مجھ سے ملنے جو یار آیا ہے : برائے اصلاح

الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمّد خلیل الرحمن
------------

مجھ سے ملنے جو یار آیا ہے
میرے دل کو قرار آیا ہے
-----------
میرا دل جو خزاں رسیدہ تھا
اس میں بن کر بہار آیا ہے
----------
مجھ سے الفت کی بات کرتا ہے
دل میں لے کر وہ پیار آیا ہے
------------
آج لگتا ہے اس کے چہرے پر
پیار پا کر نکھار آیا ہے
--------
بے یقینی نہیں ہے چہرے پر
بوجھ دل سے اتار آیا ہے
-----------
اب وہ قربت کی بات کرتا ہے
مجھ سے دوری گزار آیا ہے
---------
اب تو لگتا ہے اس طرح مجھ کو
اک مرا غمگسار آیا ہے
---------
بات سنتا ہے غور سے میری
سیکھ کر وہ شعار آیا ہے
-----------
اس پہ ارشد بھی جان دیتا ہے
بن کے وہ جانثار آیا ہے
-------------
 
مجھ سے ملنے جو یار آیا ہے
میرے دل کو قرار آیا ہے
آج ملنے جو یار آیا ہے
میرے دل کو قرار آیا ہے

میرا دل جو خزاں رسیدہ تھا
اس میں بن کر بہار آیا ہے
کون بہار بن کر آیا ہے؟ شعر میں فاعل کا تذکرہ نہیں۔
میرے قلبِ خزاں رسیدہ میں
تو ہی بن کر بہار آیا ہے

مجھ سے الفت کی بات کرتا ہے
دل میں لے کر وہ پیار آیا ہے
مجھ سے الفت کی بات کرتے ہو
آج کیا مجھ پہ پیار آیا ہے؟ (گوکہ یہاں تنافر کی کیفیت ہے، مگر میرے خیال میں روانی میں زیادہ خلل نہیں آرہا)۔

آج لگتا ہے اس کے چہرے پر
پیار پا کر نکھار آیا ہے
دیکھ تو، کیسے تیرے چہرے پر
پیار پا کر نکھار آیا ہے

بے یقینی نہیں ہے چہرے پر
بوجھ دل سے اتار آیا ہے
کون بوجھ اتار آیا ہے؟ وہی مسئلہ ہے کہ شعر میں نہ فاعل موجود ہے نہ اس کی جانب کوئی اشارہ ہو رہا ہے۔ پھر دل کا بوجھ اتارنے سے بے چینی، بےکلی یا اضطرا ب تو ختم ہوسکتا ہے، بے یقینی کیسے ختم ہوگی؟

اب وہ قربت کی بات کرتا ہے
مجھ سے دوری گزار آیا ہے
مفہوم واضح نہیں ہے۔ دوئم، مجھے ’’دوری گزار آنا‘‘ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔

اب تو لگتا ہے اس طرح مجھ کو
اک مرا غمگسار آیا ہے
اب ایسا کیا ہوا ہے کہ غم گسار کے آنے کا احساس اچانک جاگ اٹھا؟ شعر عجز بیان کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ اس میں دوبارہ فکر کریں۔

بات سنتا ہے غور سے میری
سیکھ کر وہ شعار آیا ہے
’’شعار‘‘ کو یوں مفرد، بغیر کسی سابقے کے برتنے کا جواز میرے علم میں نہیں ہے اور بظاہر یہ درست معلوم نہیں ہوتا، واللہ اعلم۔

اس پہ ارشد بھی جان دیتا ہے
بن کے وہ جانثار آیا ہے
دونوں مصرعوں میں ربط مفقود ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’وہ‘‘ بیان کو مزید الجھا رہا ہے اور یہ محض قاری کا اٹکل ہو گا اگر ’’وہ‘‘ کے مشار کا تعین کرے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
آخری تدوین:
محمّد احسن سمیع :راحل:
(اصلاح کے بعد دوبارا )
------------
فاعلاتن مفاعلن فِعْلن
آج ملنے جو یار آیا ہے
میرے دل کو قرار آیا ہے
------
میرے قلبِ خزاں رسیدہ میں
تُو ہی بن کر بہار آیا ہے
--------------
مجھ سے الفت کی بات کرتے ہو
آج کیا مجھ پہ پیار آیا ہے؟
-----------
دیکھ لو کیسے تیرے چہرے پر
پیار پا کر نکھار آیا ہے
------------
ہے یقیں آج اس کی باتوں میں
بوجھ سارے اتار آیا ہے
-----------
اب وہ قربت کی بات کرتا ہے
دوری کے دن گزار آیا ہے
---------
اب تو لگتا ہے اس طرح مجھ کو
وہ مرا غمگسار آیا ہے
---------------
لگ رہا ہے نڈھال سا مجھ کو
جیت اپنی وہ ہار آیا ہے
------------
وہ حسیں رات آ گئی ارشد
گھر میں جانِ بہار آیا ہے
-------------
 
دیکھ لو کیسے تیرے چہرے پر
پیار پا کر نکھار آیا ہے
’’دیکھ لو‘‘ کے ساتھ ’’تیرے‘‘؟؟؟ یہاں شترگربہ ہورہا ہے۔

ہے یقیں آج اس کی باتوں میں
بوجھ سارے اتار آیا ہے
اب بھی وہی مسئلہ ہے کہ مفہوم واضح نہیں۔ دل کا بوجھ اتار آنے سے باتوں میں تیقن کیسے بڑھ رہا ہے؟ اگر اس میں کوئی پوشیدہ منطق ہے تو اس کی جانب اتنی مختصر بحر میں اشارہ کرنا بہت مشکل ہے۔

اب وہ قربت کی بات کرتا ہے
دوری کے دن گزار آیا ہے
دوری کی ی کا اسقاط ناگوار محسوس ہورہا ہے۔

اب تو لگتا ہے اس طرح مجھ کو
وہ مرا غمگسار آیا ہے
یہاں بھی وہی عجز بیان کا مسئلہ درپیش ہے۔ شعر میں اس بات کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ ’’اب‘‘ ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے غم گسار کے آنے کا احساس جاگ گیا ہے؟

لگ رہا ہے نڈھال سا مجھ کو
جیت اپنی وہ ہار آیا ہے
جیت اپنی ہار آیا ہے؟؟؟

وہ حسیں رات آ گئی ارشد
گھر میں جانِ بہار آیا ہے
درست۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
محمّد احسن سمیع :راحل:
(راحل بھائی کچگ اغلاط درست کی ہیں دوبارہ دیکھ لیں،، آپ کی رہنمائی کا شکر گزار ہوں )
آج ملنے جو یار آیا ہے
میرے دل کو قرار آیا ہے
-------------
میرے قلبِ خزاں رسیدہ میں
تو ہی بن کر بہار آیا ہے
-----------
مجھ سے الفت کی بات کرتے ہو
آج کیا مجھ پہ پیار آیا ہے؟
------------
دیکھ تو، کیسے تیرے چہرے پر
پیار پا کر نکھار آیا ہے
-----------
ہے یقیں آج اس کی باتوں میں
بوجھ سر سے اتار آیا ہے
---------
اب وہ قربت کی بات کرتا ہے
رات تنہا گزار آیا ہے
----------
اب تو لگتا ہے اس طرح جیسے
مجھ پہ کچھ اعتبار آیا ہے
----------
دیکھتا ہے وہ اب محبّت سے
مجھ کو بھی اس پہ پیار آیا ہے
-----
بات کرتا ہے کچھ وہ بہکی سی
کہہ رہا تھا بخار آیا ہے
-------
وہ حسیں رات آ گئی ارشد
گھر میں جانِ بہار آیا ہے
-----------
 
ہے یقیں آج اس کی باتوں میں
بوجھ سر سے اتار آیا ہے
مکرمی ارشد صاحب۔ بصد احترام عرض ہے کہ بوجھ اتارنے سے تیقن کا تعلق میں اب بھی سمجھ نہیں پارہا ہوں۔ ممکن ہے میرے فہم کا نقص ہے۔ ذرا سا مضمون بدل کر دیکھیں، مثلاً
آج ہے مطمئن وہ یوں، جیسے
بوجھ سر سے اتار آیا ہے

اب تو لگتا ہے اس طرح جیسے
مجھ پہ کچھ اعتبار آیا ہے
اب یہاں سے فاعل غائب ہوگیا۔ کس کو اعتبار آیا ہے؟ اور کیوں؟


دیکھتا ہے وہ اب محبّت سے
مجھ کو بھی اس پہ پیار آیا ہے
الفاظ و معانی تیسرے شعر سے ٹکرا رہے ہیں۔

بات کرتا ہے کچھ وہ بہکی سی
کہہ رہا تھا بخار آیا ہے
قبلہ گستاخی معاف، یہ صرف لفظ بخار کی فافیہ پیمائی معلوم ہوتی ہے۔

دعاگو۔
راحلؔ
 
راحل بھائی میں بھی نہیں سمجھ پایا فاخر رضا کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔اور بھائی میری دوسری غزل بہتر کرنے کی کوشش کی ہے دوبارہ چیک کر لیں
 
بھائی بعد میں اپنی غلطی میں بھی سمجھ گیا تھا۔ اور کوشش بھی کی وقفہ پیدا کرنے کی لیکن شائد ممکن نہیں ۔اگر ہو سکتا ہے تو آپ ہی کر دیں
 
Top