مجھے ڈر لگتا ہے

جاسم محمد

محفلین
مجھے ڈر لگتا ہے
JULY 27, 2020

ادارتی صفحہ

ایک خط موصول ہوا۔ لکھنے والے سندھ کے سابق اکائونٹنٹ جنرل شیخ محمد اشرف ہیں جنہوں نے اس خط میں اُس درد کا اظہار کیا جس کا تعلق ہم سب ہے لیکن اس کا احساس سب کو نہیں۔ اُن کی شکایت پاکستان کے ٹی وی چینلز سے تھی اور اُن کا کہنا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہمارے ہاں جو گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ نہایت تشویشناک ہے، تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر ڈراموں کے نام پر جو فحاشی پھیلائی جا رہی ہے وہ بےانتہا خطرناک ہے۔ ان ڈراموں میں ایک چیز تسلسل کے ساتھ دکھائی جا رہی ہے جن میں سالی، بھابھی، دیور، بہنوئی، سسر، بہو جیسے قریبی اور احترام کے رشتوں تک کو پامال کیا جاتا ہے۔

آجکل تقریباً ہر دوسرے ڈرامے میں کہیں ایک سالی اپنے بہنوئی پر ڈورے ڈال رہی ہے، کہیں ایک بھابھی اپنے دیور پر فدا ہے، کہیں ایک دیور بھابھی کے چکر میں ہے تو کہیں ایک بہنوئی اپنی سالی کے پیچھے۔

شیخ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ایک تازہ ترین مثال ایک چینل پر چلنے والا ایک ڈرامہ ہے جس میں ایک منگنی شدہ لڑکی اپنے بہنوئی کے چکر میں پڑ کر اپنی منگنی توڑ دیتی ہے اور اب بہنوئی کے قریب ہونے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی اسی چینل پر ایک ڈرامہ چل رہا تھا جس میں ایک لڑکا اپنی پسند کی لڑکی، جس کی شادی ہو چکی ہے، کے شوہر کے گھر میں گھس کر اس کے گھر والوں سے کہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس لیے شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کے ساتھ بھیج دے۔

ایک اور ٹی وی چینل کا ذکر کرتے ہوئے شیخ اشرف صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اُس نے تو حد کی کر دی ہے۔ اُس چینل پر ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے جس میں ایک باپ اپنے سوتیلے بیٹے کی بیوی یعنی اپنی بہو پر کھل کر ڈورے ڈال رہا ہے اور اکثر نہایت suggestiveانداز میں اسکو اپروچ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس شخص نے اپنی سازشوں کے ذریعے اپنے سوتیلے بیٹے اور اسکی بیوی کی طلاق کروا دی اور اب اس لڑکی سے خود شادی کرنے جا رہا ہے۔

آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ یہ ہمارا کلچر تو نہیں ہے؟ اتنی اخلاقی گراوٹ، بےشرمی، بےحیائی اور بےغیرتی کا اتنے کھلے عام دکھائے جانے کا کیا مقصد؟ ہمارا میڈیا ہمارے معاشرہ کو کس طرف لے کر جا رہا ہے؟ ریٹنگ اور پیسہ کمانے کے لیے انٹرٹینمنٹ چینلز والے آخر کتنا گر سکتے ہیں؟ اس رجحان کے خلاف آواز کیوں نہیں اُٹھائی جاتی؟ اب تو حال یہ ہے کہ فیملی اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر آپ ڈرامہ نہیں دیکھ سکتے۔ ہر دوسرے ڈرامہ میں یہی کچھ دکھایا جاتا ہے، کہیں ایک استاد اپنی جوان شاگرد کے ساتھ زبردستی کر رہا ہے تو کہیں افسر اپنی ماتحت کے ساتھ زنا بالجبر۔

اس طرح تو رشتوں کا ایک دوسرے پر سے اعتماد ہی اُٹھ جائے گا۔ کسی کا کسی پر اعتماد نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ان ڈراموں میں جو دکھایا جا رہا ہے وہ حقیقت میں بھی کہیں ہوتا ہو لیکن ہر حقیقت دکھانے والی نہیں ہوتی اور وہ بھی اتنے تسلسل کے ساتھ کہ لوگ یہ سمجھنے اور یقین کرنے لگیں کہ ہمارے معاشرے میں ہر جگہ بس یہی کچھ ہو رہا ہے، ہر لڑکا، ہر مرد بدنظر اور بدکردار ہے اور ہر لڑکی ہر عورت بےحیا ، بےوفا اور بددیانت ہے۔

خط میں موبائل فون کے ذریعے گندے اشتہارات کی تشہیر کا معاملہ بھی اُٹھاتے ہوئے شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں اُنہوں نے اپنے طور پر متعلقہ اداروں بشمول پیمرا اور پی ٹی اے کو کئی بار ای میلز کے ذریعے شکایات بھیجی مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک جگہ اُن کی ایک ٹی وی چینل کی مالکہ سے بات ہوئی تو شکایت کرنے پر بولیں، ’’جی ! ہم کیا کریں، آجکل لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔

جس پر حیران ہو کر میں نے پوچھا کہ اگر لوگ پورنوگرافی دیکھنا چاہیں تو کیا آپ لوگوں کو وہ بھی دکھائیں گے۔ اس پر خاتون بغیر کوئی جواب دیے غصہ سے دیکھ کر چلی گئیں۔ شیخ صاحب نے آخر میں مجھے ان موضوعات پر لکھنے کی درخواست کی اور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اگر اس ٹرینڈ کو نہ روکا گیا تو یہ چینلز والے انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہماری معاشرتی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی اقدار کو تباہ وہ برباد کر دینگے۔

شیخ صاحب نے جو لکھا وہ میرے دل کی آواز ہے اور اس بارے میں نے بارہا لکھا بھی لیکن افسوس حکومت، عدالت، متعلقہ ادارے، سیاستدان، پارلیمنٹ اور دوسرے ذمہ دار سب کے سب ایک ایسی سردمہری کا اظہار کر رہے ہیں جسے دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے کہ کیا ہم اُس تباہی سے بچ سکتے ہیں جس کا ذکر اس خط میں کیا گیا؟
 
Top