محفلوں سے تنگ آکر تخلیے میں کاٹ دی

محفلوں سے تنگ آکر تخلیے میں کاٹ دی
قید تنہائی کی ہم نے آئینے میں کاٹ دی

نیند کے مارے ہوؤں نے رتجگے میں کاٹ دی
زندگی کی رات ہم نے سوچنے میں کاٹ دی

ہجر تیرا اشک بن کر آنکھ میں پھرتا رہا
راحتوں کی عمر ہم نے المیے میں کاٹ دی

منزلِ ایقان تھی تشکیک کے دریا کے پار
اور ساری زندگی اک مخمصے میں کاٹ دی

ہم کتابِ عشق کا تھے جزوِ لازم اس لیے
حوض سے نکلے تو ہم نے حاشیے میں کاٹ دی

تو جدا جس پل ہوا تھا، ہم اسی میں قید ہیں
زندگی کی ہر گھڑی اس ثانیے میں کاٹ دی

بن ترے وہ پیاس جاگی بجھ نہ پائی جو کبھی
گو کہ ہم نے عمر ساری میکدے میں کاٹ دی

جس جگہ پہ نقشِ پا تیرا نظر آیا ہمیں
زیست کی ہر اک گھڑی اس راستے میں کاٹ دی

عشق کا صحراتھا پیاسا اور ہم مشتاق تھے
قیس کے پیرو ہوئے اور آبلے میں کاٹ دی

اس سے اپنا ہجر کا رشتہ رہا عاؔطف سدا
اور ہم نے بس اسی اک واسطے میں کاٹ دی​

:great::good::zabardast1:
 

اسد قریشی

محفلین
تمام حاضرین و ناظرین کو السلام وعلیکم،

جیسا کے استادِ محترم الف عین فرماتے ہیں کہ "اصلاحِ سخن میں غزل لگی ہے تو ہاتھ تو صاف کرنا ہی پڑے گا" ;)

مجموعی طور پر غزل بہت اچھی ہے، تمام مصارع رواں اور اشعار خوب ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب اس پائے کی غزل ہو تو اس میں ذرا بھی نقص کیوں رہے۔

ہم کتابِ عشق کا تھے جزوِ لازم اس لیے
حوض سے نکلے تو ہم نے حاشیے میں کاٹ دی
شعر بہت اچھا ہے اور آپ اس کی وضاحت بھی فرما چکے ہیں گو کہ ضرورت نہیں تھی۔ میری تکلیف یہ ہے کہ دونوں مصارع میں "ہم " کی تکرار کھٹک رہی ہے، اگر بہتری کی کوئی راہ ممکن ہو تو دیکھ لیں ورنہ بہت لوگ ہیں جن کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ :D

تو جدا جس پل ہوا تھا، ہم اسی میں قید ہیں
زندگی کی ہر گھڑی اس ثانیے میں کاٹ دی
مصرعہ اولٰی میں آپ تخصیص واضح کر چکے ہیں پہلے "جس" اور پھر، "اسی" میری ناقص عقل کے مطابق مصرعہِ ثانی میں"اس " کی ضرورت نہیں رہتی، نیز یہ تنافر کا باعث بھی محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کو "اک" سے تبدیل کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ محض ایک تجویز :rolleyes:

اس سے اپنا ہجر کا رشتہ رہا عاؔطف سدا
اور ہم نے بس اسی اک واسطے میں کاٹ دی
یہاں مصرعہِ ثانی میں "اور" کا استعمال کچھ معیوب محسوس ہو رہا ہے لیکن وضاحت سے معذور ہوں کوئی ممکن صورت ہو تو دیکھ لیں۔

باقی تمام غزل پر بہت داد قبول کیجیئے :applause:
 

عاطف بٹ

محفلین
تمام حاضرین و ناظرین کو السلام وعلیکم،

جیسا کے استادِ محترم الف عین فرماتے ہیں کہ "اصلاحِ سخن میں غزل لگی ہے تو ہاتھ تو صاف کرنا ہی پڑے گا" ;)

مجموعی طور پر غزل بہت اچھی ہے، تمام مصارع رواں اور اشعار خوب ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب اس پائے کی غزل ہو تو اس میں ذرا بھی نقص کیوں رہے۔

ہم کتابِ عشق کا تھے جزوِ لازم اس لیے
حوض سے نکلے تو ہم نے حاشیے میں کاٹ دی
شعر بہت اچھا ہے اور آپ اس کی وضاحت بھی فرما چکے ہیں گو کہ ضرورت نہیں تھی۔ میری تکلیف یہ ہے کہ دونوں مصارع میں "ہم " کی تکرار کھٹک رہی ہے، اگر بہتری کی کوئی راہ ممکن ہو تو دیکھ لیں ورنہ بہت لوگ ہیں جن کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ :D

تو جدا جس پل ہوا تھا، ہم اسی میں قید ہیں
زندگی کی ہر گھڑی اس ثانیے میں کاٹ دی
مصرعہ اولٰی میں آپ تخصیص واضح کر چکے ہیں پہلے "جس" اور پھر، "اسی" میری ناقص عقل کے مطابق مصرعہِ ثانی میں"اس " کی ضرورت نہیں رہتی، نیز یہ تنافر کا باعث بھی محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کو "اک" سے تبدیل کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ محض ایک تجویز :rolleyes:

اس سے اپنا ہجر کا رشتہ رہا عاؔطف سدا
اور ہم نے بس اسی اک واسطے میں کاٹ دی
یہاں مصرعہِ ثانی میں "اور" کا استعمال کچھ معیوب محسوس ہو رہا ہے لیکن وضاحت سے معذور ہوں کوئی ممکن صورت ہو تو دیکھ لیں۔

باقی تمام غزل پر بہت داد قبول کیجیئے :applause:
وعلیکم السلام،
سر، بےحد شکریہ اس عزت افزائی کے لئے۔ مجھے آپ کی تجویز کردہ اصلاحات پڑھ کر خوشی بھی ہوئی اور بہتری کے مواقع بھی دکھائی دئیے۔ جزاک اللہ خیراً
 

اسد قریشی

محفلین
وعلیکم السلام،
سر، بےحد شکریہ اس عزت افزائی کے لئے۔ مجھے آپ کی تجویز کردہ اصلاحات پڑھ کر خوشی بھی ہوئی اور بہتری کے مواقع بھی دکھائی دئیے۔ جزاک اللہ خیراً

بھائی یہ "سر" کہیں اور دے دیجیئے گا، ہمیں اس کی چنداں ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت خوش رہیئے اور لکھتے رہیئے۔۔۔۔۔۔۔(y)
 
Top