاتا تھا۔ایک دفعہ اس نے دیکھا کہ کشتی کے اندر بیٹھے طالب علموں کی دو ٹولیاں بنی ہوئی ہیں ان کے سامنے ایک مچھلی پڑی ہے۔ ایک ٹولی کہہ رہی ہے کہ یہ مذکر ہے اور اس کے حق میں دلائل دے رہی ہے کہ اس میں یہ یہ علامتیں پائی جاتی ہیں اور یہ علامتیں مذکر کی ہوتی ہیں، لہٰذا یہ مچھلی مذکر ہوئی۔ دوسراگروہ کہہ رہاتھا دیکھو یہ انڈے دیتی ہے، اس کا تولیدی نظام بھی مذکر کے الٹ ہے۔ وغیرہ وغیرہ لہٰذا یہ مذکر نہیں بلکہ مونث ہوئی… دونوں گروہ ’’نہیں مذکر ہے، نہیں مونث ہے‘‘، کی تکرار کررہے تھے، ملاح کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا لیکن اس کے کان دونوں ٹولیوں کی گفتگو کی طرف لگے ہوئے تھے۔ کنارہ قریب آ گیا تو ایک چھوٹا سالڑکا جو اب تک خاموش ایک طرف بیٹھا تھا ، بولا: یارو کنارا آنے لگاہے چھوڑو اس بحث کو حقیقت یہ ہے کہ نہ اس میں مذکر کی پوری نشانیاں ہیں اور نہ ہی مونث کی لہٰذا یہ نہ تو مذکر ہے اور نہ مونث بلکہ یہ تو مخنث ہے۔ یہ سن کر سب لڑکوں نے اس کی بات کو تسلیم کر لیا اور اپنے بستے اٹھائے گھروں کو روانہ ہو گئے۔
کچھ دنوں بعد باباملاح کو ایک بہت خوبصورت سنہری مچھلی ملی تو وہ اسے لے کر بادشاہ کے دربار میں پہنچا اور اسے تحفہ میں پیش کی۔ بادشاہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اعلان کیا کہ اس ملاح کو اتنی پیاری نایاب سنہری مچھلی پیش کرنے پر دس ہزار درہم کا انعام دیا جائے۔ وزیر نے ملاح کو دس دن بعد آ کر انعام وصول کرنے کو کہا۔ ملاح چلا گیا تووزیر نے کہا بادشاہ سلامت! 10 ہزار درہم بہت بڑی رقم ہے اگر ہم اتنے چھوٹے سے تحفہ کے عوض میں دینے لگیں توخزانہ خالی ہو جائے گا۔ فوجوں کوبروقت تنخواہ نہ ملی تو وہ باغی ہو جائیں گی۔ بادشاہ پریشان ہو کر بولا: اے وزیر باتدبیر! اب پھر کیا کریں، بادشاہ کبھی اپنی بات واپس نہیں لیتے۔ میں تو دربار میں اعلان کر چکا ہوں۔ وزیر نے کہا کہ یہ بات آپ مجھ پر چھوڑیں۔ اس کا حل میں تلاش کر لوں گا آپ پر حرف بھی نہ آئے گا اور شاہی خزانہ سے ایک درہم بھی باہر نہ جا سکے گا۔
دس دن بعد دربار لگا ہواتھا، بوڑھا ان پڑھ ملاح دربار میں انعام لینے آیا تو وزیر نے کہا: اے ملاح بابا!! آپ کا تحفہ بادشاہ کو بہت پسند آیا ہے آپ کا انعام برقرار ہے، لیکن ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے، وہ یہ کہ یہ مچھلی مذکر ہے تم اس کا مونث بھی پکڑ کر لائو تاکہ اس جوڑے کو شاہی تالاب کی زینت بنایا جا سکے اور اپنا انعام پھر پائو۔ ملاح کا یہ سننا تھا اس کے تمام خواب بکھر گئے، امیدیں دم توڑ گئیں کہ نہ اس کا مونث ملے اور نہ انعام ملے۔ یہ تو اتفاق سے جال میں آ گئی تھی۔ اب میں کہاں سے دوسرا مونث لائوں اور جوڑا پورا کروں۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسے یہ الفاظ سنے سنے محسوس ہوئے وہ دربار میں کھڑا سوچوں کی وادی میں جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ اس کی کشتی میں طالب علم لڑکوں کی دو ٹولیاں بیٹھی ہیں، دونوں اس موضوع پر بحث کر رہی ہیں۔ آخر کنارہ آ جاتا ہے اور ایک چھوٹا لڑکا اپنا فیصلہ سنا کر معاملہ ختم کرتا ہے۔ اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ بولا: بادشاہ سلامت! جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں؟ بادشاہ نے (جو سارا معاملہ سمجھ رہا تھا) کہا: ہاں ہاں کیوں نہیں؟ ملاح بولا: بادشاہ سلامت یہ خوبصورت نایاب و منفرد مچھلی نہ تو مذکر ہے اور نہ ہی مونث بلکہ یہ تو مخنث ہے۔ اس لئے اس کا جوڑا لانا ناممکن ہے۔ آپ میرا انعام عنایت فرمائیں۔
بادشاہ ملاح کا یہ فی البدیہہ جواب سن کر اتنا خوش ہوا کہ جذبات میں آ گیا اور کہنے لگا: ملاح نے اتناپیارا جواب دیا ہے کہ اب اس کو 10 ہزار درہم دینا زیادتی ہو گی۔ میراحکم ہے اب اس کو 10 کی بجائے 20 ہزار درہم انعام دیا جائے۔
توقارئین کرام! …میں بھی ایسے مردوں کے متعلق جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں اور کہتے ہیں اپنے والدین سے یہ لائو، یہ لائو… فلاں چیز طلب کرو، فلاں زمین مکان، خرچہ، راشن، کپڑے، زیور، روپیہ پیسہ لے کر آئو۔ یہ مطالبہ کرنے والے جب ایسے مطالبے کر کے شفیق والدین اور کریم بھائیوں کے سینوں میں سوراخ کر کے ان کو چھلنی کرڈالتے ہیں، ان کو جیتے جی قبروں میں ڈال دیتے ہیں… ایسے مرد حقیقت میں ’’مرد‘‘ کہلانے کے قابل نہیں، لیکن چونکہ وہ ظاہری علامات کی بناء پر عورتیں بھی نہیں… تو پھروہ کیاہیں؟ تو سنیں مائوں اور باپوں کا، ان کی بیٹیوں کو مار کر، مطالبوں کی سولی پر چڑھا کر، سکھ چین چھیننے والے نہ تو مذکر ہیں اور نہ ہی مونث، بلکہ وہ ہیں ’’مخنث‘‘… اور ’’مخنث‘‘ کے متعلق میں کچھ نہیں کہوں گا۔ سوائے اس کے کہ آپ خوب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مخنثوں اور زنخوں کا کیا ذلت انگیز، کراہت انگیز مقام ہے… کتنی حقارت بھری نظروں سے انہیں دیکھا جاتا اور ذلت بھری زندگی گزار کر جب وہ مرتے ہیں تو ان کی موت کتنی عبرتناک ہوتی ہے۔

ہفت ،،،روزہ جرار بشکریہ
 
Top