محبّت سے ہوئی نفرت ہے تیری بے وفائی سے-----برائے اصلاح

الف عین
@محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
-------------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
محبّت سے ہوئی نفرت ہے تیری بے وفائی سے
شکستہ دل ہوا میرا ہے تیری یوں جدائی سے
-----------
نہیں ہے حوصلہ مجھ میں کسی سے اب محبّت کا
کہ ڈرتا ہوں میں دوبارہ کسی بھی جگ ہنسائی سے
------------
جسے اپنا بنایا تھا برا ہی بے وفا نکلا
ارادہ ہی نہیں بدلا مری اُس نے دہائی سے
-----------
کرو انصاف کی باتیں خطا میری یا تیری تھی
ملے گا کچھ نہیں تجھ کو کبھی ایسی لڑائی سے
-------------
مجھے تیری محبّت پر کبھی بھی شک نہیں گزرا
مگر وہ جھوٹ تھا سارا جو بولا تھا صفائی سے
--------------
چلو اب جان چھوٹی ہے ہوئے آزاد بندھن سے
یہ آزادی ہے بہتر ہے محبّت کی گدائی سے
----------یا
سبق سیکھو گے ایسے ہی جو گزرو گے جدائی سے
----------
خدا کا خوف تھا دل میں تبھی بچتا رہا ارشد
خدا نے ہی بچایا ہے اسے ہر اک برائی سے
-------------
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کو خود ہی دیکھیں، رہنمائی کے لیے کچھ باتیں :
مطلع کی نثر بنا کر دیکھیں کہ کءا جملہ بنتا ہے، یہ درست ہے یا نہیں
دوسرے اشعار میں
شتر گربہ بھی ہے
فاعل کی کمی بھی ہے
الفاظ کی ترتیب سے بات واضح بھی ہو سکتی ہے
 
الف عین
ہوئی نفرت محبّت سے تمہاری بے وفائی سے
شکستہ دل ہوا میرا تمہاری یوں جدائی سے
-----------
نہیں ہے حوصلہ مجھ میں کسی سے اب محبّت کا
کہ ڈرتا ہوں میں دوبارہ کسی بھی جگ ہنسائی سے
------------
مری ساری وفاؤں کو بھلایا بے وفا نے یوں
وطیرہ ہی نہیں بدلا مری کچھ بھی دہائی سے
-----------
کرو انصاف کی باتیں خطا میری یا تیری تھی
کسی کو کچھ نہیں ملتا کبھی ایسی لڑائی سے
-------------
کبھی اس کی وفاداری پہ مجھ کو شک نہیں گزرا
مگر وہ جھوٹ تھا سارا جو بولا تھا صفائی سے
--------------
ہوئے آزاد بندھن سے کرو جو دل میں تمہارے ہے
یہ آزادی ہی بہتر ہے محبّت کی گدائی سے
----------یا
سبق سیکھو گے ایسے ہی جو گزرو گے جدائی سے
----------
خدا کا خوف تھا دل میں تبھی بچتا رہا ارشد
خدا نے ہی بچایا ہے اسے ہر اک برائی سے
-------------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
دیکھا، محض ایک دن. مزید غور کرنے سے بہتری محسوس ہوتی ہے یا نہیں ۔ بس یہی شکایت ہے کہ آپ غزل کے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے! اگرچہ اب بھی بس دو تین مصرعوں میں ہی تبدیلی کی ہے

ہوئی نفرت محبّت سے تمہاری بے وفائی سے
شکستہ دل ہوا میرا تمہاری یوں جدائی سے
----------- مطلع اب بھی دو لخت ہے اور واضح نہیں ۔ نفرت کس سے ہوئی، محبت سے یا بے وفائی سے، یا بے وفائی کی وجہ سے محبوب سے، اور پھر اس کا تعلق جدائی اور شکستہ دلی سے؟ ایک احساس یہ بھی ہوتا ہے کہ شاید مھبوب سے نفرت ہوئی ہے لیکن وہ بھی پیار سے ہی ہوئی ہے!؟ بہر حال اب نثر بن سکتی ہے، اصل شعر تو سراسر بے معنی لگ رہا تھا

نہیں ہے حوصلہ مجھ میں کسی سے اب محبّت کا
کہ ڈرتا ہوں میں دوبارہ کسی بھی جگ ہنسائی سے
------------ درست

مری ساری وفاؤں کو بھلایا بے وفا نے یوں
وطیرہ ہی نہیں بدلا مری کچھ بھی دہائی سے
----------- کس نے وطیرہ نہیں بدلا؟ پھر اکثر بھلایا لفظ پر بھی میں اعتراض کرتا ہوں۔ indefinite tense میں تو درست ہے، لیکن بھولنے کا فعل indefinite نہیں ہوتا۔ یعنی یہ پروسیس فرض کرنا کہ کچھ فی صد بھول گئے ہیں اور کچھ فی صد یاد ہے! اگر past indefinite tense میں کہا جائے تو 'بھلا دیا' ہونا چاہیے

کرو انصاف کی باتیں خطا میری یا تیری تھی
کسی کو کچھ نہیں ملتا کبھی ایسی لڑائی سے
------------- شتر گربہ دور نہیں کیا گیا

کبھی اس کی وفاداری پہ مجھ کو شک نہیں گزرا
مگر وہ جھوٹ تھا سارا جو بولا تھا صفائی سے
-------------- بیان کے لحاظ سے درست لیکن خیال کے اعتبار سے سمجھ میں نہیں آیا ۔ جب یہ جھوٹ تھا کہ اس نے اپنی وفا کا اقرار کیا تھا، تو آپ کو اس کی وفا پر شک کرنے کا جواز؟ ہاں، بے وفائی پر شک نہیں گزرا کہا جا سکتا تھا!

ہوئے آزاد بندھن سے کرو جو دل میں تمہارے ہے
یہ آزادی ہی بہتر ہے محبّت کی گدائی سے
----------یا
سبق سیکھو گے ایسے ہی جو گزرو گے جدائی سے
---------- پہلا مصرع بحر سے خارج ہے، اور دونوں متبادل مصرعے بے ربط لگ رہے ہیں

خدا کا خوف تھا دل میں تبھی بچتا رہا ارشد
خدا نے ہی بچایا ہے اسے ہر اک برائی سے
------------ پہلے میں واضح نہیں ہوا کہ کس سے بچتا رہا؟ خدا بھی دونوں مصرعوں میں استعمال اچھا نہیں ہے۔ 'بچا رہا ارشد' شاید بہتر ہوتا
خدا کا خوف تھا دل میں، رہا محفوظ جو ارشد
جہاں میں ہر گنہ سے، ہر خطا سے، ہر برائی سے
مجوزہ شعر شاید قابل قبول ہو
 
الف عین
محبّت سے ہوئی نفرت کسی کی بے وفائی سے
شکستہ دل ہوا میرا ہے یوں اس کی جدائی سے
---------------
کیا یکسر نظر انداز میری سب وفاؤں کو
ارادہ تھا ہی جانے کا نہ ٹھہرا پھر دہائی سے
--------
امادہ تھا وہ جانے پر میں کیسے روکتا اس کو
نہیں تھا فائدہ کچھ بھی بلا مقصد لڑائی سے
-------------
وہ ہو گا بے وفا مجھ سے، مجھے ایسا گماں کب تھا
-------یا
کرے گا بے وفائی وہ ، مجھے ایسا گماں کب تھا
مگر وہ بے وفا نکلا ، نہ سہما بے وفائی سے
-----------
ہوا آزاد بندھن سے کرے اس کا جو دل چاہے
سبق سیکھے گا ایسے ہی جو گزرے گا جدائی سے
--------------
خدا کا خوف تھا دل میں، رہا محفوظ جو ارشد
جہاں میں ہر گنہ سے، ہر خطا سے، ہر برائی سے
 

الف عین

لائبریرین
محبّت سے ہوئی نفرت کسی کی بے وفائی سے
شکستہ دل ہوا میرا ہے یوں اس کی جدائی سے
--------------- کوئی تبدیلی نہیں، میرے اعتراضات قائم ہیں

کیا یکسر نظر انداز میری سب وفاؤں کو
ارادہ تھا ہی جانے کا نہ ٹھہرا پھر دہائی سے
-------- عجز بیان

امادہ تھا وہ جانے پر میں کیسے روکتا اس کو
نہیں تھا فائدہ کچھ بھی بلا مقصد لڑائی سے
------------- آمادہ کو آمادہ کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟ یہ بھی عجز بیان کا شکار ہے

وہ ہو گا بے وفا مجھ سے، مجھے ایسا گماں کب تھا
-------یا
کرے گا بے وفائی وہ ، مجھے ایسا گماں کب تھا
مگر وہ بے وفا نکلا ، نہ سہما بے وفائی سے
----------- وفا کا پہاڑا پڑھ دیا؟ شعر میں معنویت کچھ نہیں

ہوا آزاد بندھن سے کرے اس کا جو دل چاہے
سبق سیکھے گا ایسے ہی جو گزرے گا جدائی سے
-------------- جدائی سے گزرنا محاورہ نہیں، شعر بھی واضح نہیں، عجز بیان

خدا کا خوف تھا دل میں، رہا محفوظ جو ارشد
جہاں میں ہر گنہ سے، ہر خطا سے، ہر برائی سے
.. ی تو قبول کر لیا گیا ہے

مختصر یہ کہ جو شعر بدل دیتے ہیں، اس میں نئی اغلاط پیدا ہو جاتی ہیں یا مطلب واضح نہیں ہوتا۔ اس کو بھی مشق کے طور پر رکھ لیں، مزید محنت نہ کی جائے
 
Top