مجھ کو تو انتظار تمہارا ہے آج بھی------برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
------------
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
------------
مجھ کو تو انتظار تمہارا ہے آج بھی
دل میں مرے تو پیار تمہارا ہے آج بھی
-------------
ملتا نہیں سکون تمہارے بغیر اب
دل پر تو اقتدار تمہارا ہے آج بھی
--------------
تم سے مجھے کبھی بھی شکایت نہیں رہی
دل میں وہی وقار تمہارا ہے آج بھی
-----------------
چھوٹی سی اک خطا تھی جسے بھولتے نہیں
غصّہ تو برقرار تمہارا ہے آج بھی
----------
رہتے تھے بے قرار ہمیشہ ہی یار تم
عادت میں اضطرار تمہارا ہے آج بھی
---------------
آؤ گے تم بہار میں وعدہ کیا تھا یہ
وعدے پہ اعتبار تمہارا ہے آج بھی
-------------
آنے نہ دوں گا غم کو تمہارے تو پاس بھی
ارشد تو غمگسار تمہارا ہے آج بھی
--------------
 

الف عین

لائبریرین
مجھ کو تو انتظار تمہارا ہے آج بھی
دل میں مرے تو پیار تمہارا ہے آج بھی
------------- جس دن یقین ہو جائے گا کہ بھرتی کے الفاظ سے دامن بچانا شروع کر دیا ہے، اس دن خیالی پلاؤ سے میری طرف سے دعوت!
میرا مشورہ... اس دل میں انتظار....
سینے میں میرے پیار....
'اس' بھی اگرچہ بھرتی کا ہے لیکن سو فیصد نہیں

آنے نہ دوں گا غم کو تمہارے تو پاس بھی
ارشد تو غمگسار تمہارا ہے آج بھی
بھرتی کے علاوہ دو لخت بھی ہے
باقی اشعار درست ہیں
 
الف عین
اس دل میں انتظار. تمہارا ہے آج بھی
سینے میں میرے پیار تمہارا ہے آج بھی
-----------------
مقطع
ارشد سے سیکھ کر ہی جو آیا تھا بولنا
لہجہ وہ پُر وقار تمہارا ہے آج بھی
 
Top