مجھ کو روزی کا در ضروری تھا

میاں وقاص

محفلین
مجھ کو روزی کا در ضروری تھا
اس کو دست_ہنر ضروری تھا

واپسی کا سفر ضروری تھا
سو، یہ راہ_مفر ضروری تھا

آسماں کے ہیں فیصلے اپنے
گھر بجا، پر شرر ضروری تھا

آبلے آشنا نہ یوں ہوتے
ایک مشکل سفر ضروری تھا

دھوپ ورنہ بدن جلا دیتی
"راستے میں شجرضروری تھا"

دور افتاد جا کے یہ سوچا
ان اڑانوں میں پر ضروری تھا

درد لازم ضرور تھا لیکن
حوصلہ بھی مگر ضروری تھا

ایک خود کش جوان کا کیوں کر
مسجدوں سے گزر ضروری تھا

دشت میں یوں ہی میں نہیں آیا
شخص کوئی ادھر ضروری تھا

میرے مرنے پہ چارہ گر بولا
نسخہء بے ضرر ضروری تھا

تو بہت بے نیاز ہے، واللہ
کیا وجود_ بشر ضروری تھا

مجھ کو اندھا یقین لے ڈوبا
کچھ تو خوف و خطر ضروری تھا

اشک خانہ بدوش ہو بیٹھے
پانیوں میں بھی گھر ضروری تھا

سوے مسجد بھی سر ضروری ہے
سوے مقتل بھی سر ضروری تھا

آپ آے تو ہو گیا احساس
قلب میں اک نگر ضروری تھا

دو قدم آپ، چار میں کرتا
کیا کوئی نامہ بر ضروری تھا

مجھ کو جگنو فقط میسر ہے
پر، یہاں تو قمر ضروری تھا

رو پڑا ہوں بلا سبب ہی کیوں
کچھ پس_چشم_تر ضروری تھا

زندگی خاتمہ پہ آ پہونچی
کچھ تو بار_دگر ضروری تھا

کون واعظ کو پوچھتا شاہین
خیر کے ساتھ شر ضروری تھا

حافظ اقبال شاہین
 
Top