محترمہ مریم افتخار صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

فرحت کیانی

لائبریرین
بنجر زمین صرف ایک تشبیہ کیلئے استعمال کیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کم قابلیت والے طالب علموں پر محنت ہی نہ کی جائے۔ بقول ہادیہ وہ استاد کی توجہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ (حقدار ہیں یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا ،پھر بحث طول پکڑے گی ) اور ان کو توجہ ملنی بھی چاہیئے ۔ بلکہ اکثر اساتذہ ان کو زیادہ توجہ دیتے بھی ہیں ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن پر استاد کتنی بھی محنت کرے کوئی بات ان کے بھیجے میں گھستی نہیں ہے۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ ہی سکول گئے لیکن بالآخر انکو پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے کام اختیار کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے۔
میں آپ کو اپنے ایک کزن اور بچپن کے ایک دوست کی مثال دیتا ہوں. دونوں مجھ سے 3 سال پہلے سکول میں داخل ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں ہم اکٹھے ہوگئے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہر استاد ان پر کتنی محنت کرتا تھا۔ لیکن نتیجہ صفر۔ میرا کزن ہمیشہ ایک سکریو ڈرائیور جیب میں لیکر مدرسہ آتا جاتا تھا جسے وہ دوسروں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتا تھا۔ جسے میں نے دوست کہا ہے وہ اپنی کھیتی کی سبزی بلکہ دوسروں کی کھیتیوں کی سبزی بھی چراکر بیچنے لے جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ دونوں کو نہ پڑھائی سے دلچسپی تھی اور نہ تعلیم حاصل کرنے کی قابلیت۔ مجبوراً اساتذہ کو ان کے گھر جاکر ان کے والدین کو صورت حال سے آگاہ کرنا پڑا۔ اسطرح ان کی پڑھائی چھوٹ گئی ۔
لیکن سکریوڈرائیور والا میرا کزن آج ایک کامیاب الیکٹریشن کم پلمبر ہے اور اس کے کئی شاگرد ہیں۔ میرا چور دوست کامیاب بزنس مین ہے۔ دونوں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے شائد ایسے طریقے بھی ایجاد یا دریافت ہوئے ہوں کہ کند ذہن آدمی کو بھی چلاک اور قابل بنایا جاسکے۔ کیونکہ آج کے زمانے میں بہت کچھ ممکن ہے جو 20 یا 25 سال پہلے ناممکن ہوا کرتا تھا۔
جب پڑھنے یا سیکھنے کا مطلب اپنے لیے درست راہ کا چناو ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس چیز پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔ کوئی بھی انسان ہر چیز میں بہترین یا کم ترین نہیں ہوتا۔ ہماری صلاحیتیں ہر میدان میں مختلف ہوتی ہیں۔ میں ایک چیز میں بہت اچھی لیکن دوسری میں بالکل صفر بھی ہو سکتی ہوں۔ اب کرنا یہ ہے کہ اس صلاحیت کو پرکھا جائے اور مجھے درست راہ دکھائی جائے۔ جو مثال آپ نے دی وہ multiple intelligence تھیوری کی بہترین مثال ہے۔ آپ یا آپ کے دوست بنجر زمین نہیں تھے بلکہ ان کا رجحان عام بچوں سے مختلف تھا۔ بنیادی تعلیم کا مقصد اسی رحجان کو دیکھنا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم بطور والدین یا اساتذہ اس بات سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ سو لائق و نا لائق کا لیبل لگ جاتا ہے۔
استاد کا بالکل یہی کام ہے کہ وہ عمومی پڑھائی میں کم کاکردگی دکھانے والے بچوں پر زیادہ توجہ دے، وجہ تلاش کرے اور پھر اس کی درست رہنمائی کے لیے درست قدم اٹھائے۔ پڑھائی برائے اچھا گریڈ اور پڑھائی برائے اچھی نوکری (ڈاکٹر و انجینئر) کی دوڑ نے ہمیں پڑھنے لکھنے کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ارے بہنا زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں بس مذاق کررہا ہوں۔

ویسے اگر طالب علم میں قابلیت اور علم حاصل کرنے کے تئیں لگن ہے تب ہی وہ اساتذہ سے استفادہ کرسکتا ہے۔
کچھ میرے جیسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں سمجھانا یا پڑھانا بالکل بےکار ہوتا ہے۔ کسی کے ماتھے پہ ہی اگر لکھا ہوگا "الارض" تو وہ زمین ہی جوت سکتا ہے۔ اساتذہ کی محنت تب رنگ لاتی ہے جب طالب علم بھی خوب محنت کرے۔ زرخیز زمین ہی فصل دیتی ہے ۔ بنجر پہ محنت کرنا بےکار ہوتا ہے۔
بنجر زمین کو بھی کام میں لایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کا تعلق زرعی میدان (آج کل کے مشہور محکمہ زراعت کی بات نہیں کر رہی) سے ہے تو آپ تو یہ بات زیادہ بہتر طور پر جانتے ہوں گے۔
 

سید عمران

محفلین
طلبہ کی assessment اصل میں استاد کی evaluation ہے۔ کسی بھی درجے پر اگر طلبہ میں کمی رہ جاتی ہے تو اس کا مطلب استاد کے سکھانے میں کمی رہ گئی ہے اب چاہے وہ اول جماعت کا بچہ ہے یا ماسٹرز کا۔ جس دن اساتذہ کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ امتحان کا نتیجہ بچوں کی کارکردگی یا قابلیت کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ استاد کی اہلیت اور کارکردگی کا آئینہ دار ہے، assessment کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔
واہ کیا بات کہی ہے۔۔۔
سولہ آنے درست۔۔۔
دل خوش کن!!!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں اس موضوع پہ اس لیے بات نہیں کروں گی ۔ کیونکہ جمعہ جمعہ آٹھ دن میں انسان نا تو پرفیکٹ ٹیچر بن سکتا نا ہی ایسے موضوعات پہ کوئی بحث و مباحثہ کر سکتا۔۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ٹریننگز کے ذریعے اس کمی بیشی کو پورا کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔۔ میں نے ٹریننگ کے دوران بہت بہت کچھ سیکھا ہے ۔۔ اور جس گاؤں پڑھانے جاتی ہوں وہاں کچھ حد تک اس کو امپلیمنٹ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔۔ جیسے رٹا سسٹم کو ختم کرنے کے لیے مختلف ایکٹیویٹیز کے ذریعے سیکھانا، گیمز، مختلف ٹاپکس پہ برین سٹارمنگ وغیرہ۔ سٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کی evaluation ہونا زیادہ ضروری ہے۔۔ کیونکہ بچہ اسی طریقے سے سیکھے گا جیسا اسے سیکھایا جائے گا ۔۔ اگر ٹیچرز سٹوڈنٹس کی assessment بہتر طریقے سے کریں گے تو یقینا وہ ٹیچرز کی evaluation کی جانب ایک اچھا قدم ہوگا۔ ابھی آغاز ہے ۔سالوں سے جو نظام چلا آرہا ۔۔ اس کو بدلنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔۔ اس لیے مجھے تو فی الحال سیکھنا ہے۔ فرحت آپی یقینا تجربہ کار ہیں ۔ کمی تو یقینا ہے اساتذہ کے وے آف ٹیچنگ میں۔۔ اسی لیے میں یہی کہتی ہوں میں استاد نہیں ہوں بلکہ ابھی بھی سٹوڈنٹ ہوں۔۔ اور مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔۔ :)


محنت ہمیشہ "بنجر زمین" پہ ہی کرنی چاہیے ۔۔ جو آلریڈی زرخیز ہو ۔۔وہاں کم توجہ اور محنت سے بھی اچھا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔۔ ہماری غلطی بھی یہی ہے ۔۔ ہم ذہین کو مزید ذہین بنانے کے چکر میں رہتے تاکہ وہ نمبروں کی اس دوڑ میں آگے نکل جائے۔۔ اور ہمارے ادارے کا نام روشن کرسکے۔۔ لیکن جو پیچھے ہوتے ہیں ان کی طرف دیکھتا کوئی نہیں یا ہم انہیں ہمیشہ "اگنور لسٹ" میں رکھ دیتے ہیں۔۔
ہادیہ آپ ایک real teacher ہیں۔(y)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بنجر زمین صرف ایک تشبیہ کیلئے استعمال کیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کم قابلیت والے طالب علموں پر محنت ہی نہ کی جائے۔ بقول ہادیہ وہ استاد کی توجہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ (حقدار ہیں یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا ،پھر بحث طول پکڑے گی ) اور ان کو توجہ ملنی بھی چاہیئے ۔ بلکہ اکثر اساتذہ ان کو زیادہ توجہ دیتے بھی ہیں ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن پر استاد کتنی بھی محنت کرے کوئی بات ان کے بھیجے میں گھستی نہیں ہے۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ ہی سکول گئے لیکن بالآخر انکو پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے کام اختیار کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے۔
میں آپ کو اپنے ایک کزن اور بچپن کے ایک دوست کی مثال دیتا ہوں. دونوں مجھ سے 3 سال پہلے سکول میں داخل ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں ہم اکٹھے ہوگئے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہر استاد ان پر کتنی محنت کرتا تھا۔ لیکن نتیجہ صفر۔ میرا کزن ہمیشہ ایک سکریو ڈرائیور جیب میں لیکر مدرسہ آتا جاتا تھا جسے وہ دوسروں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتا تھا۔ جسے میں نے دوست کہا ہے وہ اپنی کھیتی کی سبزی بلکہ دوسروں کی کھیتیوں کی سبزی بھی چراکر بیچنے لے جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ دونوں کو نہ پڑھائی سے دلچسپی تھی اور نہ تعلیم حاصل کرنے کی قابلیت۔ مجبوراً اساتذہ کو ان کے گھر جاکر ان کے والدین کو صورت حال سے آگاہ کرنا پڑا۔ اسطرح ان کی پڑھائی چھوٹ گئی ۔
لیکن سکریوڈرائیور والا میرا کزن آج ایک کامیاب الیکٹریشن کم پلمبر ہے اور اس کے کئی شاگرد ہیں۔ میرا چور دوست کامیاب بزنس مین ہے۔ دونوں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے شائد ایسے طریقے بھی ایجاد یا دریافت ہوئے ہوں کہ کند ذہن آدمی کو بھی چلاک اور قابل بنایا جاسکے۔ کیونکہ آج کے زمانے میں بہت کچھ ممکن ہے جو 20 یا 25 سال پہلے ناممکن ہوا کرتا تھا۔
ہر طالب علم استاد کی بھرپور اور یکساں توجہ کا 'حق دار' ہوتا ہے۔ استاد کا کام اس کی صلاحیتوں کو جلا بخشنا اور اس کی قابلیت کے مطابق اس کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔
 

نسیم زہرہ

محفلین
استاد اور شاگرد کا رشتہ "پیر و مرید" یا "روحانی والدین و روحانی اولاد" کا ہونا چاہئے
لیکن آج کے دور میں یہ رشتہ صرف کاروباری رشتہ بن کر رہ گیا ہے، استاد کو معاوضے اور شاگرد کو اچھے معاوضے کے لیئے ڈگری کی ضرورت ہے
 

سید عمران

محفلین
آخر ایسا کیوں ۔۔۔؟
فطرت روح کا حصہ ہے یا جسم کا ؟ اور یہ کیسے جسم و جاں پر اپنا قبضہ جما اپنی مرضی پر چلنے کے لیئے نہ صرف مجبور کرتی ہے بلکہ کامیاب رہتی ہے ۔
بہت دعائیں
فطرت کو آپ آسان الفاظ میں انسان کا مزاج کہہ لیں۔۔۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی کیمیکل ہسٹری الگ الگ بنائی ہے، اسی طرح مزاج بھی الگ الگ ہیں۔۔۔
مثلاً کسی کو غصہ بہت زیادہ آتا ہے کسی کو بہت کم اور کسی کو درمیانے درجہ کا۔۔۔
اسی پر باقی صفات مثلاً سنجیدہ مزاجی، خوش مزاجی، کنجوسی، فضول خرچی، سستی کاہلی وغیرہ کو قیاس کرلیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ سے انسان کو ان صفات میں رد و بدل کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی حکم، صرف موقع مناسبت کے لحاظ سے ان کے اظہار کرنے کا یا روکنے کا حکم ہے۔۔۔
کمی اور زیادتی کے درمیان اعتدال کے اس درجہ کو احادیثِ مبارکہ میں ’’حسنِ اخلاق‘‘ کہا گیا ہے۔۔۔
انبیاء، اولیاء اور صوفیاء کے یہاں ان صفات پر قابو پانے کی مشق کرائی جاتی ہے جسے ’’اِمالہ‘‘ کرنا کہتے ہیں ۔۔۔
جبکہ ان صفات کو سرے سے ختم کرنے، نابود کرنے کو ’’اِزالہ‘‘ کرنا کہا جاتا ہے۔۔۔
بس اتنی سی بات ہے کہ انسان کو ان صفات کے ازالہ کا نہیں امالہ کا مکلف بنایا گیا ہے اور آخرت میں بھی اس کی پوچھ نہیں ہوگی کہ غصہ، کنجوسی یا سستی ختم کیوں نہیں کیں، بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ ان پر قابو پا کر انہیں اعتدال کے درجہ میں کیوں نہیں لایا گیا!!!
 

سید عمران

محفلین
جب پڑھنے یا سیکھنے کا مطلب اپنے لیے درست راہ کا چناو ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس چیز پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔ کوئی بھی انسان ہر چیز میں بہترین یا کم ترین نہیں ہوتا۔ ہماری صلاحیتیں ہر میدان میں مختلف ہوتی ہیں۔ میں ایک چیز میں بہت اچھی لیکن دوسری میں بالکل صفر بھی ہو سکتی ہوں۔ اب کرنا یہ ہے کہ اس صلاحیت کو پرکھا جائے اور مجھے درست راہ دکھائی جائے۔ جو مثال آپ نے دی وہ multiple intelligence تھیوری کی بہترین مثال ہے۔ آپ یا آپ کے دوست بنجر زمین نہیں تھے بلکہ ان کا رجحان عام بچوں سے مختلف تھا۔ بنیادی تعلیم کا مقصد اسی رحجان کو دیکھنا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم بطور والدین یا اساتذہ اس بات سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ سو لائق و نا لائق کا لیبل لگ جاتا ہے۔
استاد کا بالکل یہی کام ہے کہ وہ عمومی پڑھائی میں کم کاکردگی دکھانے والے بچوں پر زیادہ توجہ دے، وجہ تلاش کرے اور پھر اس کی درست رہنمائی کے لیے درست قدم اٹھائے۔ پڑھائی برائے اچھا گریڈ اور پڑھائی برائے اچھی نوکری (ڈاکٹر و انجینئر) کی دوڑ نے ہمیں پڑھنے لکھنے کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے۔
بہت بہترین تجزیہ!!!
 

م حمزہ

محفلین
کیوں کہ ہمارے ہاں بچے کی پڑھائی کے میدان اور کام کے شعبے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کا رجحان نہیں دیکھا جاتا۔
آپ کی بات صحیح ہے۔ البتہ میرا خیال ہے یہ بہت مشکل کام ہے۔ انسان کی سوچ اور دلچسپی بھی تو بدلتی رہتی ہے۔ آپ نبیل بھائی کی مثال لیں۔ شاید انہوں نے بھی کسی حد تک اپنا فیلڈ تبدیل کیا تھا۔ یہ تو وہ رہے جن کو آپ سب جانتے ہیں۔ اردو محفل پر شاید کئی اور بھی ایسے ہوں جنہوں نے اپنی مرضی سے اپنا فیلڈ تبدیل کیا ہو۔
اب کشمیر کی مثال لیں۔ آپ شاہ فیصل کے بارے میں پڑھیں۔ ان کی طرح کئی لوگ ہیں کشمیر میں، جنہوں نے ایک فیلڈ میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن پھر اپنی مرضی سے ہی دوسرے فیلڈ کی طرف سوئچ کیا۔
ذاکر نائک کو کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
یہ ناول اس قدر طاقتور بیانئے کے حامل ہیں کہ اکثر ٹین ایجرز بچیوں کو رہبانیت کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ عمل سے دور کرتے صرف اللہ سوہنے کو اپنی ملک بنانے کی خواہش میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ گویا ٹرک بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں ۔ نہ وہ بتی ہاتھ آئے نہ اللہ دکھے ۔۔؟

۔میں بھی اپنے متعلق یہ نہیں سمجھتی کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ عمل سے دور اور رہبانیت کے قریب آئی ہوں۔ :)
کوئی مجھے سمجھائے گا کہ یہاں رہبانیت سے کیا مراد ہے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
کیا جناب اقبال کو مرد میداں کہا جا سکتا ہے ؟

کیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جناب اقبال " گفتار کے غازی " تھے ۔۔۔۔ ؟
اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔۔۔
ضروری نہیں کہ جو بہترین انداز سےترغیب دے وہ عمل بھی اتنا ہی اچھا کرسکے۔۔۔
اور جو عملی میدان کا ماہر ہو اسے دوسروں کو قائل اور مائل کرنا بھی اتنا ہی اچھا آتا ہو۔۔۔
قلم و زبان سے دوسروں کو مثبت زاویہ نظر دینا بھی ایک فن ہے، بہتر ہے اسے یہ کام اچھے انداز سے کرنے دیا جائے۔۔۔
حدیث میں آتا ہے الدال علی الخیر کفاعلہ۔۔۔
بھلائی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہے۔۔۔
یعنی اگر آپ کی ترغیب سے کسی نے اچھا کام کرلیا تو آپ کو بھی اس عمل کا اجر ملے گا۔۔۔
تو معلوم ہوا کہ مثبت انداز و فکر کا گفتار کا غازی ہونا بھی بڑی بات ہے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
میں نے تو اس کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ حقوق العباد اور دنیا میں اپنے رَول سے کٹ جانا.
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بالکل الگ فطرت سے پیدا کیا ہے۔۔۔
کوئی بہت زیادہ سوشل ہوتا ہے تو کسی کو فطرتاً تنہائی پسند ہوتی ہے۔۔۔
کیا ایسے شخص کے لیے اسلام میں کوئی راستہ نہیں؟؟؟
دنیا کے کام جھنجھٹوں سے جس کا دل گھبراتا ہو اگر اس کو اس کی فطرت کے خلاف کام کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس کا انجام جتنا برا ہو کم ہے۔۔۔
اس لیے ایسے لوگوں کے لیے بھی راستے ہیں۔۔۔
مگر ان کو عیسائیت کی رہبانیت سے جوڑنا قطعی مناسب نہیں۔۔۔
اس کے علاوہ کچھ لوگ اپنے کسی خاص مشغلے میں اتنے منہمک ہوتے ہیں کہ کسی طور مخلوق سے میل جول کا وقت نہیں نکال پاتے حتی کہ نکاح جیسی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔۔۔
ایسے لوگوں کو زبردستی کسی خاتون کو محبوس کرنے یا نکاح کرکے اس بے چاری کی زندگی خراب کرنے کو نہیں کہا جائے گا۔۔۔
مثلاً ایک بہت بڑے محدث امام نووی رحمۃ اللہ علیہ علم کی مشغولیت میں اتنے منہمک تھے کہ ساری عمر کنوارے رہے۔۔۔
علم کے ضمن میں بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔۔۔
اسی طرح بعض لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی محبت کا اثر اتنا غالب رہا کہ ان سے کاروبارِ سلطنت نہ چل سکے اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں کو نکل گئے جیسے حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بلخ کی سلطنت چھوڑی اور حضرت اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے سمنان کی بادشاہت۔۔۔
کوئی سلطنت پر مرتا ہے کوئی اسے چھوڑتا ہے۔۔۔
ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا۔۔۔
عوام کے لیے احکامات اور ہیں اور خواص کے لیے اور!!!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آپ کی بات صحیح ہے۔ البتہ میرا خیال ہے یہ بہت مشکل کام ہے۔ انسان کی سوچ اور دلچسپی بھی تو بدلتی رہتی ہے۔ آپ نبیل بھائی کی مثال لیں۔ شاید انہوں نے بھی کسی حد تک اپنا فیلڈ تبدیل کیا تھا۔ یہ تو وہ رہے جن کو آپ سب جانتے ہیں۔ اردو محفل پر شاید کئی اور بھی ایسے ہوں جنہوں نے اپنی مرضی سے اپنا فیلڈ تبدیل کیا ہو۔
اب کشمیر کی مثال لیں۔ آپ شاہ فیصل کے بارے میں پڑھیں۔ ان کی طرح کئی لوگ ہیں کشمیر میں، جنہوں نے ایک فیلڈ میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن پھر اپنی مرضی سے ہی دوسرے فیلڈ کی طرف سوئچ کیا۔
ذاکر نائک کو کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔
بچے کو اس کی خوبیوں صلاحیتوں کا ادراک اور اس کی رہنمائی کرنا استاد کا کام ہے۔ بڑے ہونے کے بعد انسان اس قابل ہوتا ہے بدلتی ترجیحات اور دلچسپی کے تحت اپنا شعبہ یا سمت چن لے۔ آپ میرے جواب کو خالصتا نوکری کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔ میں بچے کی شخصیت کی تعمیر میں استاد کے کردار کی بات کر رہی ہوں۔ روزگار کا شعبہ اس رہنمائی کا ایک جزو ہے کل نہیں۔
 

ربیع م

محفلین
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بالکل الگ فطرت سے پیدا کیا ہے۔۔۔
کوئی بہت زیادہ سوشل ہوتا ہے تو کسی کو فطرتاً تنہائی پسند ہوتی ہے۔۔۔
کیا ایسے شخص کے لیے اسلام میں کوئی راستہ نہیں؟؟؟
دنیا کے کام جھنجھٹوں سے جس کا دل گھبراتا ہو اگر اس کو اس کی فطرت کے خلاف کام کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس کا انجام جتنا برا ہو کم ہے۔۔۔
اس لیے ایسے لوگوں کے لیے بھی راستے ہیں۔۔۔
مگر ان کو عیسائیت کی رہبانیت سے جوڑنا قطعی مناسب نہیں۔۔۔
اس کے علاوہ کچھ لوگ اپنے کسی خاص مشغلے میں اتنے منہمک ہوتے ہیں کہ کسی طور مخلوق سے میل جول کا وقت نہیں نکال پاتے حتی کہ نکاح جیسی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔۔۔
ایسے لوگوں کو زبردستی کسی خاتون کو محبوس کرنے یا نکاح کرکے اس بے چاری کی زندگی خراب کرنے کو نہیں کہا جائے گا۔۔۔
مثلاً ایک بہت بڑے محدث امام نووی رحمۃ اللہ علیہ علم کی مشغولیت میں اتنے منہمک تھے کہ ساری عمر کنوارے رہے۔۔۔
علم کے ضمن میں بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔۔۔
اسی طرح بعض لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی محبت کا اثر اتنا غالب رہا کہ ان سے کاروبارِ سلطنت نہ چل سکے اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں کو نکل گئے جیسے حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بلخ کی سلطنت چھوڑی اور حضرت اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے سمنان کی بادشاہت۔۔۔
کوئی سلطنت پر مرتا ہے کوئی اسے چھوڑتا ہے۔۔۔
ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا۔۔۔
عوام کے لیے احکامات اور ہیں اور خواص کے لیے اور!!!
بہترین طریقہ کون سا ہے؟
خواص والا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا؟
 

سید عمران

محفلین
بہترین طریقہ کون سا ہے؟
خواص والا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا؟
اسلام میں ہر ایک کے احکام الگ ہیں...
مثلاً جو بیوی بچوں کے حقوق کسی وجہ سے ادا نہیں کرسکتا اس پر زبردستی اس کا بوجھ ڈالنا نہیں چاہیے...
مثال کے لیے حدیث پاک ہے کہ جو بیوی کے نان نفقہ و دیگر حقوق کی ادائیگی نہ کرسکتا ہو اسے چاہیے کہ جذبات کا زور توڑنے کے لیے بکثرت روزے رکھے...
اس کے لیے یہی طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا بتایا ہوا ہے...
یہ نہیں کہ بس نکاح کرنا ہی سنت کا راستہ ہے...
اسپیشل کیسز کے لیے اسپیشل احکامات ہیں...
کسی کے لیے نکاح کرنا سنت، کسی کے لیے نہ کرنا سنت!!!
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
اسلام میں ہر ایک کے احکام الگ ہیں...
جو کسی شعبے میں معذور ہے اس کا عذر قبول کرنا چاہیے!!!
معذور کی تو خیر بات ہی الگ ہے.
باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ خشیت و تقویٰ کسی میں نہیں ہو سکتا اس سلسلے میں مشہور حدیث بھی ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ : أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ
اگر خواص و عوام کیلئے الگ الگ احکامات کے بارے قرآن و سنت میں دلیل موجود ہے تو ضرور آگاہ کیجئے.
 

سید عمران

محفلین
معذور کی تو خیر بات ہی الگ ہے.
باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ خشیت و تقویٰ کسی میں نہیں ہو سکتا اس سلسلے میں مشہور حدیث بھی ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ : أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ
اگر خواص و عوام کیلئے الگ الگ احکامات کے بارے قرآن و سنت میں دلیل موجود ہے تو ضرور آگاہ کیجئے.
دوبارہ مراسلہ پڑھیں...
کچھ اضافہ و ترمیم کی ہے!!!
 
Top