مجھے نہ تیرا جو پیار ملتا---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
---------
مفاعلاتن مفاعلاتن
-----------
مجھے نہ تیرا جو پیار ملتا
کبھی نہ دل کو قرار ملتا
------
مجھے بناتے نہ تم جو اپنا
کبھی نہ ایسا وقار ملتا
------------
تری وفا نے دیا جو مجھ کو
کبھی نہ ایسا حصار ملتا
--------
اگر بچاتے نہ مجھ کو آ کر
قدم قدم پر ہی خار ملتا
--------------
یہ زندگی میں دیا جو تم نے
کہاں مجھے اعتبار ملتا
-------
دیا ہے مجھ کو یہ تم نے جیسا
کسی سے ایسا نہ پیار ملتا
--------
غریب مجھ سا جو مانگتا بھی
مجھے کسی کا اتار ملتا
----------
نہ لے کے دیتے مجھے یہ گاڑی
قدم قدم پر غبار ملتا
-----
غموں سے مجھ کو بچا لیا ہے
نہ تم سا تو غمگسار ملتا
------------
ہزار کوشش کے بعد تم کو
کبھی نہ ارشد سا پیار ملتا
-------------
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کو بھی خود ہی غور سے دیکھیں، اہم خامی یہ ہے کہ 'کبھی نہ' تقریباً ہر شعر میں دہرایا گیا ہے بلکہ دو تین اشعار کے علاوہ ہر شعر کا خیال ایک ہی ہے کہ محبوب نے ہی پیار، اعتبار، وقار بخشا ہے
مقطع میں 'ارشد سا پیار' بے معنی ہے، 'ارشد کا سا پیار' درست ہوتا
 
الف عین
عظیم
-----
اصلاح کے بھر ایک بار پھر
----------
مجھے نہ تیرا جو پیار ملتا
کبھی نہ دل کو قرار ملتا
------
مجھے جو عزّت خدا نے بخشی
کسے ہے ایسا وقار ملتا
------------
خدا کی رحمت نے جو دیا ہے
کہاں سے ایسا حصار ملتا
--------
میں خوار ہوتا جہاں میں سارے
قدم قدم پر ہی خار ملتا
--------------
یہ زندگی میں ملا ہے اب جو
مجھے نہ یہ اعتبار ملتا
-------
دیا ہے مجھ کو یہ تم نے جیسا
کسی سے ایسا نہ پیار ملتا
--------
غریب مجھ سا جو مانگتا بھی
مجھے کسی کا اتار ملتا
-------
ترس گیا ہوں میں جس کی خاطر
اے کاش وہ غمگسار ملتا
------------
کسی کے میں بھی تو دکھ بٹاتا
اگر مجھے اختیار ملتا
---------
تجھے نہ ارشد جہان بھر میں
کبھی نہ ایسا تو یار ملتا
-------
 

الف عین

لائبریرین
مجھے نہ تیرا جو پیار ملتا
کبھی نہ دل کو قرار ملتا
------ درست

مجھے جو عزّت خدا نے بخشی
کسے ہے ایسا وقار ملتا
------------ درست مگر کیوں؟

خدا کی رحمت نے جو دیا ہے
کہاں سے ایسا حصار ملتا
--------درست

میں خوار ہوتا جہاں میں سارے
قدم قدم پر ہی خار ملتا
-------------- اسے نکال دیا جائے، ایک ہی خار ملتا؟

یہ زندگی میں ملا ہے اب جو
مجھے نہ یہ اعتبار ملتا
------- ٹھیک، لیکن اسے محبوب سے منسوب کرو تو بہتر
جو زندگی میں ملا ہے تم سے
کبھی نہ.....

دیا ہے مجھ کو یہ تم نے جیسا
کسی سے ایسا نہ پیار ملتا
-------- ٹھیک، 'دیا ہے جیسا یہ تم نے مجھ کو' میں روانی بہتر ہے کیا؟

غریب مجھ سا جو مانگتا بھی
مجھے کسی کا اتار ملتا
------- اتار. شاید مراد 'اترن' سے ہو، ورنہ اتار درست استعمال نہیں

ترس گیا ہوں میں جس کی خاطر
اے کاش وہ غمگسار ملتا
------------ درست

کسی کے میں بھی تو دکھ بٹاتا
اگر مجھے اختیار ملتا
--------- درست

تجھے نہ ارشد جہان بھر میں
کبھی نہ ایسا تو یار ملتا
------- تو یار اچھا نہیں لگ رہا
کبھی نہ اس جیسا یار... بہتر ہو گا
 
Top