محبت ہے کیا چیز ۔۔۔

زیف سید

محفلین
میرا دوست مَیل گبنز بول رہا تھا۔ میل گبنز دل کا ڈاکٹر ہے، اور بعض اوقات اسی وجہ سے اسے بولنے کا حق مل جاتا ہے۔
ہم چاروں اس کے باورچی خانے کی میز پر بیٹھے ہوئے جِن پی رہے تھے۔ سِنک کے پیچھے بڑی کھڑکی سے آتی ہوئی دھوپ سے کمرا روشن تھا۔ کمرے میں میل اور میرے علاوہ اس کی دوسری بیوی ٹیریسا ۔۔۔ ہم اسے ٹیری کہتے تھے ۔۔۔ اور میری بیوی، لارا موجود تھے۔ ہم ان دنوں البقرقی میں رہا کرتے تھے۔ لیکن ہم سب کا تعلق کہیں اور سے تھا۔
میز پر بالٹی میں برف پڑی ہوئی تھی۔ جِن اور ٹونک کی بوتلیں گردش میں تھیں، کہ ہم کہیں سے ہوتے ہوتے محبت کے موضوع تک آ پہنچے۔ میل کا خیال تھا کہ سچی محبت اور روحانی محبت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ اس نے اپنی زندگی کے پانچ برس ایک مذہبی تعلیمی ادارے میں گزارے ہیں، جس کے بعد اس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا۔ اس نے کہا کہ اسے مذہبی سکول میں گزرا ہوا دور اب بھی اپنی زندگی کا اہم ترین وقت لگتا ہے۔
ٹیری نے کہا کہ میل سے ملاقات سے قبل وہ جس شخص کے ساتھ رہتی تھی وہ اس سے اس قدر پیار کرتا تھا کہ اس نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر ٹیری نے کہا، "اس نے ایک رات مجھے مارا۔ اس نے مجھے ٹخنوں سے پکڑ کر کمرے میں گھسیٹا۔ ساتھ وہ کہتا جاتا تھا تھا، ’ٹیری، میں تم سے پیار کرتا ہوں، میں تم سے پیار کرتا ہوں، کتیا۔‘ وہ مجھے کمرے میں ٹخنوں سے پکڑ کر گھسیٹتا رہا۔ میرا سر ادھر ادھر ٹکراتا گیا۔" ٹیری نے ہماری طرف دیکھا۔ "اس قسم کی محبت کا کیا کیا جائے؟"
وہ خاصی دبلی پتلی، خوب صورت چہرے اور کالی آنکھوں والی عورت تھی۔ اس کے بھورے بال اس کی کمر تک آتے تھے۔ اسے فیروزے کے ہار اور لمبی لمبی بالیاں پسند تھیں۔
"خدا کے لیے احمق نہ بنو۔ اس کو محبت نہیں کہتے، اور تم یہ جانتی ہو،" میل نے کہا۔ "مجھے نہیں معلوم کہ اسے کیا کہا جائے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ جو بھی ہے، کم از کم محبت نہیں ہے۔"
"تم جو بھی کہو، لیکن مجھے پتا ہے کہ یہ محبت تھی،" ٹیری نے کہا۔ "تمہیں یہ پاگل پن لگتا ہے، لیکن یہ پھر بھی محبت ہی تھی۔ لوگوں میں فرق ہوتا ہے، میل۔ مانا کہ بعض اوقات وہ پاگلوں کی طرح حرکتیں کرتا تھا۔ ٹھیک ہے۔ لیکن وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔ اپنے انداز میں سہی، لیکن وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔ یہ محبت تھی، میل۔ یہ مت کہو کہ یہ محبت نہیں تھی۔"
میل نے گہری سانس لی۔ اس نے اپنا جام تھاما اور لارا اور میری طرف مڑا۔ "اس آدمی نے مجھے جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی تھی،" میل نے کہا۔ اس نے جام ختم کیا اور جن کی بوتل تھام لی۔ "ٹیری رومان پسند ہے۔ ٹیری ’مجھے لات مار کر محبت کا یقین دلاؤ‘ قسم کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ ٹیری، ایسا مت کرو۔" میل نے نے میز پر جھک کر ٹیری کے رخسار چھوئے اور مسکرایا۔
"چلو، اب یہ تلافی کرنا چاہتا ہے،" ٹیری نے کہا۔
"تلافی کس بات کی؟" میل نے کہا۔ "کسی بات کی تلافی؟ میں جانتا ہوں جو میں جانتا ہوں۔ بات ختم۔"
"آخر یہ موضوع چھڑا کیسے؟" ٹیری نے کہا۔ اس نے اپنا گلاس اٹھایا اور ایک چسکی لی۔ "میل کے دماغ پر ہر وقت محبت سوار رہتی ہے،" اس نے کہا۔ "کیوں، ٹھیک کہہ رہی ہوں نا، ہَنی؟" وہ مسکرائی۔
"میں ایڈ کے رویے کو محبت نہیں کہہ سکتا۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں، ہنی،" میل نے کہا۔ "آپ دونوں کیا کہتے ہیں بیچ اس مسئلے کے؟" میل نے لارا اور مجھ سے پوچھا۔ "کیا آپ کے خیال میں یہ محبت ہے؟"
"اس سوال کے جواب کے لیے تم نے غلط آدمی کا انتخاب کیا ہے،" میں نے کہا۔ "میں تو اس شخص کو جانتا تک نہیں۔ میں نے بس سرسری طور پر اس کا نام سنا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ تم یہ کہہ رہے ہو کہ محبت کوئی قطعی چیز ہے۔"
میل نے کہا، "جس محبت کی میں بات کر رہا ہوں، وہ ہے۔ جس محبت کی میں بات کر رہا ہوں اس میں آپ جا کر لوگوں کو قتل نہیں کرتے۔"
لارا نے کہا، "میں ایڈ یا اس کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ لیکن کوئی کسی اور کے حالات کے بارے میں جان بھی کیا سکتا ہے؟"
میں نے لارا کا ہاتھ چھوا۔ اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ میں نے لارا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ گرم، رنگے ہوئے ناخن، سلیقے سے مینی کیور کیا ہوا ہاتھ۔
"جب میں نے اسے چھوڑا تو اس نے چوہوں کا زہر پی لیا،" ٹیری نے کہا۔ اس نے اپنے بازو اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔ "اسے سانتا فے کے ہسپتال لے جایا گیا۔ ہم وہیں رہتے تھے، کوئی دس میل دور۔ ڈاکٹروں نے اس کی زندگی بچا لی، لیکن اس کے مسوڑھے تباہ ہو گئے۔ میرا مطلب ہے کہ اس کے مسوڑھے دانتوں سے الگ ہو گئے۔ اس کے بعد اس کے دانت بھیڑیئے کے دانتوں کی طرح نظر آتے تھے۔ میرے خدا،" ٹیری نے کہا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی، پھر اس نے اپنے بازو چھوڑ دیے اور گلاس دوبارہ اٹھا لیا۔
"لوگ کیا کچھ نہیں کرتے!" لارا نے کہا۔
"اب وہ کچھ نہیں کرتا،" میل نے کہا۔ "مر گیا ہے۔"
میل نے لیموں کی طشتری میرے سامنے رکھی۔ میں نے ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنے جام میں نچوڑا، اور اس میں پڑے برف کے ٹکڑوں کو انگلی سے ہلایا۔
"حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے،" ٹیری نے کہا۔ "اس نے اپنے منھ میں پستول رکھ کر گولی چلا دی۔ لیکن وہ اس میں بھی ناکام رہا۔ بے چارہ ایڈ،" اس نے کہا اور سر ہلایا۔
"بے چارہ وے چارہ کوئی نہیں،" ایڈ نے کہا۔ "بڑا خطرناک بندہ تھا وہ۔"
میل کی عمر پنتالیس برس کے قریب تھی۔ وہ لمبا اور پتلا تھا، اس کے نرم گھنگرالے بال تھے۔ ٹینس کھیلنے کی وجہ سے اس کا چہرہ اور بازو بھورے تھے۔ جب وہ نشے میں نہیں ہوتا تھا تو اس کی حرکات و سکنات بہت نپی تلی ہوتی تھیں۔
"پھر بھی وہ مجھ سے محبت کرتا تھا، میل۔ کم از کم یہ بات تو مان لو،" ٹیری نے کہا۔ "میں صرف اتنا چاہتی ہوں۔ وہ مجھ سے اس طرح کی محبت نہیں کرتا تھا جس طرح کی محبت تم کرتے ہو۔ میں یہ نہیں کہہ رہی۔ لیکن وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔ تم کم از کم میری یہ بات تو مان سکتے ہو؟"
"کیا مطلب کہ وہ اس میں بھی ناکام رہا؟" میں نے کہا۔
لارا اپنا گلاس لیے ہوئے آگے کی طرف جھکی۔ اس نے اپنی کہنیاں میز پر ٹکائیں اور گلاس دونوں ہاتھوں سے پکڑا لیا۔ اس نے میل اور ٹیری کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا، اس کے چہرے پر کسی قدر پریشانی کے آثار ہویدا تھے، جیسے اسے اس بات پر حیرت ہو کہ اس کے جاننے والوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش آئے ہیں۔
"ناکام کیسے رہا اگر اس کے اپنے آپ کو ختم کر ڈالا؟" میں نے پوچھا۔
"میں بتاتا ہوں کیا ہوا تھا،" میل نے کہا۔ "اس نے اپنا پستول اٹھایا جو اس نے مجھے اور ٹیری کو دھمکانے کے لیے خریدا تھا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں، یہ شخص ہمیشہ ہمیں دھمکاتا رہتا تھا۔ کاش آپ دیکھ سکتے ہم اس دور میں جس طرح رہ رہے تھے۔ مفروروں کی طرح۔ میں نے خود ایک پستول خرید لیا تھا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟ میری طرح کا شخص۔ لیکن میں نے یہی کیا تھا۔ میں نے اپنی حفاظت کے لیے پستول خریدا تھا اور اسے اپنی گاڑی میں رکھے رکھے پھرتا تھا۔ کبھی کبھار مجھے آدھی رات کو ہسپتال جانا پڑ جاتا تھا۔ جانتے ہو، ہسپتال جانے کے لیے؟ ٹیری اور میری ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی، اور میری پہلی بیوی نے میرے گھر پر، بچوں پر، کتے پر، ہر چیز پر قبضہ جما لیا تھا، اور ٹیری اور میں اس اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ جیسا کہ میں نے کہا، کبھی کبھار آدھی رات کو فون آ جاتا تھا اور مجھے رات کو دو یا تین بجے ہسپتال جانا پڑتا تھا۔ پارکنگ لاٹ میں اندھیرا ہوتا تھا اور گاڑی تک پہنچتے پہنچتے مجھے پسینہ آ جاتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلے گا یا کسی کار کے پیچھے سے برآمد ہو گا اور گولیاں برسانا شروع کر دے گا۔ میرا مطلب ہے، یہ شخص پاگل تھا۔ اس سے کوئی بعید نہیں تھا کہ کوئی بم پھاڑ دے۔ وہ کچھ بھی کرنے کا اہل تھا۔ وہ دن یا رات کے کسی بھی وقت ہسپتال فون کرتا تھا اور کہتا تھا کہ مجھے ڈاکٹر سے بات کرنی ہے، اور جب میں فون اٹھاتا تو وہ کہتا، ’کتیا کے بچے، تمہارے دن گنے جا چکے ہیں۔‘ اس طرح کی چیزیں۔ یہ سب کچھ بہت خوف ناک تھا۔ میں تمہیں بتا رہا ہوں۔"
"مجھے اب بھی اس کے لیے افسوس ہے،" ٹیری نے کہا۔
"یہ تو کسی ڈراؤنے خواب کی طرح ہے،" لارا نے کہا۔ "لیکن اس کے بعد کیا ہوا جب اس نے اپنے آپ کو گولی مار دی؟"
لارا ایک وکیل کے دفتر کے کام کرتی تھی۔ میری اور اس کی ملاقات اس کے دفتر ہی میں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ ہمیں پتا چلتا، ہم ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ محبت کے علاوہ ہم ایک دوسرے کی صحبت سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔ وہ بہت اچھی طبیعت کی مالک تھی۔
***
"پھر کیا ہوا؟" لارا نے پوچھا۔
میل نے کہا، "اس نے اپنے کمرے میں اپنے منھ کے اندر پستول رکھ کر گولی چلا دی۔ کسی نے آواز سن کر مینجر کو بتا دیا۔ وہ ماسٹر کی سے دروازہ کھول کر اندر آئے اور دیکھا کہ کیا ہوا ہے اور ایمبولنس کے لیے فون کر دیا۔ اتفاق سے جب اسے ہسپتال لایا گیا، میں وہیں موجود تھا۔ وہ زندہ تھا لیکن اس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن یہ شخص پھر بھی تین دن تک زندہ رہا۔ اس کا سر پھول کر دوگنا ہو گیا تھا۔ میں نے اس سے پہلے اس طرح کا کوئی منظر نہیں دیکھا اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ ایسی کوئی چیز آئندہ دیکھوں۔ ٹیری کو پتا چلا تو وہ ہسپتال جا کر اس کے پاس بیٹھنا چاہتی تھی۔ ہماری اس بارے میں لڑائی ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ ٹیری کو اسے اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہیئے۔ میرا خیال تھا کہ ٹیری کو اسے نہیں دیکھنا چاہیئے تھا اور اب بھی یہی خیال ہے۔"
"کون جیتا؟" لارا نے کہا۔
"جب وہ مرا میں اس کے کمرے میں تھی،" ٹیری نے کہا۔ "وہ کبھی ہوش میں نہیں آیا۔ لیکن میں اس کے ساتھ بیٹھی رہی۔ اس کا اور کوئی نہیں تھا۔"
"وہ خطرناک آدمی تھا،" میل نے کہا۔ "اگر تم اسے محبت کہتی ہو تو پھر ایسی محبت اپنے پاس ہی رکھو۔"
"یہ محبت تھی،" ٹیری نے کہا۔ "ٹھیک ہے کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ عجیب ہو گی۔ لیکن وہ محبت کی خاطر مرنے کے لیے تیار تھا۔ اور اس نے یہی کر دکھایا۔"
"میں تو کبھی کسی حال میں اسے محبت نہ کہوں،" میل نے کہا۔ "میرا مطلب ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بہت سی خود کشیاں دیکھی ہیں۔ اور میرا نہیں خیال کہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔"
میل نے اپنے ہاتھ گردن کے پیچھے باندھ لیے اور اپنی کرسی کی پشت جھکا لی۔ "مجھے اس قسم کی محبت سے کوئی دل چسپی نہیں ہے،" اس نے کہا۔ "اگر یہ محبت ہے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔"
ٹیری نے کہا، "ہم بہت خوف زدہ تھے۔ میل نے تو وصیت بھی تیار کروا لی تھی اور کیلی فورنیا میں اپنے فوجی بھائی کو خط بھی لکھا تھا۔ میل نے لکھا تھا کہ اگر اسے کچھ ہو جائے تو کیا کرنا ہے۔" ٹیری نے اپنا گلاس ختم کیا۔ "لیکن میل کی بات ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم مفروروں کی طرح رہ رہے تھے۔ ہم خوف زدہ تھے۔ میل خوف زدہ تھا۔ کیوں میل؟ میں نے ایک بار پولیس کو بھی فون کیا تھا، لیکن وہ کسی قسم کی مدد نہیں کر سکے۔ کیا یہ ہنسنے والی بات نہیں ہے؟" ٹیری نے کہا۔
اس نے جن کا آخری گھونٹ اپنے گلاس میں انڈیلا اور بوتل ہلائی۔ میل کرسی سے اٹھ کر الماری کی طرف گیا اور ایک اور بوتل نکال لی۔
***

"خیر، نک اور میں جانتے ہیں کہ محبت کیا ہوتی ہے،" لارا نے کہا۔ میرا مطلب ہے، ہمارے لیے۔" لارا نے کہا۔ لارا نے اپنا گھٹنا میرے گھٹنے سے بھڑا دیا۔ "چاہے تم بھی کچھ کہو،" لارا نے کہا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔
جواب میں میں نے لارا کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیا۔ ہر کوئی اس بات سے محظوظ ہوا۔
"ہم خوش قسمت ہیں،" میں نے کہا۔
"بند کرو یہ،" ٹیری نے کہا۔ "میرا دل میلا ہو رہا ہے تمہاری حرکتوں سے۔ تم سمجھتے ہو کہ تم اب بھی ہنی مون پر ہو۔ تھوڑا صبر کرو۔ تم دونوں کو ایک ساتھ کتنا عرصہ ہوا ہے؟ ایک سال؟"
"ڈیڑھ سال ہو رہا ہے،" لارا نے کہا، اور تھوڑا سا شرما گئی۔
"ہاں،" ٹیری نے کہا۔ "تھوڑا انتظار کرو۔"
اس نے اپنا گلاس پکڑ لیا اور لارا کی طرف دیکھا۔
"میں مذاق کر رہی تھی،" ٹیری نے کہا۔
میل نے بوتل کھول لی اور اسے لے کر میز کی طرف آیا۔
"چلو، ایک جام محبت کے نام پیتے ہیں۔ سچی محبت کے نام،" میل نے کہا۔
***
گھر کے باہر ایک کتے نے بھونکنا شروع کر دیا۔ سفیدے کے درخت کے پتے کھڑکی کے شیشے پر سرسرا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سہ پہر کا سورج بھی اپنی روشنی کی کشادگی اور دریا دلی لیے ہوئے کمرے میں موجود ہے۔ جیسے ہم کہیں اور موجود ہیں، کہیں بھی، سحرزدہ۔ ہم نے اپنے اپنے جام اٹھائے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر یوں مسکرائے جیسے سکول کے بچے کسی ممنوعہ کام پر متفق ہو کر مسکراتے ہیں۔
"میں تمہیں بتاتا ہوں کہ سچی محبت کیا ہوتی ہے،" میل نے کہا۔ "میرا مطلب ہے میں تمہیں ایک اچھی مثال دے سکتا ہوں۔ اور پھر تم اپنے اپنے نتائج اخذ کر سکتے ہو۔" اس نے اپنے گلاس میں مزید جن انڈیلی۔ اس نے برف کا ایک ٹکڑا اور تھوڑا سا لیموں گلاس میں ڈالا۔ ہم انتظار کرتے رہے اور آہستہ آہستہ چسکیاں لیتے رہے۔ لارا اور میں نے ایک بار پھر گھٹنے ٹکرائے۔ میں نے ایک ہاتھ اس کی گرم ران پر رکھا اور وہیں رہنے دیا۔
"کیا تم میں سے کوئی صحیح معنوں میں محبت کے بارے میں جانتا ہے؟" میل نے کہا۔ "مجھے لگتا ہے کہ جیسے محبت کے معاملے میں اناڑی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور کرتے بھی ہیں، مجھے اس سے انکار نہیں ہے۔ مجھے ٹیری سے محبت ہے اور ٹیری کو مجھ سے، اور تم دونوں بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے۔ تم جانتے ہو میں کس قسم کی محبت کی بات کر رہا ہوں۔ جسمانی محبت، وہ تڑپ جو آپ کو کسی خاص انسان کی تلاش پر اکساتی ہے، اور وہ محبت بھی جو آپ کو کسی دوسرے کی ذات سے، اس کی روح سے ہوتی ہے۔ شہوانی محبت بھی ۔۔۔ خیر اسے جذباتی محبت کہہ لیجیئے ۔۔۔ کسی دوسرے انسان کا ہر دن خیال رکھنا۔ لیکن کبھی کبھی مجھے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے کہ میں یقیناً اپنی پہلی بیوی سے بھی محبت کرتا تھا۔ میں جانتا ہوں مجھے اس سے محبت تھی۔ اس لحاظ سے شاید میں بھی ٹیری کی طرح ہوں۔ ٹیری اور ایڈ کی طرح۔" وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ "ایک وقت ایسا بھی تھا جب میں سمجھتا تھا کہ مجھے اپنی پہلی بیوی جان سے زیادہ پیاری ہے۔ لیکن اب میں اس کی ڈھٹائی سے نفرت کرتا ہوں۔ بالکل نفرت کرتا ہوں۔ آپ اس بات کی وضاحت کیسے کریں گے؟ وہ محبت کہاں گئی؟ میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ محبت کہاں گئی؟ میری خواہش ہے کہ کوئی مجھے بتائے۔ اور پھر ہمارے سامنے ایڈ ہے۔ چلو، ہم دوبارہ ایڈ پر آ گئے ہیں۔ وہ ٹیری سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اسے ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی دوران اپنے آپ کو ہلاک کر بیٹھتا ہے۔"
میل نے رک کر اپنے گلاس میں سے گھونٹ بھرا۔ "تم دونوں کو ساتھ ساتھ اٹھارہ مہینے ہوئے ہیں اور تم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو۔ اور یہ بات تم دونوں سے چھلکتی ہے۔ تم دونوں کے اندر سے اس محبت کی روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے۔ لیکن تم دونوں کو ایک دوسرے سے پہلے اوروں سے محبت تھی۔ تم دونوں پہلے ایک ایک شادی رچا چکے ہو، بالکل ہماری طرح۔ اور تمہیں اپنی اپنی شادیوں سے پہلے بھی کسی نہ کسی سے محبت رہی ہو گی۔ ٹیری اور مجھے ایک ساتھ رہتے ہوئے پانچ سال ہو گئے۔ میری شادی چار سال چلی۔ اور ہول ناک بات تو یہ ہے ۔۔۔ ہول ناک، لیکن اچھی بھی ۔۔۔ جسے آپ اندھیرے میں روشنی کی کرن بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر کل کو ہم میں سے کسی کو کچھ ہو جاتا ہے، تو میرا خیال ہے کہ دوسرا شخص کچھ دنوں کے لیے ماتم کرے گا، لیکن پھر کچھ عرصے بعد وہ بیوہ یا وہ رنڈوا دوبارہ کسی سے محبت کرنا شروع کر دے گا۔ یہ سب، یہ سب محبت جس کی ہم بات کر رہے ہیں، یہ صرف ایک یاد بن کر رہ جائے گی۔ شاید یاد بھی نہ رہے۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟ کیا میں غلط راستے پر جا رہا ہوں؟ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں غلط ہوں تو مجھے سمجھاؤ۔ میں جاننا چاہتا ہوں۔ میرا مطلب ہے، مجھے کچھ نہیں معلوم اور مجھے اس بات کا اعتراف ہے۔"
"میل، خدا کے لیے،" ٹیری نے کہا۔ اس نے بڑھ کر میل کی کلائی تھام لی۔ "تم نشے میں ہو، ہنی؟ تم نے زیادہ پی لی ہے؟"
"میں صرف بات کر رہا ہوں،" میل نے کہا۔ "ٹھیک ہے۔ مجھے اپنی بات کہنے کے لیے نشے میں دھت ہونا ضروری نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے، ہم سب صرف بات کر رہے ہیں، ٹھیک؟" میل نے کہا۔ اس نے اپنی نظریں ٹیری پر جما دیں۔
"سویٹی، میں اعتراض نہیں کر رہی،" ٹیری نے کہا۔ اس نے اپنا گلاس اٹھا لیا۔
"آج میں ڈیوٹی پر نہیں ہوں،" میل نے کہا۔ "میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آج میں ڈیوٹی پر نہیں ہوں۔"
"میل، ہم تم سے پیار کرتے ہیں،" لارا نے کہا۔
میل نے لارا کی طرف دیکھا۔ اس نے لارا کی طرف یوں دیکھا جیسے اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ اسے کس خانے میں فٹ کرے، جیسے لارا اب وہ عورت نہ رہی ہو جو پہلے تھی۔ "میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں،" میل نے کہا۔ "اور تم سے بھی، نک۔ جانتے ہو؟" میل نے کہا۔ "تم دونوں ہمارے دوست ہو۔" اس نے اپنا گلاس اٹھا لیا۔
میل نے کہا، "میں تم لوگوں کو کچھ بتانے جا رہا ہوں۔ میرا مطلب ہے میں ایک بات ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ چند مہینے پہلے کی بات ہے، لیکن یہ آج بھی چل رہی ہے، اور اس سے ہمیں شرم آنی چاہیئے جب ہم محبت کے بارے میں یوں بات کرتے ہیں جیسے ہم جانتے ہوں محبت کیا چیز ہے۔"
"اب جانے بھی دو،" ٹیری نے کہا۔ "اگر تم نشے میں نہیں ہو تو بہکی بہکی ہوئی باتیں بھی مت کرو۔"
"زندگی میں ایک بار تو اپنی زبان بند رکھو،" میل نے بہت نرمی سے کہا۔ "کیا تم میری خاطر ایک منٹ کے لیے چپ رہ سکتی ہو؟ تو جیسا کہ میں کہہ رہا تھا، کہ یہ ایک معمر جوڑا تھا جن کی گاڑی کو ہائی وے پر بہت برا حادثہ پیش آ گیا تھا۔ ایک لڑکے نے ان کی گاڑی کو دے مارا تھا اور وہ اس قدر ٹوٹ پھوٹ گئے تھے کہ سبھی نے ان کی زندگیوں سے ہاتھ دھو لیے تھے۔"
ٹیری نے ہمیں دیکھا اور پھر میل کو۔ وہ بے قرار سی نظر آتی تھی، لیکن شاید یہ زیادہ سخت لفظ ہے۔ میل نے بوتل ہماری طرف بڑھائی۔
"اس رات میری ڈیوٹی تھی،" میل نے کہا۔ "مئی کا مہینا تھا، یا شاید جون کا۔ نشے میں دھت ایک لڑکے نے اپنے باپ کی پک اپ ان دو بوڑھوں کی گاڑی میں گھسیڑ دی۔ ان کی عمریں ستر اور اسّی کے درمیان ہوں گی۔ لڑکے کی عمر اٹھارہ انیس برس تھی۔ وہ ہسپتال میں پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا تھا۔ سٹیرنگ ویل اس کی چھاتی میں گھس گیا تھا۔ معمر جوڑا اب بھی زندہ تھا۔ سمجھ رہے ہو نا؟ بس برائے نام ہی زندہ ہی تھا۔ لیکن ان کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا تھا، کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی، اندرونی چوٹیں، خون، زخم، کٹے پھٹے اعضا۔ یقین کرو کہ ان کی حالت خراب تھی۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی عمر بھی ان کے خلاف جا رہی تھی۔ میں یہ کہوں گا کہ عورت کی حالت مرد سے زیادہ خراب تھی۔ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ اس کا پتا بھی پھٹ گیا تھا۔ دونوں گھٹنے ٹوٹے ہوئے۔ لیکن دونوں نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی تھی۔ خدا جانتا ہے کہ اس نے انہیں کچھ دیر کے لیے ہی سہی، لیکن بچا لیا تھا۔"
"خواتین و حضرات، آپ قومی تحفظ کونسل کا اشتہار سن رہے ہیں،" ٹیری نے کہا۔ "ہمارے ترجمان ہیں، ڈاکٹر میلون آر میک گبنز۔" ٹیری ہنسی۔ "میل،" اس نے کہا، "کبھی کبھی تو تم حد کر دیتے ہو۔ لیکن مجھے پھر بھی تم سے محبت ہے،" اس نے کہا۔
"مجھے بھی تم سے محبت ہے،" میل نے کہا۔
"ٹیری ٹھیک کہتی ہے،" میل نے اپنی نشست پر دوبارہ بیٹھتے ہوئے کہا۔ "سیٹ بیلٹ پہننا بہت ضروری ہے۔ لیکن واقعی، کوئی حالت تھی، ان بڈھوں کی۔ جب میں وہاں پہنچا تو جیسا کہ میں نے کہا، لڑکا مر چکا تھا۔ وہ ایک طرف سٹریچر پر پڑا ہوا تھا۔ میں نے جوڑے کو ایک نظر دیکھا اور ایمرجنسی وارڈ کی نرس سے کہا وہ بھاگ کر جائے اور ایک نیورالوجسٹ، ایک آرتھوپیڈک سپیشلسٹ اور دو سرجن لے آئے۔"
اس نے اپنے گلاس سے ایک چسکی لی۔ "میں بات زیادہ لمبی نہیں کروں گا،" اس نے کہا۔ "ہم دونوں کو آپریشن تھیئیٹر لے گئے اور رات بھر ان پر پاگلوں کی طرح کام کرتے رہے۔ ان دونوں کی ہمت ناقابلِ یقین تھی۔ ایسا کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ہم نے جو ہو سکتا تھا وہ کیا اور صبح ہوتے ہوتے ہمیں ان کے بچنے کی پچاس فی صد امید ہو گئی، عورت کے لیے تھوڑی کم۔ صبح تک وہ دونوں زندہ تھے۔ ٹھیک ہے، ہم نے انہیں انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا، جہاں وہ اگلے دو ہفتے تک ڈٹے رہے اور ان کے تمام ٹیسٹ بہتر سے بہتر ہوتے گئے۔ پھر ہم نے انہیں وارڈ کے کمرے میں لے گئے۔" میل خاموش ہو گیا۔ "چلو، یہ سستی جن ایسے پی جائیں جیسے کل نہیں آئے گی۔ بعد میں ہم ڈنر پر جا رہے ہیں، ٹھیک ہے نا؟ ٹیری اور میں نے ایک نئی جگہ کا پتا چلایا ہے۔ ہم وہیں جائیں گے۔ لیکن ہم اس سے پہلے یہ دو نمبری جن ختم کر کے جائیں گے۔"
ٹیری نے کہا، "ہم نے ابھی تک وہاں کھانا تو نہیں کھایا۔ لیکن جگہ اچھی ہے۔ باہر سے دیکھنے میں۔"
"مجھے خوراک پسند ہے،" میل نے کہا۔ "اگر مجھے زندگی دوبارہ گزارنے کا موقع ملے، تو جانتے ہو، میں شیف بننا پسند کروں گا؟ ٹھیک ہے نا ٹیری؟" میل نے کہا۔ اس نے ہنستے ہوئے اپنے گلاس میں انگلی سے برف ہلائی۔ "ٹیری کو پتا ہے،" اس نے کہا۔ "ٹیری آپ کو بتا سکتی ہے۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں، اگر مجھے ایک اور زندگی ملے، ایک اور زمانہ ملے تو میں نائٹ بننا پسند کروں گا۔ آپ زرہ بکتر پہن کر خاصے محفوظ رہتے ہیں۔ جب تک بندوقیں اور پستول ایجاد نہیں ہوئے تھے، نائٹ ہونا بڑے مزے کا کام تھا۔"
"میل، تم گھوڑے پر سواری کرتے اور نیزہ لیے لیے پھرتے؟" ٹیری نے کہا۔
"کسی عورت کا رومال ساتھ لیے پھرتے،" لارا نے کہا۔
"یا خود عورت کو،" میل نے کہا۔
"شرم کرو،" لارا نے کہا۔
ٹیری نے کہا، "فرض کرو تم رعایا میں پیدا ہوتے۔ اس زمانے میں رعایا کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔"
"رعایا کی حالت کبھی بھی اچھی نہیں رہی،" میل نے کہا۔ "لیکن میرا خیال ہے کہ نائٹ بھی کسی نہ کسی کے نوکر ہوا کرتے تھے۔ میں صحیح کہہ رہا ہوں نا ٹیری؟ لیکن جو بات مجھے نائٹوں کے بارے میں پسند ہے ۔۔۔ ان کی عورتوں کے علاوہ ۔۔۔ وہ ان کی آہنی زرہ بکتر ہے، انہیں آسانی سے زخمی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس زمانے میں کاریں بھی نہیں تھیں۔ کوئی نشے میں دھت لڑکے بھی نہیں جو ٹکر مار کر کباڑا کر دیں۔"
***
"رَعایا،" ٹیری نے کہا۔
"کیا؟" میل نے کہا۔
"رَعایا،" ٹیری نے کہا۔ صحیح لفظ رَعایا ہے، رِعایا نہیں۔"
"رِعایا رَعایا،" میل نے کہا۔ "آخر فرق ہی کیا ہے؟ تمہیں سمجھ آ گئی تھی نا جو میں کہہ رہا تھا۔ ٹھیک ہے،"میل نے کہا۔ "میں اَن پڑھ ہوں، مجھے صرف ایک کام آتا ہے۔ میں ہارٹ سرجن ہوں، بے شک۔ لیکن میں محض ایک مکینک ہوں۔ میں ہسپتال جاتا ہوں اور چیزیں ٹھیک کرتا ہوں۔ لعنت،" میل نے کہا۔
"انکسار تم پر کچھ زیادہ نہیں جچتا،" ٹیری نے کہا۔
"یہ تو ایک معمولی سا قصائی ہے،" میں نے کہا۔ "لیکن کبھی کبھار نائٹ زرہ بکتر میں دم گھٹ کر مر جاتے تھے، میل۔ اور اگر موسم گرم ہو تو انہیں زرہ بکتر کے اندر دل کا دورہ بھی پڑ سکتا تھا۔ اور وہ تھک کر چور ہو جاتے تھے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ گھوڑوں سے گر پڑتے تھے اور پھر اس قابل نہیں رہتے تھے کہ اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں کیوں کہ وہ اس قدر تھکے ہوئے ہوتے تھے کہ اپنی زرہ بکتر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ بعض اوقات تو وہ اپنے ہی گھوڑوں کے سموں تلے روندے جاتے تھے۔"
"بہت بھیانک ہے یہ سب کچھ، نک،" میل نے کہا۔ "کتنا بھیانک خیال ہے کہ وہ وہیں پڑے رہتے ہوں گے اور پھر کوئی آ کر ان کے شیش کباب بنا لیتا ہو گا۔"
"رعایا ہی میں سے کوئی،" ٹیری نے کہا۔
"ٹھیک،" میل نے کہا۔ "رعایا ہی میں سے کوئی آتا اور اس سورما کو محبت کے نام پر ۔۔۔ یا پھر اس زمانے میں جس بھی ذلالت کے نام پر جنگیں لڑی جاتی تھیں ۔۔۔ نیزے کا مزہ چکھا جاتا۔"
"انہی باتوں پر جن پر ہم آج لڑتے ہیں،" ٹیری نے کہا۔
"کچھ بھی نہیں بدلا،" لارا نے کہا۔
لارا کے گالوں کا رنگ اب بھی تازہ تھا۔ اس کی آنکھیں روشن تھیں۔ وہ اپنا گلاس ہونٹوں تک لائی۔ میل نے اپنے لیے ایک اور جام انڈیلا۔ اس نے بوتل کے لیبل کو غور سے دیکھا جیسے اس پر درج نمبروں کی قطار کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر اس نے آہستگی سے بوتل میز پر رکھ دی اور ٹانک واٹر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
***
"اس بوڑھے جوڑے کا کیا بنا؟" لارا نے کہا۔ "تم نے اپنی کہانی ادھوری چھوڑ دی۔"
لارا کو سگریٹ سلگانے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ ماچس کی تیلیاں بجھ بجھ جاتی تھیں۔
کمرے میں اب دھوپ کا رنگ کچھ اور تھا۔ اب یہ خاصی ہلکی ہو گئی تھی۔ لیکن کھڑکی سے باہر پتے جھلملا رہے تھے۔ میں نے کھڑکی کے شیشوں اور کاؤنٹر کی سطح پر بننے والے سایوں کو دیکھا۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی بدل گئے تھے۔
"ہاں، بوڑھے جوڑے کا کیا ہوا؟" میں نے کہا۔
"بوڑھے لیکن سیانے،" ٹیری نے کہا۔
میل نے اسے گھورا۔
"ٹیری نے کہا، "ہنی، تم کہانی سناؤ، میں تو مذاق کر رہی تھی۔ کیا ہوا؟"
"ٹیری تم بھی کبھی کبھی،" میل نے کہا۔
"پلیز، میل،" ٹیری نے کہا۔ "ہر بات کو سنجیدگی سے مت لیا کرو۔ تم ایک چھوٹا سا مذاق بھی برداشت نہیں کر سکتے؟"
"کون سا مذاق؟" میل نے کہا۔
اس نے اپنا گلاس اٹھا لیا اور اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
"کیا ہوا؟" لارا نے کہا۔
میل نے اپنی نظریں ٹیری پر گاڑے رکھیں۔ اس نے کہا، "لارا، اگر ٹیری نہ ہوتی یا مجھے اس سے محبت نہ ہوتی، اور اگر نک میرا سب سے گہرا دوست نہ ہوتا تو میں تمہارے عشق میں گرفتار ہو جاتا۔ میں تمہیں اٹھا کر بھاگ جاتا،" اس نے کہا۔
"تم اپنی کہانی سناؤ،" ٹیری نے کہا۔ "پھر ہم اس نئی جگہ چلیں گے، ٹھیک؟"
"ٹھیک ہے،" میل نے کہا۔ "کہاں تھا میں؟" وہ تھوڑی دیر میز کو تکتا رہا، پھر اس نے کہنا شروع کیا۔
"میں ہر روز انہیں دیکھنے جاتا تھا، کبھی کبھی اگر میری ڈیوٹی لمبی ہوتی تو دن میں دو دفعہ۔ دونوں سر سے پاؤں تک پٹیوں اور پلستر میں لپٹے ہوئے تھے۔ تم نے شاید فلموں میں دیکھا ہو۔ منھ، آنکھوں اور ناک کے لیے چھوٹے چھوٹے سوراخ۔ عورت کی ٹانگیں رسی سے بندھی ہوئی تھیں۔ خیر، خاوند خاصا عرصہ بے حد پریشان رہا۔ لیکن حادثے کی وجہ سے نہیں۔ میرا مطلب ہے، حادثہ ایک وجہ ضرور تھا، لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ تھا۔ میں اپنا کان اس کے منھ کے سوراخ کے قریب لے جاتا تھا اور وہ کہتا تھا نہیں، وجہ حادثہ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سوراخوں سے بیوی کو دیکھ نہیں سکتا۔ اس نے کہا کہ وہ اس وجہ سے پریشان ہے۔ کیا تم یقین کر سکتے ہو؟ یعنی اس آدمی کا دل پھٹا جا رہا تھا، صرف اس لیے کہ اپنا کم بخت سر موڑ کر اپنی کم بخت بیوی کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔"
میل نے ہمیں دیکھا اور جو وہ کہنے جا رہا تھا اس پر سر ہلایا۔
"میرا مطلب ہے، اس بابے کو یہ بات مارے دے رہی تھی کہ وہ اس لعنتی عورت کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔"
ہم سب نے میل کی طرف دیکھا۔
"سمجھ رہے ہو نا جو میں کہہ رہا ہوں؟"
شاید ہم سب تھوڑے دھت تھے۔ میرے لیے چیزوں پر توجہ جمانا مشکل ہو رہا تھا۔ کمرے سے روشنی کھڑکی کے راستے قطرہ قطرہ بہہ کر باہر نکل رہی تھی۔ لیکن کسی نے بھی اٹھ کر بتی جلانے کی کوشش نہیں کی۔
"سنو،" میل نے کہا۔ "یہ لعنتی جن ختم کرتے ہیں۔ سب کا ایک ایک گلاس ہو جائے گا۔ پھر اس نئی جگہ چل کر کھانا کھاتے ہیں۔"
یہ بہت افسردہ ہو گیا ہے،" ٹیری نے کہا۔ "میل، تم گولی کیوں نہیں کھا لیتے؟"
میل نے سر ہلایا۔ "سب دوائیں آزما چکا ہوں۔"
"ہم سب کو ایک ایک گولی کی ضرورت ہے،" میں نے کہا۔
"کچھ لوگ پیدا ہی کوئی نہ کوئی ضرورت لے کر ہوتے ہیں،" ٹیری نے کہا۔
وہ اپنی انگلی سے میز پر کچھ رگڑ رہی تھی۔ پھر اس نے رگڑنا بند کر دیا۔
"میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو فون کروں،" میل نے کہا۔ "تم لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ میں اپنے بچوں کو فون کرنا چاہتا ہوں۔"
ٹیری نے کہا، "اگر مارجری نے فون اٹھا لیا، پھر؟ تم لوگوں نے ہمیں مارجری کے بارے میں بات کرتے سنا ہے نا؟ ہنی، تمہیں پتا ہے کہ تم مارجری سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ اس سے معاملہ اور بگڑ جائے گا۔"
"میں مارجری سے بات نہیں کرنا چاہتا،" میل نے کہا۔ "لیکن میں اپنے بچوں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔"
"کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب میل یہ نہ کہتا ہو کہ وہ چاہتا ہے کہ مارجری دوبارہ شادی کر لے۔ یا مر جائے،" ٹیری نے کہا۔ "ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ہمارا دیوالیہ نکال رہی ہے،" ٹیری نے کہا۔ "میل کہتا ہے کہ وہ صرف ہم سے بدلہ لینے کے لیے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس کا بوائے فرینڈ ہے اور وہ اس کے اور بچوں کے ساتھ رہتا ہے، اس لیے میل اس کے بوائے فرینڈ کا خرچ بھی اٹھا رہا ہے۔"
"اسے شہد کی مکھیوں سے الرجی ہے،" میل نے کہا۔ "میں اس بات کی دعا نہیں کر رہا کہ وہ پھر شادی کر لے۔ میں دعا کر رہا ہوں کہ مکھیوں کا غول اسے ڈنک مار مار کر ختم کر دے۔"
"شرم کرو،" لارا نے کہا۔
"بززززز،" میل نے اپنی انگلیوں کو مکھیوں کی طرح بنایا اور انہیں ٹیری کی گردن کے قریب اڑانے لگا۔ پھر اس نے اپنے بازو پہلوؤں پر گرا لیے۔ "وہ عورت نہیں ڈائن ہے،" میل نے کہا۔ "کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ مکھیوں والے کا بہروپ بنا کر اس کے گھر پہنچ جاؤں۔ سر پر بھاری ٹوپی، جس میں چہرہ بھی ڈھکا ہوا ہو، بڑے بڑے دستانے، لمبا کوٹ۔ میں دوازے پر دستک دوں اور گھر میں مکھیوں کا چھتا پھینک دوں۔ لیکن پہلے مجھے یہ تسلی کر لینی ہو گی کہ بچے گھر میں نہ ہوں۔"
اس نے اپنی ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی۔ ایسا کرتے اسے بہت وقت لگا۔ پھر اس نے دونوں پیر زمین پر جمائے اور کہنیاں میز پر اور ٹھوڑی ہاتھوں میں لیے ہوئے آگے کی طرف جھکا۔ "میرا خیال ہے میں فون نہیں کرتا۔ شاید یہ اتنا اچھا خیال نہیں ہے۔ شاید ہمیں جا کر کھانا کھانا چاہیئے۔ کیا خیال ہے؟"
"مجھے تو بڑا نیک خیال لگتا ہے،" میں نے کہا۔ "کھانا یا نہ کھانا۔ یا پیتے رہنا۔ میرا تو دل کر رہا ہے کہ ڈھلتے ہوئے سورج کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کردوں۔"
"کیا مطلب، ہنی؟" لارا نے کہا۔
"وہی مطلب جو میں نے کہا،" میں نے کہا۔ "اس کا مطلب ہے کہ جو میں کر رہا ہوں وہی کرتے چلا جا سکتا ہوں۔ یہی میرا مطلب ہے۔"
"میرا تو کھانا کھانے کو دل کر رہا ہے،" لارا نے کہا۔ "میرا نہیں خیال کہ مجھے زندگی میں پہلے کبھی اس قدر بھوک لگی ہو۔ گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟"
"میں بسکٹ اور پنیر لے آتی ہوں،" ٹیری نے کہا۔
لیکن وہ وہیں بیٹھی رہی۔
میل نے اپنا گلاس الٹ دیا۔ جن میز پر بہہ گئی۔
"جن خلاص،" میل نے کہا۔
"پھر؟" ٹیری نے کہا۔
میں اپنے دل کی دھڑکن کی آواز سن سکتا تھا۔ میں دوسروں کے دلوں کی دھڑکن بھی سن سکتا تھا۔ بدنوں کے اندر جو شور اٹھ رہا تھا وہ میں سن سکتا تھا۔ ہم میں سے کوئی نہیں ہلا۔ تب بھی نہیں جب کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ریمنڈ کارور کے افسانے What We Talk About When We Talk About Love کا ترجمہ
 
Top