مخمورؔ سعیدی =====دل کہ تھا آئینۂ حسن ترا، ٹوٹ گیا=====MAKHMOOR SAEEDI

عباس آزر

محفلین
دل کہ تھا آئینۂ حسن ترا، ٹوٹ گیا
تیری نظروں سے کچھ اس طرح گرا، ٹوٹ گیا
اب کسی سے بھی نہیں کوئی تعلق، ہم کو
تم سے اک رشتۂ امید جو تھا، ٹوٹ گیا
میری دیوانگیِ دل پہ، کوئی پیکرِ ناز
کھلکھلاکر جو ہنسا، بندِ قبا ٹوٹ گیا
وقتِ رخصت وہ کسی شوخ کی افسردہ نظر
جیسے نشتر سارگِ جاں میں چبھا، ٹوٹ گیا
اپنا انجامِ وفا، جان لیا تھا ہم نے
اس سے پہلے، کہ ترا عہدِ وفا ٹوٹ گیا
خود، وہیں سے ہمیں آغازِ سفر کرنا ہے
جس جگہ حوصلۂ راہنما، ٹوٹ گیا
میں ابھی تو ترے ملنے کی دعائیں لب پر
کیا کریں گے، اگر افسونِ دعا ٹوٹ گیا
آج تک دل کو وفا کوش رکھا ہے جس نے
آج مخمور وہ پندارِ وفا ٹوٹ گیا

مخمورؔ سعیدی
 
Top