حسرت موہانی محبت کے عوض رہنے لگے ہر دم خفا مجھ سے

عاطف بٹ

محفلین
محبت کے عوض رہنے لگے ہر دم خفا مجھ سے​
کہو تو ایسی کیا سرزد ہوئی آخر خطا مجھ سے​
ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو برآئے گی دل کی​
نہ ہوگا خود خیال ان کو، نہ ہوگی التجا مجھ سے​
قرار آتا نہیں دل کو کسی عنوان پہلو میں​
ہوا ہے آشنا جب سے وہ کافر ماجرا مجھ سے​
غنیمت ہے جہانِ عاشقی میں ذات دونوں کی​
کہ نامِ جور قائم تم سے ہے، رسمِ وفا مجھ سے​
فلک سے بھی ہے کیا بڑھ کر بلندی بامِ جاناں کی​
یہ پوچھا کرتی ہے اکثر مری آہِ رسا مجھ سے​
مگر سیرِ چمن کو آج پھر وہ آنے والے ہیں​
ابھی کچھ کہہ رہی تھی کان میں بادِ صبا مجھ سے​
محبت بھی عجب شے ہے کہ باوصفِ شناسائی​
نہیں ہوتی مخاطب وہ نگاہِ آشنا مجھ سے​
سکونِ قلب کی امید اب کیا ہو کہ رہتی ہے​
تمنا کی دوچار اک ہر گھڑی برقِ بلا مجھ سے​
تقاضا ہے یہی خوئے نیازِ عشق بازی کا​
نہ ہوگا اس سراپا ناز کا حسرت گِلا مجھ سے​
 

نیلم

محفلین
ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو برآئے گی دل کی
نہ ہوگا خود خیال ان کو، نہ ہوگی التجا مجھ سے
خوب:)
 

طارق شاہ

محفلین
عاطف بٹ صاحب!
اِس بہت خوبصورت غزل کی عنایت پر تشکّر
اورانتخابِ خوب پر بہت ساری داد قبول کیجئے
غزل نے بہت لطف دیا
بہت خوش رہیں
 

مقدس

لائبریرین
اچھی غزل ہے بھیا۔۔ ویسے آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں۔۔ ایک دن ناں میں اداس ہو رہی تھی اور کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔۔ تو میں نے حسرت موہانی کی ایک کتاب ٹائپ کر لی تھی۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔ میرے خیال میں یہ غزل بھی شامل تھی اس میں۔۔ :):):):)
 

عاطف بٹ

محفلین
اچھی غزل ہے بھیا۔۔ ویسے آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں۔۔ ایک دن ناں میں اداس ہو رہی تھی اور کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔۔ تو میں نے حسرت موہانی کی ایک کتاب ٹائپ کر لی تھی۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔ میرے خیال میں یہ غزل بھی شامل تھی اس میں۔۔ :):):):)
واہ بھئی واہ، تمہاری اداسی تو بہت کارآمد ثابت ہوئی۔ :)
 
Top