محفوظ ہاتھ

راشد احمد

محفلین
طیبہ ضیاء چیمہ
شہزادہ سلیم کے کبوتر فضائوں میں پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔ پروں میں چٹھیاں دبائے اِدھر سے اُدھر اڑتے رہتے ہیں۔ ایک اڑتا ہے تو دوسرا منڈیر پر آ کر بیٹھ جاتا ہے۔
امریکہ، سعودی عرب اور انگلینڈ کی فضائوں میں کبوتروں کی اڑان قابل دید بھی ہے اور قابل تشویش بھی۔ کبھی امداد اور کبھی لیکچر زکو جواز بناکر ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں۔ شہزادہ سلیم کو انکی ادا پسند آجائے تو تخت و تاج سے نوازدیتا ہے اور جلال میں آجائے تو دیوار میں چنوا دیتا ہے۔ یوسف گیلانی’’واسطہ ای رب دا توں آویں وے کبوترا‘‘ کی طرح منتظر بار بار آسمان کی طرف تکتا ہے۔
پرویز مشرف دوروز کیلئے نیویارک آئے۔ پاکستانی میڈیا نے انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن معلوم ہوا کہ موصوف کی دو ہوٹلوں میں بکنگ تھی۔ خفیہ سرگرمیاں رہیں‘ تمام وقت انڈر گرائونڈ رہے۔ ایک امریکی شخصیت کیساتھ پر اسرار میٹنگ کا انکشاف ہوا ہے۔ سعودی عرب، لندن، نیویارک، لندن… جب تک کوئی مستقل منڈیر نہیں مل جاتی فضائوں میں پھڑپھڑاتے رہیں گے۔ کبوتروں کی جوڑی خود کو غیر محفوظ خیال کرتی ہے۔ پاکستانی میڈیا سے احتراز کیا جاتا ہے جبکہ غیر ملکی میڈیا سے بات کرنا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کو مشورہ دیا گیا کہ پاکستانی میڈیا سے چند منٹ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن اسے پریس کانفرنس کا رنگ مت دیا جائے۔ فیصلہ ہوا صحافیوں کو پبلک پلیس پر ملا جائے لہذا موصوف سکیورٹی کی برات اور پاکستانی قونصلیٹ کے جنرل کونسلر کے ہمراہ ہوٹل کے قریب ایک کافی ہائوس پہنچے۔ چند صحافیوں کو وہاں بلا لیا گیا۔ اس بار ہاتھ میں سگار کی بجائے کافی کا مگ تھا۔ پاکستانی سفارتخانے اور امریکی پروٹوکول شہزادہ سلیم کیساتھ وفاداری کا ثبوت ہے۔
واشنگٹن میں آصف زرداری اور نیویارک میں پرویز مشرف کی اہم شخصیات کیساتھ خفیہ ملاقاتیں کوئی نیا چن چاڑھیں گی۔ حفاظتی دستوں کے حصار میں یہ غیرمحفوط جوڑی سینہ اکڑا کر کہتی ہے کہ ’’پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں‘‘۔ یہ جملہ سن سن کر لوگوں کے کان ’سُنّ‘ ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کے علمبرداروں نے اپنے ہاتھ خود کاٹ دیئے ہیں۔ ووٹوں کی طاقت اور ایٹم بم کی طاقت کے باوجود سب ’’ٹُنڈے‘‘ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’جیسی قوم ویسا لیڈر‘‘۔ لیڈر اور حکمران میں فرق ہے۔ پاکستان میں حکمران تو بہت آئے لیکن بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے بعد اس قوم کو لیڈر نصیب نہیں ہوسکا۔ حکمران ریاست پر حکومت کرتا ہے جبکہ لیڈر دلوں پر راج کرتا ہے۔ حکمران مر جاتا ہے جبکہ لیڈر مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ پاکستان کے حکمران مجبور ہیں۔ کسی کے ہاتھوں کو سعودی عرب کے احسانات کی ہتھکڑیوں نے باندھ رکھا ہے اور کسی کے ہاتھ این آر او کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان حقیقی لیڈر شپ سے محروم ہے۔ ذرا کوئی امید دلائے اسکے پیچھے چل پڑتے ہیں لیکن سفر ہر بار ادھورا رہ جاتا ہے۔ پاکستان کے معاملات میں امریکہ اکثر سعودی حکمرانوں کا اثرو رسوخ استعمال کرتا ہے۔ جو اپنی جان کی حفاظت کیلئے دوسروں کا آسرا تلاش کرتے ہیں وہ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی بات کرتے ہیں؟ جو ہاتھ غیر ملکی سازشوں کو نہیں روک سکے وہ ایٹمی ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ پرویز مشرف بزدل جرنیل تھا۔ امریکہ کی ایک ٹیلی فون کال پر سولہ کروڑ عوام کے پاکستان کو انکی اجازت اور مشورہ کے بغیر امریکہ کے حوالے کر دیا جبکہ پاکستان اسکی جاگیر تھا اور نہ ہی اسکے باپ دادا کا ترکہ۔
گیارہ ستمبر کے واقعہ میں ایک بھی پاکستانی ہاتھ ملوث نہیں تھا پھر پاکستان کے سولہ کروڑ ہاتھ کس جرم میں کاٹ دیئے گئے؟ امریکہ نے پرویز مشرف سے اتحادی بننے کی گذارش، خواہش، حکم، دھمکی، پیشکش، کی جو کہ مشرف نے بلاچوں چراں منظور کرلی۔ اسکی کمزوری بھی امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ چور دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے والا اقتدار پر بٹھانے والوں کے سامنے سر اٹھا سکتا تھا؟ امریکی مصنف باب وڈوارڈ نے اپنی کتاب ’’بُش ایٹ وار‘‘ میں لکھا ہے کہ بُش انتظامیہ حیران تھی کہ ’’جرنیل مشرف‘‘ نے صرف ایک ٹیلی فون کال پر انکے تمام مطالبات اتنی جلدی اور آسانی کے ساتھ مان لئے‘‘۔ خفیہ سرگرمیوں کیلئے امریکہ کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ اس شخص کی غلامانہ ذہنیت کا ثبوت ہے۔ مشرف بھی چونکہ امریکہ کا بٹھایا اور سکھایا ہوا تھا لہذا اس نے وفاداری کا حق ادا کیا۔ آج پاکستان جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اسکا ذمہ دار مشرف ہے۔ امریکہ کی جنگ اپنے ملک میں لانے والے نے پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مشرف سے پہلے پاکستانی القاعدہ، دہشت گردی، خودکُش دھماکے، کے ناموں سے ناواقف تھے۔ رنگ برنگ انتہا پسند تنظیموں کا موجد مشرف ہے۔ آصف زرداری کی کمزوریاں مشرف کو توانا کر رہی ہیں۔ اس ملک میں جو بھی حکمران آیا خواہ امریکہ کا بٹھایا ہے یا عوام کا لایا ہے، اس نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کوئی بھی کلین ہینڈز نہیں ہے۔
امریکہ کے دفتر میں سب کا ریکارڈ موجود ہے۔ بھیگ مانگنے والے ہاتھ قومی غیرت کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ ایک پاکستانی صاحب جو کہ مشرف کے شدید مخالف تھے، سی این این پر مشرف کا حالیہ انٹرویو دیکھ کر کہتے ہیں مشرف نے کچھ باتیں ٹھیک کہی ہیں۔ یہی سوچ پاکستان کو تباہ کر رہی ہے۔ زرداری حکومت سے دل برداشتہ ہوئے تو مشرف کی باتیں کچھ ٹھیک لگنے لگی ہیں۔
حکمران ہی لوٹے اور منافق نہیں عوام میں بھی یہ مرض کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کبوتر کی ساری اڈاریاں ’’کچھ ٹھیک‘‘ سے ’’بالکل ٹھیک‘‘ تک پہنچنے کیلئے ہیں۔ حکمرانوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں، پاکستان کے ایٹمی اثاثے بھی ملک سے باہر چلے جائیں تو انہیں کچھ فرق نہیں پڑیگا۔ پاکستان کو اسکی نوجوان نسل بچائے گی۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونیوالی ایک تصویر میں پاکستان کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک علاقے سے گندگی اٹھا کر کوڑے کے بیگ میں ڈال رہے ہیں۔ امریکی رائٹر سبرینا نے متاثر ہو تے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل اپنے ملک میں تبدیلی لائیگی۔ وکلاء تحریک نے پاکستان کی نوجوان نسل میں ہمت،حوصلہ اور اعتماد پیدا کر دیا ہے۔ وہ اپنے بڑوں کی طرح حکمرانوں سے امیدیں وابستہ کرنے یا ان پر تنقید کرنے کی بجائے کام کرنے کے قائل ہیں۔ پاکستان کا اصل اثاثہ اسکی نئی نسل ہے اور وہ پاکستان کے ہاتھ مضبوط کریگی۔ ’’پاکستان کے ایٹمی اثاثے مضبوط ہاتھوں میں ہیں‘‘۔ بڈھے کبوتر کب تک فضائوں میں اڑتے رہیں گے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انکا نام کس گولی پر لکھا ہوا ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنی زندگی میں اقوام متحدہ میں رپٹ داخل کرا دیں کہ مرنے کے بعد گولی کا پتہ لگنا ہے اور نہ ہی مارنے والا ملنا ہے۔ دونوں شہزادہ سلیم کے کبوتر ہیں‘ فضائوں میں اڑتے رہتے ہیں‘ کبھی امداد کا بہانہ اور کبھی لیکچرز کا جواز‘ کبھی اس منڈیر پر کبھی اس منڈیر پر۔ انکے ہاتھ محفوظ ہیں اور نہ ہی یہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔

حوالہ روزنامہ نوائے وقت
 
Top