محی الدین نواب کے ناولوں سے اقتباس

قربان

محفلین
آئینے کے سامنے عورت ہو یا مرد سبھی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ (دیوتا-1)

جس طرح ٹافیوں کے پیکٹ کو الماری میں چھپاکر وقتاً فوقتاً ایک ایک ٹافی دیکر بہلایا جاتا ہے اسی طرح عورت دل کے پیکٹ سے محبت کی ایک ایک ٹافی نکال کر دیتی ہے باقی دوسرے وقت کے ل یے بچاکر رکھتی ہے۔ (دیوتا-1)
 

قربان

محفلین
انسان کی فطرت ہے کہ وہ غیر عورت کے متعلق زیادہ سوچتا ہے اپنی عورت گھر کی مرغی دال برابر نظر آتی ہے۔ (دیوتا-1)
 

سیما علی

لائبریرین
بڑے دن کے بعد محی الدین نواب کے دیوتا کے بارے میں پڑھا ۔۔۔بہت ساری پرُانی یادیں وابستہ ہیں دیوتا اور ایمان کا سفر یاد آگیا۔۔۔۔۔
اگر یہ پوچھا جائے کہ معاشرے کو سمجھنے کی اور اچھے برے کی تمیز کو سیکھنے کے لئے اگر کسی نے ڈائجسٹ میں لکھا تو ہمارا جواب یہی ہوگا محی الدین نواب کے ناولوں اور کہانیوں پڑھنے والوں کو بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔
محی الدین نواب اس معاملے میں منفرد ناول نگار ہیں کہ انھوں نے اپنی راہ الگ نکالی۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
نواب صاحب کبھی کبھی کہانیوں میں نصیحتیں بھی خوب کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
جیسے کہتے ہیں اور بہت ہی سچی بات کہتے ہیں ۔۔۔۔۔
عورت کی بنیادی کشش یہ ہے کہ وہ پردہ راز میں رہے۔ حیا کے لباس میں رہے۔
دنیا جانتی رہے کہ پردے میں کیا ہے؟ پھر بھی پہیلی لگتی رہے۔ اسے بوجھنا اچھا لگے۔ یہی عورت کا حسن ہے۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
’’خاموشی کیا ہے؟ خاموشی ایک زبان ہے جسے ہر کوئی اپنے ڈھنگ سے بولتا ہے۔ خاموشی بولتی ہی نہیں چیختی بھی ہے۔ پکارتی اور لتاڑتی بھی ہے، محبوبہ خاموش رہے تو ناراضی … محبوب خاموش رہے تو بزدلی۔والدین خاموش رہیں تو مجبوری.. اولاد خاموش رہے تو سعادت مندی۔
انسان خاموش رہے تو بے بسی… انسانیت خاموش رہے تو بے حسی۔
قوم خاموش رہے تو مظلومیت … اور حکمراں خاموش رہے تو سیاست۔
یہ خاموشی سکہ رائج الوقت ہے۔ جب بھی رائج ہو جاتی ہے تو کسی کو خرید لیتی ہے یا کسی کو بیچ دیتی ہے لیکن….. یہ ہمیشہ رائج نہیں رہتی۔ خاص موقعے اور خاص وقت پر استعمال کی جاتی ہے۔ اسی لیے کم بولنے اور زیادہ سننے والوں کو عقلمند کہا جاتا ہے۔‘‘
(ناول بے زمیں بے آسماں: محی الدین نواب)
 

سیما علی

لائبریرین
’’بندہ گھر کی چاردیواری میں رہے تو باہر کی بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے۔ اپنی چھت کے نیچے رہ کر بدلتے ہوئے موسموں کی سختیوں کو اور طرح طرح کی بیماریوں کو ذرا آسانی سے جھیل لیتے ہیں۔ لیکن گھر سے بے گھر ہوجائے تو نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا، اور اگر اپنے وطن سے نکل جائے تو پھر دو کوڑی کا نہیں رہتا۔ نہ اس کی کوئی منزل ہوتی ہے نہ کوئی راستہ سجھائی دیتا ہے۔‘‘
(آفت جہاں)
 

سیما علی

لائبریرین
’’اس خواب سے ایک بہت ہی تلخ حقیقت کا احساس ہوا۔ یہ یاد کرکے بڑی شرم آئی کہ ہم تمام عمر خدا کا نام لیتے ہیں۔ پانچوں وقت سجدے کرتے ہیں لیکن جب موت آتی ہے تو مارے خوف کے خدا کو بھول کر زندگی کو پکارتے ہیں۔ میں کسی حد تک انسانی نفسیات کو سمجھتا ہوں۔ بڑے سے بڑے عبادت گزار دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھتے اور عبادت کی گہرائیوں میں غرق رہتے ہیں لیکن ان کے لاشعور میں زندگی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ اکثر لوگوں کی عبادت کے پیچھے خودغرضی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ میری بات تسلیم کرلی جائے۔ میں نے تو نیند کی حالت میں عارضی موت مر کر اپنے دوغلے اعمال کو آزمایا ہے۔ میں ایک مصنف ہوکر سچ لکھتا ہوں تو وہ ساری سچائیاں دنیا کے بیشتر افراد کی نفسیاتی عادات پر پوری اترتی ہیں۔‘‘
(اجل نامہ)
 
Top