محترمہ فاطمہ جناح کا یوم پیدائش

30 جولائی کو محترمہ فاطمہ جناح کا یومِ پیدائش تھا جو کہ خاموشی سے گزر گیا۔اس پر جاوید چودھری کی چند خوبصورت اور تلخ باتیں
 

نایاب

لائبریرین
مادرِ ملت، سنسر کی زد میں
....عقیل عباس جعفری....

محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن ہی نہیں بلکہ ان کی فکری وراثت کی بھی امین تھیں۔ ان کی زندگی کا بیش تر حصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا تھا خصوصاً قائداعظم کی زندگی کے آخری انیس برس تو ایسے تھے جب محترمہ فاطمہ جناح ، لمحہ بہ لمحہ اپنے بھائی کے ساتھ رہی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ بھائی اور بہن کے مزاج میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں تھا۔ وہی جذبہ خدمت عوام، وہی جرا
¿ت و بے باکی اور وہی یقین محکم جو بھائی کی خصوصیات تھیں، قدرت نے بہن کو بھی ودیعت کردی تھیں۔
محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے دوش بدوش 1936ءمیں ہی خدمت قوم و وطن کا بیڑا اٹھالیا اور مسلمان عورتوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی۔ مسلمانوں کی پسماندگی کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر خاتون پاکستان نے برصغیر کا شہر بہ شہر دورہ کرکے مسلمان عورتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کردی اور یہ محترمہ کی مساعی کا ہی نتیجہ تھا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں مسلمان عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ قابل تعریف خدمات انجام دیں۔
پاکستان بننے اور قائداعظم کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے پیش نظر ہمیشہ یہ رہا کہ کس طرح اس مملکت خداداد کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے اور اسے دنیا کی ایک بہترین مملکت کے قالب میں ڈھالا جائے۔ اس حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح نے مسلسل جدوجہد کی اور وہ مختلف مواقع پر قوم سے مخاطب بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ریڈیو پاکستان سے بھی عوام سے خطاب کیا۔ اس سلسلے کا آغاز قائداعظم کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا۔
ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور محترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے گلبانگ حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی تقریر 5 نومبر 1947ءکو نشر ہوئی تھی۔ قائداعظم کی زندگی ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کی دوسری تقریر 28 مارچ 1948ءکو ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے نشر ہوئی۔ تاہم محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ریڈیو پاکستان سے جو پہلی تقریر نشر کی اس کی تاریخ نشریہ27 ستمبر 1948ءتھی۔
ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یوم آزادی، یوم وفات قائداعظم اور عیدالفطر کے مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح اپنی نشری تقریروں کے ذریعہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں، ان تمام تقاریر اور بیانات کے مسودے محترمہ کی تقاریر کے پہلے مجموعے گلبانگ حیات میں محفوظ ہیں۔
مگر 11 ستمبر 1951ءکو قائداعظم کی تیسری برسی کے موقع پر محترمہ فاطمہ جناح کی ایک تقریر کے قضیے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔
ہوا یوں کہ اس دن ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹوڈیوز سے محترمہ فاطمہ جناح نے اردو زبان میں ایک تقریر نشر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کیا اور نام لیے بغیر وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت پر بھی تنقید کی۔ تقریر کے آخر میں انہوں نے عوام سے کہاکہ وہ قائداعظم کی رفتار، گفتار اور کردار کو اپناتے ہوئے اپنی مملکت اور قوم میں وہ انقلاب پیدا کردیں جس سے دنیا لرز اٹھے اور پھر کسی کو ان سے مقابلے کی جرات نہ ہو۔
تقریر کی ریکارڈنگ سے قبل ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر زیڈ اے بخاری نے،جو تقریر کا مسودہ دیکھ چکے تھے، محترمہ فاطمہ جناح سے درخواست کی کہ وہ اس تقریر کے بعض ”قابل اعتراض“ حصوں کو حذف کردیں، مگر محترمہ نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور اصرار کیا کہ ان کی تقریر کو یا تو بلاترمیم نشر کیا جائے یا اعلان کردیا جائے کہ آج محترمہ تقریر نہیں کرسکیں گی۔
زیڈ اے بخاری اس وقت تو خاموش ہوگئے کہ مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ جب تقریر نشر ہوئی تو سننے والوں نے دو مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح کی آواز کو ڈوبتا ہوا محسوس کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دونوں مواقع ان دو جملوں سے مطابقت رکھتے تھے جن پر زیڈ اے بخاری کو اعتراض تھا۔
یہ معاملہ جونہی محترمہ فاطمہ جناح کے علم میں آیا انہوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور پریس نے بھی فوراً ہی اس کے حوالے سے خبریں چھاپنی شروع کردیں۔ یہ خبریں شائع کرنے میں انگریزی اخبارات ایوننگ ٹائمز اور ٹائمز آف کراچی اور اردو اخبار جنگ پیش پیش تھے۔ ان اخبارات نے نہ صرف اس واقعے کے حوالے سے خبریں شائع کیں بلکہ حکومت کے خلاف تندوتیز اداریے بھی تحریر کیے۔ ایوننگ ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کی نشری تقریر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری صرف ریڈیو پاکستان پر ہی نہیں بلکہ وزارتِ اطلاعات و نشریات اور ساری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ اخبارات کے دباﺅ کے بعد ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ زیڈ اے بخاری نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایک معافی نامہ روانہ کیا مگر محترمہ نے ان کی معروضات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اگلے روز بخاری صاحب نے محترمہ کو ایک اور معذرت نامہ ارسال کیا اور اعلان کیا کہ 24 ستمبر کی شب محترمہ کی تقریر دوبارہ نشر کی جائے گی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے بخاری صاحب کی ان معروضات کو بھی ماننے سے انکار کردیا جس کے بعد بخاری نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایک تیسرا معذرت نامہ تحریر کیا اور اس دوران محترمہ کی تقریر بھی ریڈیو پاکستان سے بغیر کسی سنسر کے دوبارہ نشر کردی۔
قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
”(محترمہ فاطمہ جناح کی) تقریر نشر ہورہی تھی کہ ایک مقام پر پہنچ کر اچانک ٹرانسمیشن بند ہوگئی۔ کچھ لمحے ٹرانسمیشن بند رہی۔ اس کے بعد خود بخود جاری ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مس جناح کی تقریر میں کچھ فقرے ایسے تھے جن میں حکومت پر کچھ تنقید تھی۔ وہ تو بدستور ان فقروں کو مائک پر پڑھتی گئیں، لیکن ٹرانسمیشن بند ہوجانے کی وجہ سے وہ فقرے براڈ کاسٹ نہ ہوسکے۔ اس بات پر بڑا شور شرابا ہوا۔ اخباروں میں بہت سے احتجاجی بیانات بھی آئے۔ اگرچہ ریڈیو پاکستان کا مو
¿قف یہی تھا کہ ٹرانسمیشن میں رکاوٹ کی وجہ یہ تھی کہ اچانک بجلی فیل ہوگئی تھی، لیکن کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ مس جناح کی تقریر میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جسے حذف کرنے کے لیے یہ سارا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ اس ایک واقعہ نے حکومت کے اعتماد کو جتنی ٹھیس پہنچائی اتنا نقصان مس فاطمہ جناح کے چند تنقیدی جملوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔
جن دنوں یہ قضیہ اپنے عروج پر تھا، ایک روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وزیر داخلہ و اطلاعات کے کمرے میں یہ بات طے کرنے کے لیے میٹنگ ہوئی کہ اس قصے کے متعلق پبلک میں جو چہ میگوئیاں ہورہی ہیں، ان پر کس طرح قابو پایا جائے۔ بے حد طویل اور بعیداز کار بحث و تمحیص کے بعد آخر مسٹر جی۔ احمد نے تجویز پیش کی کہ کسی نامور شخصیت سے انکوائری کروا کے یہ ثابت کیا جائے کہ مس جناح کے براڈ کاسٹنگ کے دوران بجلی کی کرنٹ فیل ہوگئی تھی۔ اس انکوائری رپورٹ کی اشاعت کے بعد زبان خلق خود بخود بند ہوجائے گی اس کے برعکس وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین کو اصرار تھا کہ انکوائری بے لاگ اور غیر جانب دار ہونی چاہیے۔ اگر یہ ثابت ہوکہ بجلی فیل نہیں ہوئی تو اس بات کا بھی برملا اعتراف کرنا ضروری ہے تاکہ پبلک کے ذہن میں مزید بدگمانیاں پیدا نہ ہوں۔ سیکریٹری اور وزیر کے درمیان اس بحث کی تلخ کلامی نے بڑا طول کھینچا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خواجہ صاحب بھی یہی سمجھتے تھے کہ بجلی فیل نہیں ہوئی، اور اب وہ اس بات کو کھلم کھلا منظرعام پر لانے کے لیے بے تاب تھے۔ “
یہی واقعہ ذرا سی تبدیلی کے ساتھ کی ضمیر نیازی نے بھی اپنی کتاب Press in Chains میں رقم کیا ہے۔ وہ زیڈ اے سلہری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”ان موقعوں پر جہاں مس فاطمہ جناح لیاقت کی حکومت پر تنقید کررہی تھیں، ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی.... معلوم ہوا کہ جب مس جناح 11 ستمبر 1951ءکو قائد کی برسی پر قوم کے نام اپنے معمول کا سالانہ براڈ کاسٹ تیار کررہی تھیں، کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ زیڈ اے بخاری نے ان سے تقریر کا مسودہ حاصل کیا اور اس کے دو ناقدانہ جملوں پر ناخوشی محسوس کرتے ہوئے انہیں حذف کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ مس جناح نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ وہ اپنی گفتگو براڈ کاسٹ کرانے کی غرض سے ریڈیو اسٹیشن گئیں، جو ان کے خیال میں مناسب طور پر نشر ہوگئی۔ درحقیقت ایسا نہیں ہوا تھا۔ سننے والوں نے دو موقعوں پر تقریر کی آواز کو ڈوبتا ہوا محسوس کیا، اور بعد میں پتا چلا کہ یہ دونوں موقعے ان دو جملوں سے مطابقت رکھتے تھے جن پر بخاری نے اعتراض کیا تھا۔ ممکن ہے یہ کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ کا اپنے مالکوں کی خدمت کا جوش رہا ہو جس نے اسے ان دو جملوں پر آواز مدھم کردینے پر اکسایا ہو، لیکن اس واقعے کی ذمے داری آخر کار حکومت ہی پر عائد ہوئی کہ اس نے اس ہستی کی آواز کو دبانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جسے مادرِ ملت کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس پر جو ملک گیر ایجی ٹیشن شروع ہوا اس سے لیاقت کو کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ ایک طویل عرصے تک اس واقعے کی وضاحت کرنے میں حکومت کی ناکامی عوام کے بدترین خدشات کی تصدیق کرتی معلوم ہوتی تھی۔ اس خاموشی سے حکومت کے گرد مسلط ہوجانے والی حساسیت اور افسروں کے اختیار کردہ خوشامدانہ رویے کا انکشاف ہوا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اگر مس جناح جیسی ہستی کے ساتھ یہ سلوک کیا جاسکتا ہے، تو پھر کوئی بھی شخص اپنی آواز بلند نہیں کرسکتا۔“
اس واقعے کے دوران زیڈ اے بخاری نے محترمہ فاطمہ جناح کو جو معافی نامے ارسال کیے اور محترمہ نے ان کے جوابات روانہ کیے وہ اب نایاب کے ذیل میں آتے ہیں۔یہ معافی نامے اور ان کے جوابات قارئین کے استفادے کے لیے درج کیے جارہے ہیں:
12 ستمبر 1951ءکو زیڈ اے بخاری نے خاتون پاکستان کو مندرجہ ذیل خط روانہ کیا:
”محترمہ مس فاطمہ جناح !گزشتہ شب آپ کی نشری تقریر میں ذراسی دیر کے لیے جو خلل واقع ہوا اس کے لیے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ گزشتہ شنبہ کو ہمارے جنریٹر خراب ہوگئے اور ہماری طرف سے ممکنہ کوشش کی گئی کہ ہمارے ٹرانسمیٹر کو کل رات آٹھ بجے سے سوانو بجے تک قومی پروگرام کے دوران پوری قوت بہم پہنچائی جائے۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ٹرانسمیٹروں کو ان کی پوری قوت پر چلانے میں ہم پوری طرح کامیاب نہ رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری تیسری نشر میں ہمارے سامعین اور ہمارے ٹرانسمیٹر مانیٹروں کو کچھ وقفے محسوس ہوئے۔ تاہم میں آپ کو یقین دلاسکتا ہوں کہ اس وقفے کے باعث آپ کے نشر کی عمدگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ جس کی نسبت مجھے اپنے علاقائی اسٹیشنوں سے رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔ (دستخط) زیڈ اے بخاری“
محترمہ فاطمہ جناح نے 20 ستمبر کو مسٹر بخاری کو ان کے مندرجہ بالا خط کے جواب میں یہ خط بھیجا:
”جناب بخاری صاحب! مجھے آپ کا خط مورخہ 12 ستمبر 1951ءموصول ہوا۔ آپ نے 11 ستمبر کو شام کے سات بجے مجھ سے میری تقریر کی ایک نقل طلب کی اور آٹھ بجے آپ میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ بہت مضطرب تھے۔ اور آپ نے آبدیدہ ہوکر مجھ سے فرمائش کی کہ میں تقریر کے بعض حصے حذف کردوں۔ میں نے آپ کے جذبات سے متاثر ہونے کے بجائے آپ کو دلائل سے سمجھانا چاہا اور آپ سے کہہ دیا کہ اگر ایک جمہوری اور آزاد ملک میں اظہار خیال کی آزادی نہیں ہے تو میں تقریر کے متعلقہ حصے حذف کرنے پر اس بات کو ترجیح دوں گی کہ اس تقریر کو جسے آپ کی فرمائش پر میں نشر کرنے پر آمادہ ہوئی تھی، نشر ہی نہ کروں۔ تقریر کے خاتمہ پر حسب دستور میں نے آپ سے کہاکہ مجھے میری تقریر کا ریکارڈ سنادیا جائے۔ ریکارڈ بالکل ٹھیک تھا اور اس میں کوئی نقص نہیں تھا۔ مجھے بے حد حیرت ہے کہ اس وقت آپ یا آپ کے عملے میں سے کسی اور نے مجھے یہ نہ بتایا کہ اس وقت ٹرانسمیٹر میں کوئی خرابی ہوگئی تھی یا وہ فیل ہوگیا تھا مجھے گھر پہنچ کر اس امر کا پتا چلا کہ میری تقریر میں خلل اندازی ہوئی تھی۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ تعطل ان حصوں میں واقع ہوا جنہیں آپ نے حذف کرنا چاہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ٹرانسمیٹر بڑے معتمد اور معاملہ فہم ہیں کیونکہ وہ عین آپ کی خواہش اور فرمائش کے مطابق فیل ہوئے، جن سازشیوں نے میری تقریر میں خلل اندازی کی اور میری آواز کو قوم تک پہنچنے سے روکنے سے روکا ان کی کوشش اس بات پر منتج ہوئی کہ میری تقریر کے وہی حصے اجاگر اور واضح ہوگئے، جنھیں انہوں نے دبانا چاہا تھا۔ آپ نے اپنے خط میں دوسرے اسٹیشنوں کی ان اطلاعات کا ذکر کیا ہے جن سے آپ کو پتا چلا کہ میری تقریر عمدگی سے نشر ہوئی۔ اگر یہ اطلاعات آپ کے نزدیک تسلی بخش ہیں تو آپ نے معذرت کی زحمت کیوں گوارا کی؟ اس بارے میں جہاں تک پبلک شکایت کا تعلق ہے یہ آپ کا فرض ہے کہ جن کے جذبات مجروح ہوئے ہیں ان کی پوری تشفی کریں، آپ کی معذرت میرے نزدیک نہ تسلی بخش ہے اور نہ قابل تسلیم، ایسے حالات میں معذرت، اعتراف کا ایک عاجزانہ اظہار ہے۔ (دستخط) مس فاطمہ جناح“
23 ستمبر کو زیڈ اے بخاری نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا دوسرا معافی نامہ روانہ کیا جس میں تحریر کیا گیا تھا:
”محترمہ فاطمہ جناح، میںاس امر کے اظہار کی جسارت کرتا ہوں کہ آپ کے خط مورخہ 20 ستمبر نے دلی صدمہ پہنچایا۔ یہ شو مئی قسمت ہے کہ میرا بیان مورخہ 12 ستمبر 1951ءمشکوک گردانا گیا اور ایک رنج دہ ٹیکنیکل خرابی میں وہ معنے ڈالے گئے جن کی وہ حامل نہیں تھی۔ بہرحال چونکہ ہم سب کے دل میں آپ کی بے حد قدر و منزلت ہے۔ میں آپ کے ساتھ بحث و تمحیص سے گریز کرتا ہوں، اور ایک مرتبہ پھر اس ٹیکنیکل خرابی پر اظہار رنج کرتا ہوں۔ نیز اس غرض سے کہ آپ کے دل میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے، آپ کی 11 ستمبر والی تقریر کا ریکارڈ، 24 ستمبر کو شام کے ساڑھے آٹھ بجے قومی پروگرام کے وقت، نشر کرنے کا انتظام کررہا ہوں۔ آپ کا مخلص (دستخط) زیڈ اے بخاری“۔
ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر دوبارہ نشر ہوگئی اور بخاری صاحب نے محترمہ سے مکرر معذرت بھی چاہ لی مگر محترمہ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ انہوں نے بخاری صاحب کے دوسرے مکتوب کا جواب 25 ستمبر 1951ءکو تحریر کیا۔ انہوں نے لکھا:
”جناب بخاری صاحب! آپ کا مکتوب مورخہ 23 ستمبر بدست ہوا۔ آپ اس کو بدقسمتی خیال کرتے ہیں کہ آپ کی تحریر پر شبہ کیا جائے۔ یہ بدقسمتی کی بات تو ہے لیکن جن عجیب حالات کے تحت یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا، ان پر نظر کرتے ہوئے میں کوئی دوسری رائے قائم نہیں کرسکتی۔ حالات کذب بیانی نہیں کرتے اور یہ واقعہ ہے کہ ٹرانسمیٹر بعینہ ان ہی حصوں کی نشر کے وقت خراب ہوگئے جن کے حذف کرنے کی نسبت آپ نے پہلے ہی مجھ سے کہا تھا۔ اس بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں کہ عین اس وقت جب میں نے ان حصوں کو ادا کیا۔ آپ کے ٹرانسمیٹروں نے آپ کے جذبات کی ترجمانی کی اور ایک دفعہ نہیں بلکہ دو مرتبہ خراب ہوگئے۔ ہر چند کہ آپ کا کہنا ہے کہ آپ بحث نہیں کرنا چاہتے لیکن اس امر کا اعادہ کرنے سے کہ ٹیکنیکل خرابی ہی میری نشر میں خلل کا باعث تھی، یہی ظاہر ہوا ہے کہ آپ اس بحث کو طول دینا چاہتے ہیں اس لیے میں مجبور ہوں کہ آپ کو جواب دوں۔ میں نے اس بات کو نوٹ کیا کہ اصل واقعہ سے نہیں بلکہ میرے مکتوب سے آپ کو رنج پہنچا ہے کاش کہ آپ محسوس کرسکتے کہ آپ کے زیر جواب مکتوب نے کس طرح زخم پر نمک پاشی کی ہے۔ (دستخط) مس فاطمہ جناح“
اگلے روز بخاری صاحب نے محترمہ فاطمہ جناح کے اس مکتوب کا جواب بھی تحریر کیا، اس مرتبہ جواب کا لب و لہجہ نہایت عاجزانہ تھا۔ انہوں نے لکھا:
”محترمہ فاطمہ جناح! مجھے اس بات کا انتہائی قلق ہے کہ میں اپنے خط مورخہ 23 ستمبر کے ذریعہ آپ کی معافی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ میں صدق دل سے اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ آپ کا احترام کرنے میں ہرگز کسی سے پیچھے نہیں ہوں، یہ میری شومئی قسمت ہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہوئیں۔ اب میں صرف یہی کرسکتا ہوں کہ ایک بار پھر میں آپ سے معافی کا طلب گار بنوں۔ میں انتہائی صمیم قلب سے یہ معذرت پیش کرتے ہوئے آپ سے شفقت کا طلب گار ہوں۔(دستخط) زیڈ اے بخاری“
لگتا ہے اس مرتبہ بخاری صاحب کا لب و لہجہ محترمہ پر اثر کر گیا اور انہوں نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا جس کا مطلب یہی لیا گیا کہ یہ معاملہ رفت گزشت ہوگیا ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر کو سنسر کرنے پر پاکستان کے قومی پریس نے جس طرح بے خوفی سے اپنا کردار ادا کیا، وہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس سے قبل روزنامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین بھی قائداعظم کی 11 اگست 1947ءکی تقریر کے بعض جملے سنسر کروانے والوں کے خلاف شاندار کردار ادا کرچکے تھے۔
اس واقعے کے اگلے برس محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی برسی پر کوئی تقریر نشر نہیں کی تاہم قائداعظم کی پانچویں برسی (11 ستمبر 1953ئ) کے موقع پر سید ہاشم رضا کے قائل کرنے پر ان کی تقاریر کے سلسلہ کا آغاز اس شرط پر دوبارہ شروع ہوا کہ مسودہ نشر سے پہلے نہیں دکھایا جائے گا اور تقریر براہ راست نشر ہوگی۔
 

نایاب

لائبریرین
محترمہ فاطمہ جناح کی جس تقریر کے نشریہ کے دوران گڑ بڑ کی گئی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے:

”ایسے غمگین موقع پر جبکہ پاکستان کے گوشہ گوشہ میں قائداعظم کی یاد منائی جاررہی ہے آپ کو مخاطب کرنا میرے لیے بڑی دل سوزی کا باعث ہوتا ہے۔ پھر بھی ایک فرض سمجھ کر میں اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس طرح میں ان دور دراز مقامات کے باشندوں سے بھی مخاطب ہوسکتی ہوں جہاں میرا جانا ممکن نہیں ہے اور قائداعظم کی برسی کے موقع پر ان کی شریک غم ہوسکتی ہوں۔
تین سال قبل آج کے دن پاکستان پر بدقسمتی کی ایک کاری ضرب پڑی جس نے ہمارے محبوب قائداعظم کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔ سوائے ان کی یاد اور تصور کے جو ہمیں عزیز ترین ہے ہمارے ہاں قائداعظم کی کوئی نمایاں یادگار بجز پاکستان موجود نہیں ہے۔ پاکستانیوں کو ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے محض ظاہری یادگاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستانی عوام قائداعظم اور ان کے اصولوں سے جس قدر والہانہ محبت رکھتے ہیں وہ کسی جاہ و منزلت کی حفاظت یا بچاﺅ کی غرض سے نہیں بلکہ یہ ان کے دلی جذبات عقیدت و محبت کی آئینہ دار ہے۔ وقت کے گزرنے سے ان کی اس محبت میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ فی الحقیقت اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
میں نے قائداعظم کی گزشتہ برسی کے موقع پر کہا تھا کہ آخر وقت تک مسئلہ کشمیر ان کو عزیز ازجان رہا۔ تین طویل سال گزرنے کے باوجود یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ اس کی اہمیت آج بھی وہی ہے اور اس کی نزاکت میں ذرہ برابر کمی نہیں بلکہ زیادتی ہوگئی ہے۔ اس کے قریبی حل کا یقین دلایا گیا جسے اب بھی بار بار دہرایا جارہا ہے۔ نتیجہ کچھ بھی نہیں۔ مجلس اقوام متحدہ نے تجویز پر تجویز منظور کی اور اپنے خاص نمائندے بھی روانہ کیے پھر بھی یہ مسئلہ اب تک جہاں کا تہاں ہے مجھے امید ہے کہ کشمیر کے عوام بہت ہوشیاری اور احتیاط سے کام لیں گے تاکہ یہاں اس صورت حال کو دہرایا نہ جائے جو فلسطین کے معاملہ میں پیش آئی۔
ہم نہایت شدت سے اس زبردست حکمت عملی کی کمی کو محسوس کررہے ہیں جس کے ہم جدوجہد پاکستان کے زمانہ میں گزشتہ دس سال میں عادی رہے۔ ایسے کتنے ہی مواقع آج بھی ہم کو یاد ہیں جب کوئی صورت حال ہمارے خلاف پیدا ہوچکی تھی مگر بروقت صحیح اقدام کی بدولت ہم کامیاب نکل آئے۔ آج اس دانشمندی اور بصیرت کی جگہ تزلزل نے لے لی ہے۔ پاکستان کے عوام کے لیے سوائے اپنی اندرونی قوت کو ابھارنے کے کوئی دوسرا بہتر طریقہ موجود نہیں ہے۔ مسلمان ایک آہنی قوت ہے اور نازک مرحلہ پر ہی وہ اپنے بہترین جوہر کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی یہی حیرت انگیز قابلیت ہے جس کے باعث صدیوں کے دور پستی میں اس نے اپنے وجود کو برقرار رکھا۔ اس لیے اس قابلیت کا نشوونما ہی ایسی چیز ہے جو بالآخر پاکستان کو اس مقصد کو حاصل کرنے کے قابل بنائے گی جو بظاہر ایک مشکل امر معلوم ہوتا ہے۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو مسائل قائداعظم کی وفات کے وقت فوری حل طلب تھے آج بھی اسی منزل میں ہیں۔ کشمیر کے علاوہ مہاجرین کا مسئلہ ہے لاکھوں افراد جنہوں نے پاکستان کے قیام و بقا کے لیے اپنے تمام دنیاوی مال و متاع کو قربان کردیا ، آج سخت مصیبت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بے شک یہ ایک عظیم مسئلہ ہے لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے کہ یہ ایک انسانی معاملہ ہے اور ہم اتنی کثیر مخلوق کو عرصہ دراز تک جاں کنی کی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے ورنہ اس کے نہایت برے اثرات مملکت پر پڑیں گے۔
میں آپ کو یاد دلاؤں کہ کن اغراض کی بنا پر پاکستان کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی، یہی کہ مسلمان اپنی معاشرت، تہذیب، اقتصادیات اور تعلیمات کے مطابق ایک علیحدہ، پروقار، باعزت اور پرحمیت زندگی بسر کرسکیں۔ آزادی کا مطلب یہی ہے کہ انفرادی طور پر ہر پاکستانی آزادی کی فضا کو محسوس کرے اور پرسکون زندگی گزارے۔ اراکین ملت! تم ہی معمار قوم ہو اور تمہارا فرض ہے کہ اپنے ملک اور قوم کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرو۔ تمہاری فلاح اسی وقت ہوسکتی ہے جب تم قائداعظم ہی کے زاویہ نگاہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلو۔ اور ایمانداری سے اپنی چار سالہ زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی مملکت میں جن امور کی کمی بیشی ہو اپنی پوری قوت سے ان کی تکمیل کرو۔ یاد رکھیے، قائداعظم علم کو عام کرنا چاہتے تھے تاکہ ہمارے ملک سے ناخواندگی دور ہوجائے۔ وہ اردو زبان کو سرکاری اور قومی زبان بنانا چاہتے تھے۔ وہ صحت عامہ کے انتظامات وسیع پیمانے پر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ملک کا اندرونی نظم و نسق معیاری اور مثالی چاہتے تھے۔ اور خارجہ سیاست کو باوزن، پروقار، طاقتور اور فیصلہ کن دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ کشمیر کو پاکستان کا جز بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے اور یہی ان کی آخری تمنا تھی۔ ان کی گردن کبھی باطل کے آگے نہیں جھکی اور نہ وہ کبھی اپنی مملکت کے مفاد کے معاملہ میں اغیار کے فیصلے کے منتظر رہے۔ ان کے عزائم استوار تھے۔ ان کی نگاہیں دور رس، ضمیر روشن اور فیصلہ اٹل ہوتا تھا۔ پاکستان کی تشکیل میں قائد کے کردار کو سب سے بڑا دخل ہے۔ ان کی آہنی قوت ارادی کے آگے کئی طاقتور قوتیں سرنگوں ہوگئیں۔ پاکستان کی آزادی اور بقا کے نعرے لگانے والو! اپنی مملکت کی اس عظمت کو قائم رکھو جس کی خاطر دنیا سے اپنے حقوق منوالیے۔ اپنے ملک کی بقا کے لیے اندرونی یا بیرونی کسی ایسے اثر کو قبول نہ کرنا جس سے تمہارے قومی وقار کو ٹھیس لگے۔ قوم کی قسمت کی کلید تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانو اور اپنی بے پناہ طاقت سے پاکستان کو ہر تباہی سے بچالو۔ دنیا تمہیں آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتی ہے۔ اسے تمہاری طاقت کا امتحان مقصود ہے۔ ایسا نہ ہو تمہارے عزائم کو ٹھیس لگ جائے۔
قائداعظم کی صحیح یاد یہی ہے اور یہی ان کا خراج عقیدت کہ بے باک صداقت، جوش عمل اور پرعزم اقدام کے ساتھ قائداعظم کی رفتار، گفتار اور کردار کو اپناؤاور اپنی مملکت اور قوم میں وہ انقلاب پیدا کرو جس سے دنیا لرز اٹھے اور پھر کسی کو تمہارے مقابلہ کی جرا
¿ت نہ ہو۔ قائداعظم ایسے پاکستان کا تصور نہیں رکھتے تھے جس کے باشندے کمزور ہوں یا جو طاقتور قوموں کے لیے ترغیب کا باعث ہوں۔ ان کے پیش نظر ایسا پاکستان تھا جو دنیا کی بڑی طاقتوں میں سب سے اولین ہو اور میں چاہتی ہوں کہ پاکستانی قوم قائداعظم کے اس تصور کی تکمیل میں اپنی پرجوش جدوجہد کا آغاز کردے۔“

............٭٭٭............

یہ تو تھا محترمہ فاطمہ جناح کی ایک تقریر کو سنسر کرنے کے واقعے کی تفصیل۔ دوسرا واقعہ محترمہ فاطمہ جناح کی ایک تحریر کو سنسر کرنے کا ہے اور یہ تحریر کسی اور ادارے نے نہیں بلکہ اس ادارے نے کی جو قائداعظم کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے وجود میں آیا تھا۔ اس ادارے کا نام ہے قائداعظم اکیڈمی اور محترمہ فاطمہ جناح کی تحریر کو سنسر کرنے کا یہ ”خوش کن“ فریضہ اکیڈمی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جناب شریف المجاہد نے یہ کہتے ہوئے انجام دیا کہ:
”موجودہ کتاب (مائی برادر) میں مذکورہ مسودے کو تسلیم شدہ اصولوں کے تحت مدون کرکے پیش کیا جارہا ہے، سوائے ایک اقتباس کے جو بڑی حد تک ایک جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کتاب میں مکمل مسودے کو صداقت کے ساتھ منتقل کردیا گیا ہے“۔
نہیں معلوم کہ قائداعظم اکیڈمی اور واجب الاحترام جناب شریف المجاہد کے قریب صداقت کا معیار کیا ہے اور وہ کون سے ”تسلیم شدہ اصول“ ہیں جن کے تحت کسی مصنف (اور وہ بھی مرحوم مصنف) کی تحریر کو اپنی مرضی کے تحت سنسر کیا جاسکتا ہے۔ جناب شریف المجاہد، مائی برادر کے دو پیراگراف سنسر کرنے میں بظاہر کامیاب ہوگئے مگر کتاب کا اصل مسودہ جو قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات (نیشنل آرکائیوز آف پاکستان) میں محفوظ تھا وہاں یہ پیراگراف بدستور موجود رہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں یہ دونوں پیراگراف شامل کیے۔ ہم نے بھی نیشنل آرکائیوز آف پاکستان سے اس کتاب کا اصل مسودہ حاصل کیا۔ قدرت اللہ شہاب نے مائی برادر کے جو دو پیراگراف اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں وہ تو بالکل اصل کے مطابق تھے مگر ان کا ترجمہ قدرت اللہ شہاب نے قدر مختلف انداز میں کیا تھا۔ ہم اس مضمون کے ساتھ ان دونوں پیراگرافوں کی عکسی نقل اوران کا ترجمہ آپ کے استفادے کے لیے شامل کررہے ہیں۔

”وزیر اعظم نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے پوچھا کہ قائد اعظم کی صحت کے متعلق ان کی تشخیص کیا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں مس فاطمہ نے یہاں بلایا ہے اس لیے وہ اپنے مریض کے متعلق کوئی بات صرف انہی کو بتاسکتے ہیں۔”لیکن وزیر اعظم کی حیثیت سے میں یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں۔“ ڈاکٹر نے ادب سے جواب دیا ”جی ہاں بے شک۔ لیکن میں اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں بتاسکتا۔“
میں قائد اعظم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب مجھے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم اور سیکرٹری جنرل ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کی اطلاع ان کو دی۔ وہ مسکرائے اور بولے ”فطی تم جانتی ہو وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟“ میں نے کہا کہ مجھے ان کی آمد کے سبب کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ وہ بولے ”وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میری بیماری کتنی شدید ہے۔ میں کتنا عرصہ اور زندہ رہ سکتا ہوں۔“

چند منٹ بعد انہوں نے مجھ سے کہا ”نیچے جاؤ....وزیر اعظم سے کہو.... میں ان سے ابھی ملوں گا۔“
”جن! بہت دیر ہوچکی ہے۔ وہ کل صبح آپ سے مل لیں گے۔“
”نہیں۔ انہیں ابھی آنے دو۔ وہ خودآکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔“
لیاقت علی خان نے نصف گھنٹہ تک علیحدگی میں قائد اعظم سے ملاقات کی۔ جونہی وہ واپس نیچے آئے تو میں اوپر اپنے بھائی کے پاس گئی۔ وہ بری طرح تھکے ہوئے تھے اور ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پھلوں کا جوس مانگا اور پھر انہوں نے چوہدری محمد علی کو اندر بلالیا۔ وہ پندرہ منٹ تک ان کے پاس رہے۔ پھر جب دوبارہ وہ اکیلے ہوئے تو میں اندر ان کے پاس گئی۔ میں نے پوچھا کہ وہ جوس یا کافی پینا پسند کریں گے۔ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا‘ ان کا ذہن کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ اتنے میں ڈنر کا وقت ہوگیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔ ”بہتر ہے کہ تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔“
”نہیں“ میں نے زور دے کر کہا ”میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں گی اوریہیں پر کھاناکھالوں گی۔“
”نہیں یہ مناسب نہیں ہے۔ وہ یہاں ہمارے مہمان ہیں‘ جاؤ اور ان کے ساتھ کھاناکھاؤ۔“

کھانے کی میز پر میں نے وزیر اعظم کو بہت خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ لطیفے سنا رہے تھے اور ہنسی مذاق کررہے تھے۔ جب کہ میں قائد اعظم کی صحت کی طرف سے خوف کے مارے کانپ رہی تھی جو اوپر کی منزل میں تنہا بستر علالت پر پڑے ہوئے تھے۔ کھانے کے دوران چوہدری محمد علی بھی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہے۔ کھانا ختم ہونے سے پہلے ہی میں اوپر کی منزل پر چلی گئی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو قائد اعظم مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے ”فطی ۔ تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے“ میں نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی بڑی کوشش کی جو میری آنکھوں میں ا مڈ آئے تھے۔“
قائداعظم اکیڈمی کی شائع کردہ مائی برادر میں محترمہ فاطمہ جناح کا تحریر کردہ جو دوسرا پیراگراف سنسر کی زد میں آیا ہے اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
” یوم پاکستان کے چند روز بعد وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد قائداعظم سے ملنے کوئٹہ آئے۔ لنچ کے وقت جب مس فاطمہ جناح ان کے ساتھ اکیلی بیٹھی تھیں، تو مسٹر غلام محمد نے کہا: ”مس جناح میں ایک بات آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔
یوم پاکستان پر قائداعظم نے قوم کے نام جو پیغام دیا تھا، اسے خاطر خواہ اہمیت اور تشہیر نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس وزیراعظم کے پیغام کے پوسٹر چھاپ کر انہیں شہر شہر دیواروں پر چسپاں کیا گیا ہے۔ بلکہ ہوائی جہازوں کے ذریعہ اسے بڑے بڑے شہروں پر پھینک کر منتشر بھی کیا گیا ہے۔
میں نے یہ بات خاموشی سے سن لی کیوں کہ اس وقت مجھے اپنے بھائی کی صحت کی فکر تھی ان کی پبلسٹی کی نہیں۔“

............٭٭٭............
بشکریہ فیس بک
 
Top