مختار آپ ، اور گنہ گار خاکسار ۔۔۔ کاشف یوسف زئی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

مختار آپ ، اور گنہ گار خاکسار
منطق سمجھ میں آئی نہ میرے یہ زینہار

حاصل ہوا نہ محفلِ کون و مکاں میں کچھ
آنا کہیں پڑے نہ یہاں مجھ کو بار بار

کیجے ستم کے آپ کو آتا نہیں کچھ اور
کیجے نہ اپنے ظلم کی توجیہ بار بار

اِک وہ ہیں جن کا شغل ہے تحقیق و جستجو
اِک ہم ہیں جن کے زہن پہ اوہام ہیں سوار

وہ ہیں کہ گاڑ آئے جو مہتاب پر علم
ہم اپنی ہی زمیں پہ ہیں محرومِ اختیار

آزاد جن کی فکر ہے ہر قید و بند سے
دنیا میں وہ ہی لوگ ہیں خوشحال و کامگار

تنگ آ کے قیدِ ارض و سما سے بشر نے کی
پیدا خلا میں اپنے لیے صورتِ فرار

کرنا ہے جس کو جو، بہ شِتابی کرے کے ہیں
معدودِ چند زیست کے لمحات مستعار

پچھتائے جا کے محفلِ شعر و سخن میں آج
اچھا تھا ایک شعر تو سو شعر کم عیار

سمجھا بجھا کے لا اُسے نیکی کی راہ پر
اے شیخ کیوں ڈراتا ہے کاشف کو بار بار

ہے سب کو اپنی رائے کا حق اور اختیار
وہ فرقہ ء یمیں ہو کہ ہو فرقہ ء یسار

محشر بپا تصادُمِ اول سے جو ہوا
جاری ہے اُس کا آج بھی ہر سمت انتشار

پھر رخشِ عقل لے کے بشر کو رواں ہُوا
کیا خوب راہوار ہے، کیا خوب شہسوار

مسحور صوت و لحن سے قاری نے کردیا
کیونکر کہیں نہ صلِ علٰی لوگ بار بار

وعدہ ہے شیخ کا کہ ملاؤں جو ہاں میں ہاں
نازل فلک سے ہوں گے انعاماتِ صد ہزار

ہوتے ہیں روز شیخ کی ہرزہ سرائی سے
گمراہ سیدھے سادھے مسلمان بے شمار

سچ ہے جو بات کہہ دی وہ میں نے بلا دریغ
گُذرا کرے گُزرتی ہے گر اُن کو نا گوار

کاشف لہو سے مزرعِ ہستی کو سینچیے
اشکوں سے ہو سکے گی زمیں یہ نہ آبیار

کاشف یوسف زئی

 
Top