مجھے کچھ لکھنا ہے!!!

آج علم بہت پھیل چکا ہے جس کی وسعت صحرائے اعظم کی وسعتوں سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ لائبریریاں کتابوں سے بھری جارہی ہیں۔ روزانہ بے حساب علم انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر منتقل ہو رہا ہے۔ ایسے دور میں میری حقیر سی تحریر اتنے وسیع علم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اگرچہ گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک چھوٹا سا روشن چراغ سارے ماحول کو روشن نہیں کر سکتا ہے لیکن ایک بھٹکے ہوئے مسافر کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر اُمید کی کرن تو دکھا سکتا ہے کیوں کہ اُمید سے یقین کی منزل دو قدم پر ہے لہٰذا اس امید سے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ میں نے سوچا کہ ’’ مجھے کچھ لکھنا ہے ‘‘، خواہ چند الفاظ ہی کیوں نہ ہو۔ جی ہاں ! ’’ مجھے کچھ لکھنا ہے ‘‘۔

میرے ایک رفیق نے مشورہ دیا تھا کہ جب آپ کے پاس لکھنے کے لئے کوئی موضوع نہ ہو ، تو بِلا عنوان ہی کوئی چیز لکھ لیا کریں۔ طریقہ بہت سادہ سا بتایا کہ قلم اور ڈائری اُٹھاؤ اور لکھنے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ جیسے آپ کا قلم ڈائری کے صفحات کو چھوئے گا، تو بس دوڑنا شروع کر دے گا۔ پھر حروف سے سے الفاظ بنتے جائیں گے اور الفاظ سے سطور ، سطور سے پیراگراف اور بالآخر مضمون مکمل ہوجائے گا اور مضامین کتابی شکل میں یکجا بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ طریقہ نہیں آسان و سہل ہے لیکن لکھنے کے لئے وقت چاہیے جو آج کل کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں ، میں فارغ نہیں ۔ میرے بہت کام ہیں ، ابھی تھوڑا فارغ ہوا ، آج کل زندگی بہت مصروف ہوں، بالکل فرصت نہیں ملتی وغیرہ وغیرہ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم نے قائد کی بات پر عمل شروع کردیا ہے۔ ’’ کام ، کام اور بس کا ‘‘، یہ اچھی بات ہے کہ ہم اس دور میں جہاں قیادت کا فقدان ہے ، اپنے قائد کے قول پر عمل پیرا ہیں۔ اتنا کام اور اتنی مصروفیات کے باوجود پاک سر زمین ترقی کی راہوں سے بھٹکی ہوئی ہے۔ ’’ کیوں ۔۔۔؟ ‘‘۔ وجہ معلوم نہیں لیکن آج کا ہر پاکستانی ذہنی اور جسمانی طور پر بہت مصروف ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ فرمان ایزدی ہے ۔ ’’ لقد خلقناالانسان فی احسن تقویم ‘‘۔ انسان کو بیان کی دولت سے نوازا گیاہے اور بیان درحقیقت الفاظ ہوتے ہیں جو جتنے سلیقے طریقے اور ترتیب سے ادا ہوں گے، بیان اتنا مؤثر ہوگا۔ موزوں الفاظ کا انتخاب اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا ایک سنگ تراش پتھر میں چھپے ہوئے نقش کو اُجاگر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ الفاظ کا مقدس اور مؤثر ہونا اس کے ادا کرنے والے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن پاک کے الفاظ وحدہ ‘لا شریک ذات کے ہیں جن کی حفاظت کی ذمہ داری اﷲ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ پس اگر الفاظ اﷲ کے ہوں تو قرآن ہے جو قیامت تک تمام بنی آدم کے لئے رُشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اگر الفاظ حضور ﷺ کے ہیں تو حدیث کہلاتے ہیں اور اگر داناؤں کے ہوں تو اقوال کہلاتے ہیں۔ غرض الفاظ جتنی مقدس زبان سے ادا ہوں گے اتنے ہی مقدس اور مؤ ثر ہوں گے اور دلوں میں تیر بن کر اُترتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے لکھا ہے کہ روزانہ بے حساب علمی مواد کا حجم بڑھتا جارہا ہے۔ روزانہ ہزار ہا کالم اخباروں میں چھپتے ہیں ، بیسیوں کتابیں چھپتی ہیں لیکن غور طلب بات ہے تمام مضامین ، تحریریں ایک قاری کا متاثر نہیں کرتیں۔ صرف چند ایک تحریریں ایسی ہوتی ہیں جن کو خصوصی دَین حاصل ہوتی ہے۔ جس کے الفاظ کو اﷲ تعالیٰ نے قوت و طاقت دی ہوتی ہے جو ایک قاری کے دل پر براہِ راست کرتی ہے۔ یہ طاقت بہت خوش نصیب لکھاریوں کے قلم میں ہوتی ہے۔ پس جن کو یہ نعمت حاصل ہے ، اُن کو چاہیے کہ وہ اپنے قلم کا صحیح طریقے سے کریں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ الفاظ بم کی مانند ہوتے ہیں لہٰذا ان کا استعمال احتیاط سے کیا جائے۔

الفاظ کا مہارت سے استعمال بھی ایک فن ہے اور بعض دفعہ ایک ہی الفاظ کے بدلنے سے بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ فرض کریں کہ امجد ایک بھری محفل سے کہتا ہے ۔ ’’ اس محفل میں آدھے لوگ بے وقوف بیٹھے ہیں۔ ‘‘ اس بات پر تقریباً سارے لوگ ناراضی کا اظہار کریں گے۔ اَب اسلم اسی محفل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’ اس محفل میں آدھے لوگ عقل مند بیٹھے ہیں۔ ‘‘، اَب رد عمل مختلف ہوگا۔ ذرا سوچیئے کہ دونوں کا مدعا ایک ہی تھا لیکن انداز بیان میں فرق تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بادشاہ نے اپنے درباری نجومی سے اپنے متعلق رائے دریافت کی۔ نجومی نے کہا۔ بادشاہ سلامت ! آپ کے سارے رشتہ دار آپ کی زندگی میں وفات پا جائیں گے۔ بادشاہ نے جب یہ رائے سُنی تو اس نے غصے سے نجومی کو پابندِ سلاسل کردیا۔ اگلے روز بادشاہ نے ایک اور درباری نجومی سے اپنے متعلق رائے دریافت کی۔ دوسرے نجومی نے کہا۔ بادشاہ سلامت ! آپ طویل عمر پائیں گے۔ بادشاہ خوش ہو اور فرمایا جو تو مانگتا ہے ، وہ مانگ۔ نجومی نے کہا ۔ ’’ میرے استاد نجومی کو رہا کردیں۔ ‘‘ بادشاہ نے وضاحت طلب کی تو نجومی بولا۔ ’’ گرفتار نجومی میرا استاد ہے ، اس نے جو بتایا وہی میں نے بھی زائچہ بنا کر بتایا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں نے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط برتی۔ بادشاہ سلامت ! جب آپ طویل عمر پائیں گے تو آپ کے رشتے دار آپ کی زندی میں ہی وفات پا جائیں گے۔ بات ایک ہی تھی لیکن الفاظ کا انتخاب مختلف تھا اور یہی سب سے اہم چیز ہے کہ الفاظ کا استعمال کس طرح کرتے ہیں ۔ پس ہمیں بات کرتے وقت بڑی احتیاط کے ساتھ الفاظ کو استعمال میں لانا چاہیے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے الفاظ کا ہمارے والدین ، بہن ، بھائیوں ، ہمسائیوں اور دوستوں پر ناخوش گوار اثر تو نہیں پڑ رہا ہے کیوں کہ یہی الفاظ خوش گوار اثر کے ساتھ ساتھ ناخوش گوار اثر بھی چھوڑتے ہیں لہٰذا ہمیں دوسروں کا احساس رکھنا چاہیے۔

’’ مجھے کچھ لکھنا ہے ‘‘ ، میری اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ یہ صرف الفاظ کا مجموعہ بن کر علم کے سمندر کے حجم میں اضافہ کردے بلکہ میرا مقصد ہے کہ کوئی ایک اچھی بات تحریر ہوجائے جو قارئین کو میری صحت اور زندگی کی دعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے پر تیار کرے۔ آپ نے دیکھا کہ بات کہاں سے چلی اور کہاں جا پہنچی۔ ہم لوگ لکھنے سے شاید اس لئے گھبراتے ہیں کہ ہمارا خیال بلکہ یقین ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں موزوں خیالات نہیں سوجھیں گے یا موزوں الفاظ۔ میری اس تحریر سے آپ کے ان دونوں شکوک کو مکڑی کی جالے کی طرح آن واحد میں آپ کے ذہنوں سے نکال باہر کر دیا ہوگا، لکھنے کے لئے ہمت اور عزم چاہیے جو دوسروں تک نیکی ، بھلائی اور خیر کا جذبہ اور احساس پہنچانے سے جنم لیتا ہے۔ آپ بھی قلم اُٹھائیے، اﷲ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس قلمی جہاد میں شریک ہوجایئے، ہوسکتا ہے کہ آپ کے قلم کے چند الفاظ دوسروں کی زندگی میں انقلاب لانے کا باعث بن جائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر ہے۔ اور دوسروں کو کچھ نہ کچھ لکھنے پر اکساتی ہے۔

اگرچہ گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک چھوٹا سا روشن چراغ سارے ماحول کو روشن نہیں کر سکتا ہے لیکن ایک بھٹکے ہوئے مسافر کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر اُمید کی کرن تو دکھا سکتا ہے

اگر گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک چھوٹا سا روشن چراغ سارے ماحول کو روشن نہیں کر سکتا تو یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ ساری دنیا کے گھٹا ٹوپ اندھیرے اس چھوٹے سے چراغ کو بُجھا بھی نہیں سکتے۔ اور یہ آگے بڑھنے کی امید دلاتا ہے۔
 
Top