ام اویس

محفلین
”ہرگز نہیں! میں اسے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔“ابوبکر نے سختی سے کہتے ہوئے بلال کا ہاتھ پرے کیا: ”یہ بے ایمانی ہے ، تم نے دھوکے سے پیسے دئیے بغیر یہ برگر لیا ہے۔“ وہ حیران بھی تھا اور سخت غصے میں بھی۔ سکول میں بریک کے وقت بھیڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلال نے کنٹین سے برگر اُڑا لیا اور ہنستے ہوئے اسے بھی کھانے کی دعوت دے رہا تھا، اسے اپنی اس حرکت پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔
”کیا تمہیں آج جیب خرچ نہیں ملا؟“ ابوبکر نے بلال سے پوچھا۔
”ملا تھا لیکن میں نے آن لائن پب جی کی سکن خرید لی، تمہیں کیا پتہ گیم کے لیے سکن کتنی ضروری ہے، تم تو گیم کھیلتے ہی نہیں“ ۔ بلال نے گویا اس کا مذاق اڑایا:
”توبہ توبہ! الله ایسے کھیل سے بچائے،جس کے لیے چوری کرنا بھی برا نہ لگے۔
”لیکن یہ چوری نہیں ہے!“ بلال بڑبڑیا:
ابوبکر غصے میں بغیر کچھ لیے، کنٹین سے باہر آ گیا۔
اگلا پیریڈ ڈرائنگ کا تھا، کل ہی ابا جان نے اسے نیا کلر باکس لا کر دیا تھا، جس میں پنسل کلر، پیسٹل کلر ، رنگ برنگے مارکر کے ساتھ واٹر کلر بھی موجود تھے۔ اس نے خوشی خوشی بیگ کھولا لیکن کلر باکس اس میں موجود نہیں تھا۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ہائے میرے کلرز !اس نے ادھر ادھر دیکھا تو تیسری کرسی پر بیٹھے فہد کے ہاتھ میں اس کا کلر باکس دکھائی دے رہا تھا۔
ابوبکر نے اس سے کہا: ”تم نے میرے بستے سے کلر باکس کیوں نکالا ہے؟“
وہ بولا : ”یہ تو میرا ہے۔“ ابوبکر نے جھٹ سے جواب دیا: ”اس پر میرا نام لکھا ہے۔“ فہد نے الٹ کر دیکھا تو ابوبکر کا نام لکھا ہوا تھا۔ اتنے میں ان کی آوازیں سن کر مس سیما ادھر متوجہ ہوگئیں۔ ابوبکر نے کھڑے ہوکر مس کو فہد کی اس حرکت کے متعلق بتایا۔ فہد جلدی سے،اسے کلر باکس واپس دیتے ہوئے بولا : ”میں تو مذاق کر رہا تھا“۔ ابوبکر جانتا تھا اگر اس کی امی جان نے کلر باکس پر اس کا نام نہ لکھ دیا ہوتا تو وہ آج کلر باکس سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔
کیا ہوگیا ہے میرے دوستوں کو؟ ابوبکر نے تاسف سے سوچا:
آخری پیریڈ فری تھا۔ معمول کے مطابق سر خرم کلاس میں آگئے۔ سر خرم عموماً فری پیریڈ میں آتے تھے۔ بڑے پیار اور محبت بھرے انداز میں بچوں کو قصے کہانیاں سناتے،دلچسپ باتیں بتاتے اور باتوں ہی باتوں میں انہیں بہت کچھ سکھا دیتے تھے۔
کمرۂ جماعت بچوں کی آوازوں اور ہنسی سے گونج رہا تھا
”السلام علیکم !“ کمرے میں داخل ہوتے ہی سر خرم بلند آواز میں بولے:
بچے فورا ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور سب نے ایک آواز میں وعلیکم السلام کہا:
”پیارے بچو! کیسے ہو؟“ سر خرم نے مسکراتے ہوئے بچوں سے پوچھا:
الحمد لله! سب نے بیک آواز جواب دیا: ایسا کرنا بھی انہیں سر خرم نے سکھایا تھا
ہاں تو بچو! کوئی خاص بات جس کے متعلق آج گفتگو کی جائے؟ سر خرم کی عادت تھی وہ بچوں سے پوچھ کر موضوع کا انتخاب کرتے تھے۔
ابوبکر نے ہاتھ کھڑا کیا اور سر کی اجازت ملنے پر بولا: ”سر کیا بغیر اجازت کسی کی چیز لینا ٹھیک ہے؟“
سرخرم نے ہاتھ سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا:
”پیارے بچو! آج میں آپ کو اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔“
”یہ واقعہ صحابی رسول حضرت جابررضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے اور حدیث کی ایک مستند کتاب مسندِ احمد میں موجود ہے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جارہے تھے۔ ایک خاتون نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول فرمائی ۔ اس عورت نے ایک بکری ذبح کی اور کھانا تیار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے سامنے دستر خوان لگا دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ لیا مگر اس کو کھا نہیں سکے یعنی حلق سے نہیں اتار سکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے یہ بکری اصل مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کی گئی ہے۔“
سر خرم نے لمبا سانس لیا اور غور سے بچوں کی طرف دیکھا۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی، بچے پوری توجہ سے قصہ سن رہے تھے۔
”پھر کیا ہوا؟“بلال بے اختیار بولا:
”اس خاتون نے عرض کیا کہ ہم لوگ (اپنے پڑوسی) معاذ کے گھر والوں سے کوئی تکلف نہیں کرتے ہم ان کی چیز لے لیتے ہیں اور اسی طرح وہ ہماری چیز لے لیتے ہیں۔“
سر خرم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے، پھر کہنے لگے۔
”پیارے بچو! خاص بات جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وہ بکری نہ چرائی گئی تھی نہ چھینی گئی تھی بلکہ باہمی اعتماد و تعلق اور رواج کی وجہ سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور اسی طرح اس کو ذبح کر لیا گیا۔ اس کے باوجود اس میں ایسی برائی اور خرابی پیدا ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو نہیں کھا سکے اور حلق سے نہیں اتار سکے۔“
”اس واقعے سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟“ سر نے بچوں سے سوال کیا:
بچوں کی خاموشی پر وہ دوبارہ گویا ہوئے:
”یہی نا! کہ دوسروں کی چیز بغیر اجازت لے لینے اور استعمال کرنے کے بارے میں کس قدر احتیاط کرنی چاہیے اور اگر کوئی چیز چھین لی جائے یا دھوکے سے اٹھا لی جائے یا جانتے بوجھتے دوسرے کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر لے لی جائے تو اس میں کس قدر برائی اور خرابی ہوگی۔ ایسا کام چوری ہی کہلاتا ہے۔“
”کیا معمولی سی چیز بھی بغیر اجازت لے لینا چوری ہے؟“ فہد نے پوچھا:
”جی بالکل!“ سر نے ٹھوس لہجے میں جواب دیا:
”ہوسکتا ہے جسے آپ معمولی سمجھ رہے ہوں وہ اس چیز کے مالک کے لیے معمولی نہ ہو اور پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں ؟ چوری بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔“
سر خرم نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ”مجھے امید ہے آئندہ آپ کسی کی چیز بغیر اجازت نہیں لیں گے۔“
”یس سر !“ بچوں نے پرجوش آواز میں جواب دیا۔
چھٹی کی گھنٹی بج گئی۔ سر خرم کے جانے کے بعد فہد اپنا بستہ اٹھاتے ہوئے ابوبکر کے قریب آیا اور اس سے کہنے لگا: ”سوری یار! میں نے بغیر اجازت آپ کا کلر باکس لیا تھا، میں اسے چوری نہیں کرنا چاہتا تھا۔“
”کوئی بات نہیں! آئندہ خیال رکھنا“ ابوبکر نے مسکرا کر جواب دیا اور دونوں کمرے سے باہر آگئے۔
اگلے دن بریک ٹائم بلال برگر لے کر ابوبکر کے پاس آیا اور اسے کھانے کی دعوت دی۔ ”نہ بابا! میں نہیں کھاؤں گا۔“ ابوبکر نے ہاتھ کے اشارے سے منع کرتے ہوئے کہا:
”ارے بھائی! میں نے کنٹین والے انکل کو کل والے برگر کے پیسے بھی دے دئیے ہیں اور یہ برگر بھی پیسے دے کر خریدا ہے۔“ بلال نے شرمندگی سے آنکھیں جھپکتے ہوئے کہا:
”لاؤ پھر یہ میرا ہوا۔“ ابوبکر نے اس سے برگر پکڑا اور دوڑ لگا دی۔
”مجھے بھی دو۔“ بلال بھی کہتا ہوا اس کے پیچھے دوڑا۔
دونوں کی پرسکون ہنسی فضا میں پھیل گئی۔
نزہت وسیم
۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
اچھی تحریر ہے۔درس کو کہانی اور کرداروں کے درمیان گفتگو کے ذریعے سے دلچسپ کر کے پیش کرنا نہ صرف چھوٹے بچوں بلکہ ہم ایسے بوڑھے بچوں کے لیے بھی یکساں مفید ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔آمین
 

ام اویس

محفلین
اچھی تحریر ہے۔درس کو کہانی اور کرداروں کے درمیان گفتگو کے ذریعے سے دلچسپ کر کے پیش کرنا نہ صرف چھوٹے بچوں بلکہ ہم ایسے بوڑھے بچوں کے لیے بھی یکساں مفید ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔آمین
بہت شکریہ!
اللہ کریم ہمیشہ بچوں جیسا خالص رکھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی اصلاحی کہانی ہے!
یقیناً آپ ہی نے لکھی ہے ۔ :D ۔ اسلوبِ تحریر ، کردار اور کہانی کی اصلاحی فضا آپ کے مخصوص طرز کی غماز ہیں ۔
بہت داد و تحسین!
 
Top