اسامہ حماد
محفلین
یہ منزل دشوار تھی ، سر ہوگئی کیسے
حیرت ہے مجھے تاب نظر ہوگئی کیسے
آتے ہی تصور ترا آنسو نکل آئے
کمبخت ان آنکھوں کو خبر ہوگئی کیسے
تھا عزم کہ پہنچوں گا میں تنہا سرمنزل
ہمراہ مرے گرد سفر ہوگئی کیسے
محروم غم عشق سے کوئی تو یہ پوچھے
بے سوز جگر عمر بسر ہوگئی کیسے
جو چوٹ کنگاہوں سے کبھی دل پہ لگی تھی
سرمایہ تسکین جگر ہو گئی کیسے
طے ہو تو گئی راہ وفا اہل جنوں سے
معلوم نہیں طے یہ مگر ہو گئی کیسے
ان مست نگاہوں کو خبر بھی نہیں کیفی
دنیائے سکوں زیر و زبر ہوگئی کیسے
کلام: جناب زکی کیفی مرحوم
حیرت ہے مجھے تاب نظر ہوگئی کیسے
آتے ہی تصور ترا آنسو نکل آئے
کمبخت ان آنکھوں کو خبر ہوگئی کیسے
تھا عزم کہ پہنچوں گا میں تنہا سرمنزل
ہمراہ مرے گرد سفر ہوگئی کیسے
محروم غم عشق سے کوئی تو یہ پوچھے
بے سوز جگر عمر بسر ہوگئی کیسے
جو چوٹ کنگاہوں سے کبھی دل پہ لگی تھی
سرمایہ تسکین جگر ہو گئی کیسے
طے ہو تو گئی راہ وفا اہل جنوں سے
معلوم نہیں طے یہ مگر ہو گئی کیسے
ان مست نگاہوں کو خبر بھی نہیں کیفی
دنیائے سکوں زیر و زبر ہوگئی کیسے
کلام: جناب زکی کیفی مرحوم